قادیانیت اور پاکستان کی اعلى عدالتوں کے فیصلے.
مصنف : حافظ عبيدالله
=============
قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے اور امتناع قاديانيت آرڈیننس کے اسلامی احکام کے عين مطابق ہونے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلى عدالتوں کے فیصلے .
-------------------------------------------------------------------------------------
مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمة الله عليه نے مورخہ 21 جون 1932 کو پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں قادیانیوں کے بارے میں تاریخ ساز جملہ لکھا تھا کہ : "وہ اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں" ...
(کچھ پرانے خط، حصه اول ، مرتبه جواهر لعل نهرو، مترجم : عبدالمجيد الحريرى، مكتبه جامعه دهلى، صفحه 293).
جہاں تک مرزا قادیانی اور اسکے ماننے والوں کے بارے میں شرعى فتووں کا تعلق ہے تو نہ صرف بر صغیر بلکہ ساری امت اسلامیہ کے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی اسکے کفریہ عقائد کے خلاف اس وقت کے علماء کرام نے متفقہ فتوے جاری کردیے تھے ... جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو پاکستان بننے سے پہلے 1935 میں مقدمہ بہاولپور کے نام سے مشہور کیس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ... پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں نے پاکستان میں اپنے کفریہ عقائد کو اسلام بنا کر پیش کرنا شروع کیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنا شروع کیا، چنانچہ ان کی ارتدادى سرگرمیوں کو قانونی طریقے سے روکنے کے لیے مسلمانان پاکستان کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ شرعى طور پر تو قادیانی غیر مسلم ہیں ہی، انھیں قانونی طور پر بھی غیر مسلم قرار دیا جائے تاکہ ان کی ارتدادى سرگرمیوں کو روکا جائے ..چنانچہ کئی سالوں پر محیط تحاریک اور ہزاروں مسلمانوں کے خون کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد آخر کار 1974 میں آخر کار یہ مطالبہ منظور ہوا اور آئینی و قانونی طور پر بھی مرزا قادیانی اور اسکے ماننے والوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ... اس کے لیے اس وقت کی قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا گیا اور مرزائیوں کے دونوں گروہوں قادیانی و لاہوری کو اپنا موقف پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا ، اسکے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں جس کی بنا پر پاکستان کے آئین میں یہ بات ڈال دی گئی . قومی اسمبلی کی اس کاروائی کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آ چکی ہے ...اور شائع بھی ہو چکی ہے .
لیکن قادیانی سازشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں، وہ گاہے بگاہے مسلمانوں کی غیرت کا امتحان لیتے رہتے ہیں کہ کہیں وہ سو تو نہیں گئی؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی پچھلے دنوں ایک نوجوان اداکار حمزه عباسى کی طرف سے ایک چینل پر چھوڑا گیا یہ شوشہ ہے کہ کیا ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے سکے؟ اگرچہ اس بچے کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ایک اسلامی ریاست کو تو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اسلام ترک کرکے مرتد ہونے والے کو قتل کرے ، اور ظاہر ہے کہ اسے مرتد قرار ریاست ہی دے گی ...اس بچے کو دیا گیا سکرپٹ دینے والوں کو اسے یہ بتانا چاہئے تھا کہ بیٹا آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ پاکستان کا صدر صرف ایک مسلمان ہو سکتا ہے ... تو تم سے سوال ہو سکتا ہے کہ کیا ریاست کو مسلمان کی تعریف کرنے کا اخیتار بھی ہے یا نہیں؟ آئین میں غیر مسلموں کے حقوق کا بھی ذکر ہے تو یہ کون بتائے گا کہ غیر مسلم کون ہے؟ ..
