Monday, June 13, 2016

قادیانیوں کے بلا اجرت وکیلوں سے ہوشیار.. تصویر کا دوسرا رخ

قادیانیوں کے بلا اجرت وکیلوں سے ہوشیار.. تصویر کا دوسرا رخ


مصنف : حافظ عبيدالله

=====================================
آج کل پھر وہی مردہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو 1974 میں ہمیشہ کی لئے منوں مٹی تلے دفنادیا گیا تھا، آئیے میں آپ کو ماضی میں لیے چلتا ہوں، سنہ 1839 يا 1840 میں ہندوستانی پنجاب کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے ایک گاؤں قادیان میں مرزا غلام مرتضى بیگ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام غلام احمد رکھا گیا، جو بعد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے مشہور ہوا، مرزا قادیانی تقريباً 69 سال کی عمر پا کر 26 مئى 1908 کو لاہور میں بمرض هيضه اگلے جہاں چلا گیا، اس مرزا قادیانی نے پہلے تو تدریجی طور پر "مجدد" "امام مہدی" "مسیح موعود" ہونے کا دعوے کیے، اور بعد میں صریح طور پر اپنے آپ کو "نبی" اور "رسول" کہنے لگا، صرف یہی نہیں اسکا دعوا یہ تھا کہ وہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کا دوسرا ظہور ہے، اور جس نے میرے اور حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم کے درمیان فرق کیا اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں، اس نے کہا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے دو بار دنیا میں مبعوث ہونا تھا، ایک بار وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین پر تشریف لائے، اور دوسری بار میری شکل میں قادیان میں ان کا ظہورہوا ...
(حوالے طلب کرنے پر پیش کیے جا سکتے ہیں)

مرزا قادیانی نے 1880 تا 1884 اپنی پہلی کتاب کے چار حصے شائع کیے جس کا نام اس نے "براهين احمديه" رکھا، اس کتاب میں اگرچہ اس نے صریح طورپر کوئی ایسی بات نہ لکھی جس پر بلا شک اس پر کفر کا فتویٰ لگے، لیکن ایسی گول مول باتیں اورایسے الہام لکھے جنہیں پڑھ کر اس وقت کے زیرک اور صاحب بصیرت علماء نے بھانپ لیا کہ یہ شخص کس چیز کی بنیاد رکھنے جا رہا ہے، اسی خطرےکو بھانپتے ہوے براہین احمدیہ کے شائع ہونے کے فورا بعد سنه 1301 هجرى میں لدھیانہ کے چند علماء نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ دے دیا، جبکہ کچھ دوسرے علماء نے براہین احمدیہ میں لکھی باتوں کو بے دینی اور لا مذہبیت تو کہا لیکن صریح کفر کا فتویٰ نہ دینے میں ہی احتیاط سمجھی.... لیکن جب مرزا قادیانی نے اپنی اگلی کتابیں فتح اسلام ، توضيح مرام اور ازاله اوهام وغيره لکھیں تو ان محتاط علماء کو بھی اپنی احتیاط ترک کرنی پڑی اور اہل حدیث عالم مولانا محمد حسين بٹالوی نے جو مرزا کے ہم مکتب بھی رہے تھے ایک استفتاء لکھ کر مختلف علاقوں کے مفتیان کے پاس بھیجا اور تمام علاقوں کے معروف مفتیان نے مرزا کی کفریہ تحریرات کی بناء پر متفقہ طور پر اسکےخلاف کفر کا فتویٰ دیا ...جو مولانا بٹالوی نے شائع کردیا، اسی طرح انہی دنوں لاہور کے ایک عالم مولانا غلام دستگیر قصوری نے بھی علماء حرمین اور دوسرے علماء سے مرزا کے خلاف کفر کا فتویٰ لیا جو بوجوہ شائع مولانا بٹالوی کے فتوے کے بعد ہو سکا ...

مورخہ 7 مئى سنہ 1907 كو خود مرزا قادیانی نے اپنے مریدوں کے لیے ایک اشتهار شائع کیا جس میں اس نے لکھا کہ :
"اگر تم اس گورنمنٹ (یعنی انگریز کی حکومت- ناقل) کے سایہ سے باہر نکل جاؤ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے گی، ہر اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لیے دانت پیس رہی ہے، کیونکہ انکی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو"
"تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم واجب القتل ہو"
(مجموعه اشتهارات مرزا قادياني ، جلد 2 صفحه 709 جديد ایڈیشن)
یہ مرزا قادیانی کی طرف سے اس بات کی تائید ہے کے اسکی زندگی میں ہی تمام مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ وہ اور اسکے ماننے والے کافر ہیں ...

