Friday, May 23, 2014

تاریخ اسلام میں سبائی روایات کی ملاوٹ کیسے

اسلامی تاریخ  پر لکھی گئی کوئی کتاب  جب کسی مسلمان قاری کے مطالعہ میں آتی ہے تو وہ  قرون اولی اور صحابہ کی زندگی  کے واقعات  کو اسی حسن ظن اور عقیدت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے ذریعے اس کے ذہن میں  بیٹھی ہوتی ہے، لیکن   آہستہ آہستہ جب تاریخ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے  اور وہ صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پڑھتا ہے تو پریشان ہو جاتا کہ   یہ کیسے خیرالقرون کا تذکرہ ہے؟ قرآن نے تو ہمیں بتاتا ہے کہ تم نے   ایمان لانا ہے  تو اس طرح ایمان لاؤ جس طرح یہ صحابہ لائے  تب تمہار ا ایمان قابل قبول ہوگا، اور تاریخ  انہیں بے ایمان ثابت کررہی ہے ۔ ۔ قرآن وحدیث انکی صداقت، شجاعت،  اخلاص، سچاہی،  ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ دیتے نظر  آتے ہیں  (اولئک ھم  الراشدون، مفلحون،  صدیقون  وغیرہ)اور تاریخ ( نعوذ بااللہ)  انہیں چور ، ڈاکو ، مکار،  منافق   اور بد اخلاق ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔  یہ باتیں  اسکے لیے بہت عجیب اوراسکی توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ شاید  اس میں قصور  کتاب کے فرنٹ پیج  پرتاریخ کے ساتھ  استعمال کیے گئے لفظ  'اسلام' کا بھی  ہوتا ہے جو قاری کو شروع میں ہی  اعتماد دلا  دیتا ہے اور وہ اسے ایک اسلامی کتاب کے جذبے سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن پھر سبائی  دروغ گواور کہانی نگاروں  کی تدسیس، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری اسے کنفیوز کردیتی  ہے۔ 