اس بچے نے دوسرے دن ایک ویڈیو جاری کی جس میں اپنے پہلے سوال سے دست بردار ہوتے ہوے دوسرا سوال داغا کہ "کیا قادیانیوں کے حقوق کے لئے بات کرنا جرم ہے"؟ اس بچے کو کوئی بتائے کہ کیا اس ملک میں مسلمان اکثریت کو اسکے سارے حقوق مل گئے ہیں جو اسے قادیانیوں کی فکر ستا رہی ہے؟ پھر قادیانیوں کے کون سے حقوق ہیں جو انھیں نہیں مل رہے؟ اگر حقوق سے مراد یہ ہے کہ انھیں مسلمانوں والے حقوق دیے جائیں، انھیں اپنے کفریہ عقائد کی کھلی تبلیغ کی اجازت دی جائے، انھیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت دی جائے، انھیں مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کی اجازت ہو تو یہ حقوق انکے سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ آئین میں کسی بھی غیر مسلم کو یہ حقوق نہیں دیے گئے ، پھر وہ کون سے حقوق ہیں جن کی فکر ان "رمضانی میڈیائی علماء" کو کھائے جا رہی ہے؟ .اگر انھیں اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ فلاں جگہ ایک قادیانی کو قتل کر دیا گیا ، تو قتل تو اس ملک میں دوسرے بھی ہوتے ہیں، بلکہ دوسرے زیادہ ہوتے ہیں، پھر قادیانی کے قتل کو مذہبی بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ کسی دینی جماعت نے کبھی بھی قادیانیوں یا کسی دوسری اقلیت کو قتل کرنے کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ اسے درست سمجھتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج قادیانوں کے گڑھ چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ، وہاں جلاؤ گھیراؤ کا سماں ہوتا ... لیکن ایسا نہیں ہے ..قادیانی اس ملک میں رہ رہے ہیں، ان کے بڑے بڑے کاروبار ہیں، شیزان جیسی کمپنی ہے، ذائقہ گھی ہے، شوگر ملز ہیں...نہ جانے وہ کونسا حق ہے جو یہ "پیڈ میڈیا" والے انھیں دلانا چاہتے ہیں؟ معاف کیجیے گا اگر آپ انھیں "مسلم" ہونے کا حق دلانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے...یہ کوئی سیاست کا بازار نہیں کہ آپ جس کی چاہے پگڑی اچھالو .. یہ غیرت مسلم کا مسئله ہے ، اس کے لیے ہزاروں ختم نبوت کے پروانوں نے اپنی جانیں دی ہیں، یہ حرمت رسول صلى الله عليه وسلم اور آپ صلى الله عليه وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کی بات ہے ... جس کے سامنے آپ کے ٹی وی چینل کی حیثیت کچھ بھی نہیں .. اس لیے یہ "ٹیسٹر" پھینکنا بند کرو بلکہ رمضان نشریات کے نام پر بے حیائی پھیلانا بند کرو ، اداکاروں کو "علماء" بنا کر پیش کرنا بند کرو ورنہ یہ نہ ہو کہ کل کو تمہیں کسی کے حقوق بھول کر اپنے حقوق کی دھائی دینی پڑے ...
حمزہ عباسی! قادیانیوں کے بارے میں علماء امت کے فتوے تم جانتے ہو، آئین پاکستان کیا کہتا ہے یہ بھی تمہیں علم ہے، آؤ اب میں تمہیں بتاؤں کہ اس ملک کی اعلى عدالتوں نے کیا فیصلے دیے ... کیا پارلیمنٹ، علماء اور عدلیہ سب غلط تھے؟؟ کیا رابطہ عالم اسلامی مسلم ملکوں کی تنظیم غلط تھی جس نے پاکستانی کی اسمبلی کے فیصلے سے پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا؟ ...کیا ساری دنیا کے مسلمان غلط ہیں ؟ خدا کے لیے اپنے ایمان کو یوں نہ فروخت کرو ، قیامت کے دن خاتم النبيين صلى الله عليه وسلم کے سامنے کیا جواب دوگے؟ اگر انہوں نے پوچھ لیا ..حمزہ! تم تو میرے چچا کی اولاد سے تھے ، تم نے یہ نہ سوچا کہ ایک ایسا شخص جس نے اپنے بارے میں کہا کہ "میں محمد رسول الله ہوں" جس نے یہ بکواس کی کہ "جس نے میرے اور محمد مصطفى کے درمیان فرق کیا اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں" جس نے یہ کہا کہ "میری صورت میں محمد رسول الله دوبارہ دنیا میں آئے ہیں" ، تم ایسے شخص کو نبی اور مجدد ماننے والوں کے حقوق کی بات کرتے رہے؟ تو کیا جواب دوگے؟؟ سوچو .... یاد رکھو حمزہ عباسی! قادیانیوں کے نزدیک تو تم مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرکے پہلے ہی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو ...وہ تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے کیونکہ تم ان کے مطابق الله کے ایک نبی کے منکر ہو ...پھر تم انکے لیے اپنے ایمان کو کیوں خطرے میں ڈال رہے ہو؟ ....آؤ تم قادیانیوں کے جن حقوق کی بات کرنا چاہتے ہو ان کے بارے میں پاکستان کے اعلى عدالتوں کے فیصلے پڑھ لو .