لہذا یہ بات کہنا کہ مرزا قادیانی اور اس کی جماعت (قادیانی/ مرزائی) کو 1974 میں کافر قرار دیا گیا درست نہیں، شرعى و مذهبى طور پر کافر تو وہ اس وقت سے قرار دیے جاچکے تھے جب مرزا نے کفریہ دعوے کیے تھے، چونکہ پاکستان بننے کے بعد مرزا کی جماعت قادیان چھوڑ کر پاکستان میں آ گئی اور لوگوں کو دھوکہ دیتے چلے آ رہے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہیں تواس دھوکے کا سد باب کرنے کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی تحریک کے نتیجے میں انکا غیر مسلم ہونا پاکستان کے آئین میں بھی ڈال دیا گیا ... دوسرے لفظوں میں 1974 میں قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کو قانونی حيثيت بھی دے دی گئی جبکہ شرعى طور پر وہ پہلے ہی سے غیر مسلم تھے ...اور 1974 میں بھی یونہی یہ کام نہیں ہو گیا، بلکہ قادیانیوں کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا اور پاکستان کی اس وقت کی قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر سوال و جواب کی متعدد مجلسیں ہوئیں کیے گئے .... اور اسکے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ایسے عقائد رکھنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے اور یہ جو لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یہ سراسر دھوکہ دیتے ہیں ..

آج اپنے آپ کو "سکالر" سمجھنے والے چند لوگ یہ سوال کرتےنظر آتے ہیں کہ کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟ کچھ فیس بکی لکھاری اس پر مضمون لکھتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے قانون میں قادیانیوں کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں، یہ ان قادیانیوں کی وکالت کرتے ہیں جنہوں نے آج تک آئین پاکستان کو قبول نہیں کیا، جو آج بھی دھڑلے سے اپنے آپ کو مسلمان بلکہ "اصلی مسلمان" کہتے ہیں اور اپنے علاوہ دوسروں کو کافر کہتے ہیں... جی ہاں! حیران نہ ہوں ... شاید کوئی قادیانی یا قادیانی نواز کہے کہ "قادیانی تو کسی کو کافر نہیں کہتے" ... تو آنکھیں کھول کر یہ حوالے پڑھیں:

مرزا قادیانی پر ہونے والی نام نہاد وحی اور الہامات کو ایک مجموعه "تذكره" کی شکل میں شائع کیا گیا ہے، اس میں مرزا قادیانی کی یہ بات لکھی ہے:
"خدا تعالى نے میرے پرظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذه ہے"
(تذکرہ، صفحه 519 طبع چہارم)
غور کریں مرزا قادیانی اپنے خدا کی وحی بتا رہا ہے کہ جس نے بھی میرے دعووں کوقبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے... قادیانیوں کے بلا اجرت وکیل بھی سوچیں کیا وہ مرزا قادیانی کو "امام مہدی" "مسیح موعود" اور "نبی و رسول" مانتےہیں؟ اگر نہیں مانتے تو مرزا کے فتوے کے مطابق وہ مسلمان نہیں ہیں ..

ایک اور جگہ مرزا قادیانی نے لکھا:
"ان الہامات میں میری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، اور خدا کی طرف سے آیا ہے، جوکچھ کہتا ہے اس پرایمان لاؤ، اور اس کا دشمن جہنمی ہے"
(رساله دعوت قوم ، مندرجه روحانى خزائن جلد 11 صفحه 62 حاشيه)
یعنی جو مرزا کی بات پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنمی ہے.

اسی تذکرہ میں مرزا نے اپنےخدا کی ایک نام نہاد وحی یوں لکھی ہے:
"جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا، اور تیری بيعت میں داخل نہیں ہوگا، اور تیرا مخالف رہے گا،وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا ہے"
(تذكره ، صفحه 280 طبع چہارم)
لیجیے جو مرزا قادیانی کی پیروی نہ کرے اور اسکی بيعت میں داخل نہیں ہوا وہ خدا اوررسول کا نافرمان ٹھہرا .