تاریخ اسلام کا  گہرائی میں مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ   عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے بد باطن حمایتیوں نےمذہب  عیسائیت کی طرح اسلام کو  بھی ریزہ ریزہ  کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی عقیدت  کے نام پر اتنی خفیہ اور جذباتی تحریک چلائی تھی  کہ اگر اسلام نے قیامت تک قائم نہ رہنا ہوتا اور اس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد نہ ہوتی تو یہ بھی اسی اپنے شروع دور میں ختم ہوجاتا۔ ان لوگوں نے خفیہ رہ کر پراپیگنڈہ مہم اس طرز پر چلائی تھی کہ محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے شخص بھی کچھ ہی دیر کے لیے سہی بہرحال ان کے دام میں اس طرح آگئے کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل کے درپے ہوگئے،  یہ الگ بات ہے کہ توفیق خداوندی انکے معاون رہی اور جلد ہی ان کو اپنے اس شرمناک فعل پر ندامت ہوگئی۔ انہی   افواؤں ،  پراپیگنڈہ  اور مختلف چالوں کے ذریعے مسلمانوں کو بعد  میں   آپس میں لڑوا بھی دیا گیا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں سبائیوں کی گھڑی ہوئی ان  داستانوں کو کیسے جگہ ملی  ؟
اس اختلافی دور کے واقعات جب بعد میں قلم بندہوئے تو  چونکہ تاریخ اسلامی  میں حدیث کی طرح سند  اور متن کی تحقیق  کا کوئی سلسلہ نا تھا یا جرح و تعدیل کے  کوئی اصول و قوانین لاگو نہ ہوتے  تھے اس لیے  ہر دور اور ہر فرقہ کے لوگوں نے اپنی سمجھ بوجھ اور پسند ناپسند کے معیاروں پر تاریخی  واقعات کو قلم بند کیا جن میں انکی اپنی مرضی و منشا اور حسب دلخواہ تحریف و تبدل کو عمل دخل حاصل تھا،   خصوصا دشمنان اصحاب رسول سبائیوں رافضیوں کو تاریخ میں  انکے بارے میں اپنی  خبث باطنی شو کرنے کابھرپور موقع ملا ، انہوں نے ان ادوار کے بارے  میں اپنی طرف سے کہانیاں ، روایتیں گھڑی کرکے  اور اصل روایتوں میں اپنی پسند کے مطابق  ملاوٹ کرکے اسکی اشاعت کی  ،  انہوں نے   بڑی صفائی کے ساتھ یا تو اصل تاریخی  روایات کو  ہی غائب کردیا   یاان میں  اپنی  مرضی کی باتوں اور خیالات کو اس طرح مکس کیا کہ وہ اصل واقعہ ہی نظر آنے لگیں، پھر جب تاریخ کی بڑی کتابیں مرتب ہوئیں تو مورخین کو  متعلقہ موضوع کے متعلق کوئی روایت کہیں سے ملی انہوں نے مکمل تحقیق کیے بغیر ان کو  اپنی کتابوں میں ذکر کردیا (کیونکہ تاریخ مرتب کرنے میں حدیث کی طرح  راوی اور روایت کی چھان بین  اور تحقیق کی پابندی لازمی نہیں تھی)۔ صحابہ  کےا ختلاف کے متعلق اس قسم کی  روایتیں محمد بن عمر الواقدی ،محمد بن اسحاق،    ابو مخنف لوط بن یحیی، ، محمد بن سائب الکلبی اور اسکے بیٹا ہشام کی وساطت سے تاریخ اسلام کے تمام بڑے مورخین اور مصنفین تک  پہنچی ہیں، پہلے دو کی کتابوں میں کچھ ضعیف روایات موجود ہیں اور باقی تین پرلے درجے کی جھوٹی روایتیں قبول کرنے والے تھے، اسماء و رجال کی  کتابوں میں بھی   ان پر سخت بے اعتمادی کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ لوگ خود روایتیں گھڑتے ہیں ۔ ان راویوں کی تمام روایتوں کو جنکو سب سے پہلے طبری نے اپنی تاریخ میں جگہ دی اور پھر طبری سے نقل در نقل ہو کر تقریبا تما م متداول تاریخی کتابوں میں درج ہوگئیں۔  مطلب صحابہ کے اختلافات کے واقعات کے متعلق تاریخ کی بڑی کتابوں میں موجود ذیادہ تر روایتوں کا ماخذ تاریخ طبری ہے   اور طبری نے  ان واقعات کے متعلق تفصیل خود  ان   پانچ   راویوں  کی کتابوں سے کاپی کی  ہے ۔ آخری تین راویوں نے اپنی کتابوں میں ان واقعات کے سلسلے میں صحابہ کے خلاف مزیدغیر اخلاقی کہانیاں بھی  گھڑ ی ہوئیں  تھیں، خود  طبری  بھی اپنی کتاب میں کئی جگہ لکھتے ہیں  کہ  ابومخنف لوط اور محمد بن عمر  کی کتاب میں اس واقعہ  کے متعلق اور بھی باتیں اور تفصیل  موجود ہیں جو ذکر کے قابل نہیں   ہے۔

ہم  یہ نہیں کہتے  کہ ساری تاریخ اسلام ہی کرپٹ  اور گمراہ کن ہے بلکہ  یہ کہ تاریخ  اسلام میں صحابہ کے واقعات میں جگہ جگہ ذہن کو پراگندہ کرنے والی سبائی  روایات کی ملاوٹ موجودہے جن کو پڑھ کر عام لوگ صحابہ کے بارے میں وساوس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ان کو پڑھ کربعد کے دور کے کئی سنی محقق بھی سبائیت کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے حضرت عثمان ،  علی ، معاویہ،  ابوموسی اشعری  اور عمروبن العاص جیسے جلیل قدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قد ناپنے لگ گئے  ہیں  انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں کہ محض جھوٹے  سبائی تاریخی حوالوں کی بنیاد پر  وہ کس پر تنقید   کررہے ہیں اور یہ تنقید کتنی خطرناک ہے، اگرصحابہ  کے بارے میں صرف  تاریخ کی بات کو مان لیا جائے توپھر   خمینی کی بات کو بھی ماننا پڑے گا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن رسالت میں ناکام رہے اانہوں نے تیئس سالہ محنت میں جو لوگوں کی جماعت تیار کی وہ کرپٹ،  منافق، عیار تھے، پھر تو اسلام کے اصلی ماخذ قرآن و حدیث  بھی مشکوک ٹھہریں گے  کیونکہ وہ بھی انہی صحابہ کی وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں۔ حقیقت میں سبائیت  ایک ایسا ' معصوم زہر' ہے جو عقیدت کے پردوں سے چھن کر جب ذہن  و دماغ میں سرایت کرتا ہے تو فکرونظر کی تمام صلاحیتوں کو مضمحل بلکہ مفلوج کردیتا ہے اور پھر گل کاریوں کے وہ وہ نمونے سامنے آتے ہیں کہ  حق کے ایک متلاشی کو قدم قدم پر بکھرے  ہوئے کانٹوں سے اپنا دامن  بچانا مشکل ہوجاتا ہے....۔اس قسم کی روایتوں سے پرانی اور نئی ساری تاریخی کتابیں بھری پڑی ہیں،    مثال کے طور پر تاریخ کے موضوع پر سب سے مشہور، مستند اور عام فہم کتاب  اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی تاریخ اسلام ہے   ۔وہ بھی اپنی اس کتاب میں     چند ایسی روایتوں کو  بغیر تحقیق  کے نقل  کرگئے ہیں  گو کہ انہوں نے  بعد میں مشاجرات صحابہ پر  جاندار تبصرہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ تاریخ  اسلامی میں سبائی روایات کو جگہ ملنے کی ایک اور وجہ تدسیس بھی ہوسکتی ہے جس پر ایک تفصیلی مضمون ہم پہلے لکھ چکے ہیں ،   جب ان لوگوں نے ہمارے بزرگان دین کی بڑی اسلامی کتابوں میں انکی زندگی میں  اپنے نظریات کی  ملاوٹ کرنے کی جرات کی ہے  تو تاریخ کی کتابوں میں تحریف  و تدسیس کرنا ان کے لیے ذیادہ مشکل کام نہیں تھا۔