وفاقی شرعى عدالت
26 اپریل 1984 کو صدر پاکستان جنرل محمد ضياء الحق مرحوم نے وہ آرڈیننس جاری کیا جسے "امتناع قاديانيت" آرڈیننس کہا جاتا ہے، جس کے تحت مرزائیوں کے ہر دو گروپ لاہوری و قادیانی کو ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں سے روک دیا گیا ، اس آرڈیننس کے تحت مجموعہ تعزیرات پاکستان ایکٹ نمبر 45 ، 1860 میں باب پندرہ میں دفعه 298 اے کے بعد دو نئی دفعات 298 بى اور 298 سى کا اضافہ ہوا .
مرزائیوں کے دونوں گروپوں قادیانی اور لاہوری نے اس آرڈیننس کو فورى طور پر وفاقى شرعى عدالت میں چیلنج کر دیا اور اس آرڈیننس کو قرآن وسنت کی تعلیمات اور ان کے بنیادی حقوق کے منافی قرار دینے کی درخواست کی ، شرعى عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس جناب فخر عالم کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کی ، بنچ جسٹس آفتاب احمد، جسٹس فخر عالم، جسٹس چودھری صدیق، جسٹس مولانا غلام محمد، جسٹس مولانا عبدالقدوس ہاشمی پر مشتمل تھا، اس کیس کی سماعت 15 جولائى 1984 سے 12 اگست 1984 تک مسلسل جاری رہی.. آخر کار مورخہ 28 اکتوبر 1984 کو فیصلہ آیا اور فیصلے میں بنچ نے متفقہ طور پر مرزائیوں کی اپیل خارج کردی اور "امتناع قاديانيت آرڈیننس" کو قرآن وسنت کے مطابق قرار دے دیا ... اس کیس کا نمبر ہے : شريعت پٹیشن نمبر 2/ ايل اور 18 / آئى 1984 .. درخوست دہندگان مجيب الرحمن و کیپٹن عبدالواجد (ریٹائرڈ) ودیگر بنام وفاقی حکومت و بنام اٹارنی جنرل آف پاکستان .
سپریم کورٹ آف پاکستان (شرعى اپیلٹ بنچ)
قادیانیوں نے وفاقی شرعى عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی اور اسے كالعدم قرار دینے کی درخوست دائر کردی، سپریم کورٹ کے شريعت اپلٹ بنچ نے جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں اس اپیل کی سماعت کی، بنچ کے دیگر ممبران میں جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس شفيع الرحمن ، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی شامل تھے، سماعت کے لیے جونہی کوئی تاریخ نکلتی قادیانی درخوست دے کر سماعت رکوادیتے، اڑھائی سال تک اسی طرح چلتا رہا، بالآخر 10 جنورى 1988 اس کیس کی راولپنڈی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، قادیانیوں نے کیس کو غیر ضروری طوالت دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے اور بالآخر اپنی اپیل واپس لینے کی درخواست دائر کردی ، ان کی واپسی اپیلوں کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچوں جج صاحبان نے مورخہ 11 جنورى 1988 کو متفقہ فیصلہ تحریر فرمایا ، فیصلہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمد افضل ظلہ نے تحریر فرمایا (جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے) اور باقی جج صاحبان نے ان کے فیصلے سے اتفاق کیا، فیصلے میں سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعى عدالت کے فیصلے کو بحال رکھا ... کیس کا نمبر ہے شرعى مرافعه نمبر 24 و 25 / 1984 .