آگے چلیں، مرزا نے اپنے مخالفین کے بارے میں لکھا :
"جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی، یہودی اور مشرک رکھا گیا"
(نزول المسيح ، مندرجه روحانى خزائن جلد 18 صفحه 382)
یعنی جو بھی مرزا کا مخالف ہے اور اسکے دعووں کو قبول نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں بلکہ یہودی ، عیسائی اور مشرک ٹھہرا .

مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین کو گالیاں بھی دیں، ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
"ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیرے ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں"
(نجم الهدى ، مندرجه روحانى خزائن جلد 14 صفحه 53)

اب قادیانیوں کے وکیل اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر مرزا قادیانی کے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے نام نہاد خلیفے مرزا محمود کا یہ بیان پڑھیں:
"کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (یعنی اسکے مطابق مرزا قادیانی- ناقل) کی بيعت میں شامل نہیں ہوے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں"
(آئينه صداقت مصنفه مرزا بشير الدين محمود ، مندرجه انوار العلوم جلد 6 صفحه 110)

یہی مرزا محمود دوسری جگہ لکھتا ہے:
"ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں (یعنی غیر قادیانیوں - ناقل) کو مسلمان نہ سمجھیں، کیونکہ وہ ہمارے نزدیک خدا تعالى کے ایک نبی کے منکر ہیں"
(انوار خلافت مصنفه مرزا بشيرالدين محمود ، مندرجه انور العلوم جلد 3 صفحه 148)

وہ تمام اینکرز، وہ تمام فیس بکی علّامے، جو قادیانیوں کی وکالت کرتے نہیں تھکتے اپنے آپ سے پوچھیں کیا انہوں نے مرزا قادیانی کو مسیح موعود مان کراسکی بيعت کی ہے؟ اگر نہیں کی تومرزا محمود کے فتوے کےمطابق وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں...کیا وہ مرزا قادیانی کو الله کا نبی مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ بقول مرزا محمود الله کے ایک نبی کے منکر ہوے اور کافر ٹھہرے ...
واضح رہے کہ مندرجہ بالا تمام تحریرات 1974سے بہت پہلے کی ہیں ... اب میرا سوال یہ ہے کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے پر پیچ و تاب کھانے والے دانشور یہ بتا سکتے ہیں کہ مرزا قادیانی اور اسکے بیٹے کو تمام مسلمانوں کو "کافر" اور "دائرۂ اسلام" سے خارج کرنے کا حق کس نے دیا تھا؟؟؟

بات سوچنے کی ہے... مرزا قادیانی کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں میں سے صرف ایک ہی مسلمان ہو سکتاہے، ذرا سوچیں... مسلمان ہونے کے لیے الله کے تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ضروری ہے، مثال کے طورپر ایک آدمی کہے کہ میں کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھتا ہوں، نماز، روزہ، حج زکات بھی مانتا ہوں، الله کے تمام نبیوں کو بھی مانتا ہوں لیکن (مثال کے طور پر) حضرت عيسى عليه السلام کو الله کا نبی نہیں مانتا تو ایسا شخص کسی طرح مسلمان نہیں ہو سکتا ... کیونکہ اس نے الله کے ایک نبی کا انکار کیا ہے... اب غور کریں... اگر تو مرزا قادیانی الله کا نبی ہے (جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں) تواسکا انکار کرنے والے وہ تمام لوگ جنہوں نے اسے نبی نہیں مانا اوراسے جھوٹا اور کذاب سمجھتےہیں مسلمان نہیں رہ سکتے .... اور اگر وہ کذاب ہے اور دعوائے نبوت میں جھوٹا ہے تو اسے نبی ماننے والے مسلمان نہیں ہو سکتے ... یہ نہیں ہو سکتا کہ مرزا کو نبی ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں ہی مسلمان ٹھہریں .....