سبائی تاریخی روایتوں کی پہچان اور معیار ردوقبول 
  1. جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ   ایسی تمام روایتیں جن سے صحابہ کا کردار مجروح ہورہا ہو وہ ذیادہ تر کذاب راویوں کی روایت کردہ ہوتی ہیں اور  یہ تمام راوی خود روایتیں وضع کرنے اور گھڑی ہوئی روایتوں کو قبول کرنے کے لیے مشہور ہیں اور ابو مخنف لوط بن یحیی کی  تین روایتوں کے تجزیے میں بھی یہ بات بھی   ثابت   ہوچکی کہ اس میں  صحابہ  کے ذمے لگائے جانے والے بہتان اور بد اخلاقیاں، زبان درازیاں اس کی اپنی وضع کردہ ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں ، اس لیے ان راویوں کی  کسی روایت پر یقین نہیں کرنا چاہیے
  2.  تاریخ کی   بڑی کتابوں کے اردو تراجم میں عام طور پر راوی کا تذکرہ نہیں کیا گیا   اس لیے ان راویوں  کی روایتوں کو مضمون سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔ ہر تاریخی روایت جس میں صحابہ کی طرف کرپشن، منافقت،  زبان درازی، مکاری  منسوب کی گئی  ہو، وہ ذیادہ تر انہی سبائیوں کی گھڑی ہوئی ہیں  ۔ اس لیے ایسی روایت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جس سے صحابہ کرام  کا کردار مجروح ہو رہا ہو کیونکہ یہ لوگ خود مجروح  اور کرپٹ ہیں ۔  
  3.  راوی اور روایت کی  پہچان کےعلاوہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے بیٹے  عطاء المحسن بخاری صاحب   نے روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے   ایک اور بالکل آسان طریقہ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:۔
" تاریخ کو قبول کرنے کے لیے مجھے قرآن  وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اسکی جو روایتیں قرآن وحدیث  کی تعلیم کے مطابق ہونگی میں انہیں بڑی محبت سے قبول کروں گا  اور جو روایتیں، حکایتیں، رذالتیں، قباحتیں قرآن وحدیث سے ٹکرائیں گی میں انہیں نہ صرف رد کروں گا بلکہ اپنے پاؤں میں مسلوں گا ، کیونکہ وہ تاریخ نہیں جھوٹ ہے ، تہمت ہے ، بہتان اور دشنام ہے اور انسانیت سے گری ہوئی باتیں ہیں، تاریخ کے حوالے دے کر صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم پر تبراہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں ہے  کیا اس سے بہتر نہیں کہ تاریخ کی اندھی (رافضی) عینک سے اصحاب مصطفی کی عیب چینیوں کی بجائے قرآن وحدیث سے انکی فضیلتوں اور قدرومنزلت پر نگاہ کی جائے ۔ (اگر یہ لوگ قرآن وحدیث کی اصحاب کے بارے میں دی گئی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر  محض تاریخی روایتوں کے ذریعے ان  پر نکتہ چینی جاری رکھتے ہیں  تو ) ایسے نام نہاد 'تاریخ دان' ہمارے نزدیک 'تھوک دان' کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے"۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔

1 comment:

  1. جزاک اللہ صحیح فرمایا ۔اللہ علم و حلم میں اضافہ فرماے آمین۔

    ReplyDelete