سپریم کورٹ آف پاکستان 1993
مرزائیوں کے دونوں گروہوں (قادیانی /لاہوری) کی طرف سے امتناع قاديانيت قانون کے خلاف کی گئی متعدد اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مورخہ 3 جولائي 1993 کو ایک بار پھر یہ تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ مرزائیوں کی طرف سے کی گئی تمام اپیلیں خارج کی جاتی ہیں ..اور یہ قرار دیا کہ قادیانی غیر مسلم ہونے کی حيثيت سے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے .. یہ بنچ ان پانچ معزز ججوں پر مشتمل تھا ، جسٹس شفيع الرحمن (سربراه)، جسٹس عبدالقدير چوہدری، جسٹس محمد افضل لون، جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر.. ان پانچ میں سے چار ججوں نے متفقہ طور پر قادیانی موقف کو یکسر مسترد کردیا اور جسٹس عبدالقدير چوہدری صاحب کے لکھے فیصلے سے کلی اتفاق کیا، تاہم ایک جج جسٹس شفيع الرحمن نے جو کہ اس بنچ کے سربراہ بھی تھے اپنے اختلافی نوٹ میں جزوی طور پر امتناع قاديانيت آرڈیننس کی بعض شقوں کو آئین سے متصادم قرار دیا (لیکن اسلامی احکامات کے خلاف قرار نہیں دیا) .
سپریم کورٹ آف پاکستان 1999
سپریم کورٹ کے 1993 کے فیصلے کے خلاف مرزائیوں نے نظر یعنی کی اپیل دائر کی، اس اپیل کی سماعت کے لیے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ بنایا گیا جو چیف جسٹس آف پاکستان سعيد الزمان صديقى ، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس راجہ افراسیاب خان، جسٹس محمد بشیر جہانگیری اور جسٹس ناصر اسلم زاہد پر مشمتل تھا ، مورخہ 8 نومبر 1999 کو اس بنچ نے اپیل کنندگان کی طرف سے عدم پیروی اور ان کے وکلاء کی عدم حاضرى کی وجہ سے نظر ثانی کی یہ اپیل خارج کردی .
مختلف عدالتوں کے فیصلے
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اعلى عدالتوں نے مختلف مواقع پر دیے گئے اپنے فیصلوں میں قادیانیوں کے کفر پر مہر ثبت کی .
لاہور ہائی کورٹ 1981
لاہور ہائی کورٹ 1982
لاہور ہائی کورٹ 1987
کوئٹہ ہائی کورٹ 1987
لاہور ہائی کورٹ 1991
لاہور ہائی کورٹ 1992
لاہور ہائی کورٹ 1994
مختلف سیشن کورٹس کے فیصلے اسکے علاوہ ہیں .
قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے اور امتناع قاديانيت آرڈیننس کے اسلامی احکام کے عين مطابق ہونے کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلى عدالتوں کے فیصلے .
-------------------------------------------------------------------------------------
مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمة الله عليه نے مورخہ 21 جون 1932 کو پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں قادیانیوں کے بارے میں تاریخ ساز جملہ لکھا تھا کہ : "وہ اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں" ...
(کچھ پرانے خط، حصه اول ، مرتبه جواهر لعل نهرو، مترجم : عبدالمجيد الحريرى، مكتبه جامعه دهلى، صفحه 293).