سب سے پہلے تو قادیانیوں کی وکالت کرنے والے اینکرز اور فیس بکی دانشور یہ فیصلہ کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟ مرزا قادیانی کو نبی مانے والوں میں یا اسے جھوٹااور کذاب سمجھنے والوں میں؟ ہمارا حسن ظن ہے کہ وہ مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے ہونگے بلکہ جھوٹا ہی سمجھتے ہوں گے ... لہذا مرزا قادیانی اور اسکے بیٹے کے مندرجہ بالا فتووں کی رو سے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ... اور یہ فتوے 1974 سے بہت پہلے کے ہیں .... اب ہونا تو یہ چاہیے کہ 1974 کو رونے کے بجائے پہلے قادیانی جماعت سے پوچھا جائے کہ انکے گرو مرزا قادیانی اور اور اسکی جماعت کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ تمام غیر قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کریں؟ جب یہ جواب مل جائے تو پھر 1974 پر آ جائیں ، اور سوال کریں، ہم بتائیں گے کہ انھیں کن وجوہات کی بناء پر غیر مسلم قرار دیا گیا ...

اب رہی بات قادیانیوں کے بنیادی حقوق کی... تو اگر ان حقوق سے مراد یہ ہے کہ قادیانیوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے کفریہ عقائد کو اسلام بنا کر پیش کرتے رہیں، اور اپنے آپ کو "اصلی مسلمان" کہتے رہیں، تو معاف کیجیے گا یہ حق انھیں نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ سور کے گوشت پر "بکرے کے گوشت" کا لیبل لگا کر فروخت کرنا، یا کسی حرام مشروب پر "زم زم" کا لیبل لگا کر بیچنے کی اجازت کسی طرح نہیں دی جا سکتی .... اور اگر حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو آئین پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو حاصل ہیں تو وہ حقوق قادیانیوں کو ضرور ملنے چاہییں بشرطیکہ وہ دوسرے غیر مسلموں کی طرح ریاست کے آئین کو تسلیم کریں اور تسلیم کریں کہ وہ غیر مسلم ہیں .. ریاست کسی ایسے شہری کو اسکےحقوق دینے کی پابند نہیں جو ریاست کے دستور کو نہ مانتا ہو ... نیز ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنے مذھب کی تبلیغ کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی .... چہ جائے کہ مرتدوں اور زندیقوں کو ایسی اجازت دیجائے.

قادیانی اور دوسرے کافروں میں فرق:
سب سے اہم بات یہ ذہن میں رہے کہ قادیانی اور دوسرے غیر مسلموں میں بہت بڑا فرق ہے، عیسائی، یہودی، سکھ یا ہندو اپنے آپ کو کبھی بھی مسلمان کہہ کر پیش نہیں کرتے، لہذا وہ عام کافر ہیں ... لیکن قادیانی یا تو مرتد ہونگے یا زندیق... جو اسلام ترک کرکے قادیانی ہوے وہ مرتد .. اور جو قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوے اور اپنے مذھب کو اسلام کہنے پر مصر ہیں اور ساتھ ہی قادیانی عقائد کو بھی گلے سے لگائے ہیں وہ زندیق ... اور اسلام میں "مرتد و زندیق" کے احکام عام کافروں سے الگ ہیں ... جن کےبیان کرنے کا یہ موقع نہیں .... لہذا یہ دلیلیں دینا کہ قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی آزادی دی جائے، انھیں بھی مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ..یہ درست نہیں ... دنیا میں "جعل سازی" کی اجازت کوئی بھی قانون نہیں دیتا ... مثال کے طور پر کوکا کولا کمپنی کو پتہ چلے کہ کوئی اسکے نام سے جعلی مشروب بنا رہا ہے .. لیبل تو کوکا کولا ہے لیکن اندر جو چیز ہے وہ اصلی نہیں تو قانون ایسی جعل ساز فیکٹری کو بند کرنے کا پابندہے ....اگر دنیا کے ٹریڈ مارک کی اتنی اہمیت ہے تو کیا دین اس سے بھی گیا گذرا ہے کہ کوئی بی اپنے کفریہ عقائد کو "اصلی اسلام" بنا کر پیش کرے اور اسے کھلی اجازت دے دی جائے؟

آخری گذارش.
قادیانیوں سمیت کسی بھی غیر مسلم کو قتل کرنا یا قتل کی ترغیب دینا یا قانون اپنے ہاتھ میں لے کر انکے گھر جلانا، انھیں ہراساں کرنا ، کسی طرح بھی درست نہیں... اگر کسی نے کو جرم کیا ہے تو اسے سزا دینے کے اختیار صرف ریاست کو ہے ...

نوٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے قادیانی کتابوں کے ریفرنسس اور حوالوں کے ہم ذمے دار ہیں، اور طلب کرنے پر اصل کتابیں پیش کی جا سکتی ہیں...

No comments:

Post a Comment