جہاں تک مرزا قادیانی اور اسکے ماننے والوں کے بارے میں شرعى فتووں کا تعلق ہے تو نہ صرف بر صغیر بلکہ ساری امت اسلامیہ کے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور ان کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی اسکے کفریہ عقائد کے خلاف اس وقت کے علماء کرام نے متفقہ فتوے جاری کردیے تھے ... جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو پاکستان بننے سے پہلے 1935 میں مقدمہ بہاولپور کے نام سے مشہور کیس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ... پاکستان بننے کے بعد قادیانیوں نے پاکستان میں اپنے کفریہ عقائد کو اسلام بنا کر پیش کرنا شروع کیا اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنا شروع کیا، چنانچہ ان کی ارتدادى سرگرمیوں کو قانونی طریقے سے روکنے کے لیے مسلمانان پاکستان کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ شرعى طور پر تو قادیانی غیر مسلم ہیں ہی، انھیں قانونی طور پر بھی غیر مسلم قرار دیا جائے تاکہ ان کی ارتدادى سرگرمیوں کو روکا جائے ..چنانچہ کئی سالوں پر محیط تحاریک اور ہزاروں مسلمانوں کے خون کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد آخر کار 1974 میں آخر کار یہ مطالبہ منظور ہوا اور آئینی و قانونی طور پر بھی مرزا قادیانی اور اسکے ماننے والوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ... اس کے لیے اس وقت کی قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دیا گیا اور مرزائیوں کے دونوں گروہوں قادیانی و لاہوری کو اپنا موقف پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا ، اسکے بعد قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ رائے دی کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں جس کی بنا پر پاکستان کے آئین میں یہ بات ڈال دی گئی . قومی اسمبلی کی اس کاروائی کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آ چکی ہے ...اور شائع بھی ہو چکی ہے .
لیکن قادیانی سازشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتیں، وہ گاہے بگاہے مسلمانوں کی غیرت کا امتحان لیتے رہتے ہیں کہ کہیں وہ سو تو نہیں گئی؟ اسی سلسلے کی ایک کڑی پچھلے دنوں ایک نوجوان اداکار حمزه عباسى کی طرف سے ایک چینل پر چھوڑا گیا یہ شوشہ ہے کہ کیا ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو غیر مسلم قرار دے سکے؟ اگرچہ اس بچے کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ایک اسلامی ریاست کو تو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اسلام ترک کرکے مرتد ہونے والے کو قتل کرے ، اور ظاہر ہے کہ اسے مرتد قرار ریاست ہی دے گی ...اس بچے کو دیا گیا سکرپٹ دینے والوں کو اسے یہ بتانا چاہئے تھا کہ بیٹا آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ پاکستان کا صدر صرف ایک مسلمان ہو سکتا ہے ... تو تم سے سوال ہو سکتا ہے کہ کیا ریاست کو مسلمان کی تعریف کرنے کا اخیتار بھی ہے یا نہیں؟ آئین میں غیر مسلموں کے حقوق کا بھی ذکر ہے تو یہ کون بتائے گا کہ غیر مسلم کون ہے؟ ..
اس بچے نے دوسرے دن ایک ویڈیو جاری کی جس میں اپنے پہلے سوال سے دست بردار ہوتے ہوے دوسرا سوال داغا کہ "کیا قادیانیوں کے حقوق کے لئے بات کرنا جرم ہے"؟ اس بچے کو کوئی بتائے کہ کیا اس ملک میں مسلمان اکثریت کو اسکے سارے حقوق مل گئے ہیں جو اسے قادیانیوں کی فکر ستا رہی ہے؟ پھر قادیانیوں کے کون سے حقوق ہیں جو انھیں نہیں مل رہے؟ اگر حقوق سے مراد یہ ہے کہ انھیں مسلمانوں والے حقوق دیے جائیں، انھیں اپنے کفریہ عقائد کی کھلی تبلیغ کی اجازت دی جائے، انھیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت دی جائے، انھیں مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کی اجازت ہو تو یہ حقوق انکے سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ آئین میں کسی بھی غیر مسلم کو یہ حقوق نہیں دیے گئے ، پھر وہ کون سے حقوق ہیں جن کی فکر ان "رمضانی میڈیائی علماء" کو کھائے جا رہی ہے؟ .اگر انھیں اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ فلاں جگہ ایک قادیانی کو قتل کر دیا گیا ، تو قتل تو اس ملک میں دوسرے بھی ہوتے ہیں، بلکہ دوسرے زیادہ ہوتے ہیں، پھر قادیانی کے قتل کو مذہبی بنانا کہاں کا انصاف ہے؟ کسی دینی جماعت نے کبھی بھی قادیانیوں یا کسی دوسری اقلیت کو قتل کرنے کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ اسے درست سمجھتی ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج قادیانوں کے گڑھ چناب نگر (سابقہ ربوہ) میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا ، وہاں جلاؤ گھیراؤ کا سماں ہوتا ... لیکن ایسا نہیں ہے ..قادیانی اس ملک میں رہ رہے ہیں، ان کے بڑے بڑے کاروبار ہیں، شیزان جیسی کمپنی ہے، ذائقہ گھی ہے، شوگر ملز ہیں...نہ جانے وہ کونسا حق ہے جو یہ "پیڈ میڈیا" والے انھیں دلانا چاہتے ہیں؟ معاف کیجیے گا اگر آپ انھیں "مسلم" ہونے کا حق دلانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے...یہ کوئی سیاست کا بازار نہیں کہ آپ جس کی چاہے پگڑی اچھالو .. یہ غیرت مسلم کا مسئله ہے ، اس کے لیے ہزاروں ختم نبوت کے پروانوں نے اپنی جانیں دی ہیں، یہ حرمت رسول صلى الله عليه وسلم اور آپ صلى الله عليه وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کی بات ہے ... جس کے سامنے آپ کے ٹی وی چینل کی حیثیت کچھ بھی نہیں .. اس لیے یہ "ٹیسٹر" پھینکنا بند کرو بلکہ رمضان نشریات کے نام پر بے حیائی پھیلانا بند کرو ، اداکاروں کو "علماء" بنا کر پیش کرنا بند کرو ورنہ یہ نہ ہو کہ کل کو تمہیں کسی کے حقوق بھول کر اپنے حقوق کی دھائی دینی پڑے ...
حمزہ عباسی! قادیانیوں کے بارے میں علماء امت کے فتوے تم جانتے ہو، آئین پاکستان کیا کہتا ہے یہ بھی تمہیں علم ہے، آؤ اب میں تمہیں بتاؤں کہ اس ملک کی اعلى عدالتوں نے کیا فیصلے دیے ... کیا پارلیمنٹ، علماء اور عدلیہ سب غلط تھے؟؟ کیا رابطہ عالم اسلامی مسلم ملکوں کی تنظیم غلط تھی جس نے پاکستانی کی اسمبلی کے فیصلے سے پہلے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا؟ ...کیا ساری دنیا کے مسلمان غلط ہیں ؟ خدا کے لیے اپنے ایمان کو یوں نہ فروخت کرو ، قیامت کے دن خاتم النبيين صلى الله عليه وسلم کے سامنے کیا جواب دوگے؟ اگر انہوں نے پوچھ لیا ..حمزہ! تم تو میرے چچا کی اولاد سے تھے ، تم نے یہ نہ سوچا کہ ایک ایسا شخص جس نے اپنے بارے میں کہا کہ "میں محمد رسول الله ہوں" جس نے یہ بکواس کی کہ "جس نے میرے اور محمد مصطفى کے درمیان فرق کیا اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں" جس نے یہ کہا کہ "میری صورت میں محمد رسول الله دوبارہ دنیا میں آئے ہیں" ، تم ایسے شخص کو نبی اور مجدد ماننے والوں کے حقوق کی بات کرتے رہے؟ تو کیا جواب دوگے؟؟ سوچو .... یاد رکھو حمزہ عباسی! قادیانیوں کے نزدیک تو تم مرزا قادیانی کی نبوت کا انکار کرکے پہلے ہی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو ...وہ تمہیں مسلمان نہیں سمجھتے کیونکہ تم ان کے مطابق الله کے ایک نبی کے منکر ہو ...پھر تم انکے لیے اپنے ایمان کو کیوں خطرے میں ڈال رہے ہو؟ ....آؤ تم قادیانیوں کے جن حقوق کی بات کرنا چاہتے ہو ان کے بارے میں پاکستان کے اعلى عدالتوں کے فیصلے پڑھ لو .
وفاقی شرعى عدالت
26 اپریل 1984 کو صدر پاکستان جنرل محمد ضياء الحق مرحوم نے وہ آرڈیننس جاری کیا جسے "امتناع قاديانيت" آرڈیننس کہا جاتا ہے، جس کے تحت مرزائیوں کے ہر دو گروپ لاہوری و قادیانی کو ان کی خلاف اسلام سرگرمیوں سے روک دیا گیا ، اس آرڈیننس کے تحت مجموعہ تعزیرات پاکستان ایکٹ نمبر 45 ، 1860 میں باب پندرہ میں دفعه 298 اے کے بعد دو نئی دفعات 298 بى اور 298 سى کا اضافہ ہوا .
مرزائیوں کے دونوں گروپوں قادیانی اور لاہوری نے اس آرڈیننس کو فورى طور پر وفاقى شرعى عدالت میں چیلنج کر دیا اور اس آرڈیننس کو قرآن وسنت کی تعلیمات اور ان کے بنیادی حقوق کے منافی قرار دینے کی درخواست کی ، شرعى عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس جناب فخر عالم کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کی ، بنچ جسٹس آفتاب احمد، جسٹس فخر عالم، جسٹس چودھری صدیق، جسٹس مولانا غلام محمد، جسٹس مولانا عبدالقدوس ہاشمی پر مشتمل تھا، اس کیس کی سماعت 15 جولائى 1984 سے 12 اگست 1984 تک مسلسل جاری رہی.. آخر کار مورخہ 28 اکتوبر 1984 کو فیصلہ آیا اور فیصلے میں بنچ نے متفقہ طور پر مرزائیوں کی اپیل خارج کردی اور "امتناع قاديانيت آرڈیننس" کو قرآن وسنت کے مطابق قرار دے دیا ... اس کیس کا نمبر ہے : شريعت پٹیشن نمبر 2/ ايل اور 18 / آئى 1984 .. درخوست دہندگان مجيب الرحمن و کیپٹن عبدالواجد (ریٹائرڈ) ودیگر بنام وفاقی حکومت و بنام اٹارنی جنرل آف پاکستان .
سپریم کورٹ آف پاکستان (شرعى اپیلٹ بنچ)
قادیانیوں نے وفاقی شرعى عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی اور اسے كالعدم قرار دینے کی درخوست دائر کردی، سپریم کورٹ کے شريعت اپلٹ بنچ نے جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں اس اپیل کی سماعت کی، بنچ کے دیگر ممبران میں جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس شفيع الرحمن ، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی شامل تھے، سماعت کے لیے جونہی کوئی تاریخ نکلتی قادیانی درخوست دے کر سماعت رکوادیتے، اڑھائی سال تک اسی طرح چلتا رہا، بالآخر 10 جنورى 1988 اس کیس کی راولپنڈی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، قادیانیوں نے کیس کو غیر ضروری طوالت دینے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے اور بالآخر اپنی اپیل واپس لینے کی درخواست دائر کردی ، ان کی واپسی اپیلوں کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچوں جج صاحبان نے مورخہ 11 جنورى 1988 کو متفقہ فیصلہ تحریر فرمایا ، فیصلہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمد افضل ظلہ نے تحریر فرمایا (جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے) اور باقی جج صاحبان نے ان کے فیصلے سے اتفاق کیا، فیصلے میں سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعى عدالت کے فیصلے کو بحال رکھا ... کیس کا نمبر ہے شرعى مرافعه نمبر 24 و 25 / 1984 .
سپریم کورٹ آف پاکستان 1993
مرزائیوں کے دونوں گروہوں (قادیانی /لاہوری) کی طرف سے امتناع قاديانيت قانون کے خلاف کی گئی متعدد اپیلوں پر فیصلہ دیتے ہوے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مورخہ 3 جولائي 1993 کو ایک بار پھر یہ تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ مرزائیوں کی طرف سے کی گئی تمام اپیلیں خارج کی جاتی ہیں ..اور یہ قرار دیا کہ قادیانی غیر مسلم ہونے کی حيثيت سے اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے .. یہ بنچ ان پانچ معزز ججوں پر مشتمل تھا ، جسٹس شفيع الرحمن (سربراه)، جسٹس عبدالقدير چوہدری، جسٹس محمد افضل لون، جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر.. ان پانچ میں سے چار ججوں نے متفقہ طور پر قادیانی موقف کو یکسر مسترد کردیا اور جسٹس عبدالقدير چوہدری صاحب کے لکھے فیصلے سے کلی اتفاق کیا، تاہم ایک جج جسٹس شفيع الرحمن نے جو کہ اس بنچ کے سربراہ بھی تھے اپنے اختلافی نوٹ میں جزوی طور پر امتناع قاديانيت آرڈیننس کی بعض شقوں کو آئین سے متصادم قرار دیا (لیکن اسلامی احکامات کے خلاف قرار نہیں دیا) .
سپریم کورٹ آف پاکستان 1999
سپریم کورٹ کے 1993 کے فیصلے کے خلاف مرزائیوں نے نظر یعنی کی اپیل دائر کی، اس اپیل کی سماعت کے لیے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ بنایا گیا جو چیف جسٹس آف پاکستان سعيد الزمان صديقى ، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس راجہ افراسیاب خان، جسٹس محمد بشیر جہانگیری اور جسٹس ناصر اسلم زاہد پر مشمتل تھا ، مورخہ 8 نومبر 1999 کو اس بنچ نے اپیل کنندگان کی طرف سے عدم پیروی اور ان کے وکلاء کی عدم حاضرى کی وجہ سے نظر ثانی کی یہ اپیل خارج کردی .
مختلف عدالتوں کے فیصلے
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل اعلى عدالتوں نے مختلف مواقع پر دیے گئے اپنے فیصلوں میں قادیانیوں کے کفر پر مہر ثبت کی .
لاہور ہائی کورٹ 1981
لاہور ہائی کورٹ 1982
لاہور ہائی کورٹ 1987
کوئٹہ ہائی کورٹ 1987
لاہور ہائی کورٹ 1991
لاہور ہائی کورٹ 1992
لاہور ہائی کورٹ 1994
مختلف سیشن کورٹس کے فیصلے اسکے علاوہ ہیں .
مرزائیوں کے دو عملی اقدامات جن سے علامہ صاحب کے جملے کی تائید ہوتی ہے میری ذاتی علم میں ہیں ۔ ایک کہ انہوں نے ہنوؤں کا ساتھ دیتے ہوئے سارے مزائیوں کی دستخط شدہ قراداد برطانوی حکومت کو بھیجی کہ وہ مھمد علی جناح کے مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اسلئے ضلع گورداسپور کو پاستان کا حصہ نہ بنایا جائے ۔ اس کے نتیجہ میں گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں میں داخل ہونے کا راستہ دیا گیا اور لارڈ مؤنٹ بیٹن نے جموں کشمیر میں بھارتی فوج داخل کر دی ۔ جموں کشمیر پر قبضہ کر لیا گیا اور تین لاکھ کے قریب مسلمان شہید کئے گئے ۔
ReplyDeleteدوسرا واقعہ ۔ دو ایئر فورس کے اور چار آرمی کے مرزائی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے معاہدہ کر کے گولی کے زور پر یحیٰ خان کو 12 دسمبر کو حراست میں لے لیا اور ذولفقار علی بھٹو کو اقوامِ متحدہ بھیجا جہاں مشرقی پاکستان کے محاظ پر بھارت اور پاکستان کو فوجیں اپنے اپنے علاقے میں لیجانے کا کہا گیا تھا ۔ بھٹو نے اس قرارداد کو سیبوتاژ کیا تاکہ وہ مغربی پاکستان کا بادشاہ بن سکے ۔ لیکن اللہ کا کرنا دیکھو کہ جب بھٹو کو اپنی حکومت ختم ہونے کا اندیشہ ہوا تو اس نے مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا