Saturday, May 10, 2014

غیر ملکی این جی او ،،، سوشل ورکر ،،، اور بے بس لوگ


غیر ملکی این جی او ،،، سوشل ورکر ،،، اور بے بس لوگ ....

مصنف : گھمنام


فارغ التحصیل ہونےکے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا ، بوقت ضرورت کسی بھی اچھے دفتر میں نوکری کے لئے ادھر ادھر انٹرویو دے ہی رہا تھا کہ ایسے میں ایک اشتہار پر نظر پڑھی کہ ایک این جی او میں ایک پاکستانی کی ضرورت ہے  .اور میں نے بنا کسی دیر کئے  وہاں اپنی درخواست بمعہ اسناد بھیج دی . انٹرویو ہوا اور مجھے منتخب کر لیا گیا. میں بہت خوش تھا کہ کچھ نہ کرنے سے کچھ کام کرنا بہتر ہے . تنخواہ کوئی اتنی خاص نہیں تھی لیکن میں نے خود کو   تسلی دی کہ ابھی تو شروعات ہے. ایک دفعہ تجربہ حاصل کر لو ں پھر آگے کی سوچیں گے ، کیوں کہ آج کے دور میں تعلیم سے زیادہ تجربے کو ترجیح دیا جاتا ہیں !

میں دل ہی دل  میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ چلو نوکری بھی ایسی ملی جہاں دوسرے بے سہارا اور مجبور لوگوں کی مدد کی جاتی ہے. اسی بہانے مجھے بھی اپنے پاکستانیوں کی مدد کرنے کا موقع مل جائے گا اور کچھ نیکیاں اور ثواب مفت میں حاصل کر لو گا. جس این جی او میں مجھے نوکری ملی تھی اصل میں وہ عیسائیوں کی این جی او تھی ، آپ کو آگاہ کرتا جاؤ  کہ دنیا میں زیادہ تر این جی اوز عیسائیوں کی ہی ہیں.خیر پہلے کچھ دنوں میں تو مجھے کچھ خاص سمجھ نہیں آیا کہ ہم کس ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اور کیا کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ  ، لیکن وہاں میرے کچھ اورساتھی جو کہ پاکستانی تھے ان میں ایک کا نام علی تھا ، میری اس سے اچھی خاصی سلام دعا ہو گئی اب بھی ہم دوست ہیں، وہ تھوڑا جذباتی قسم کا  انسان ہے وہ اکثر سپروائزر سے لڑتا رہتا تھا. مجھےسمجھ نہیں آتی تھی کہ  وہ ایسا کیوں کرتا تھا ، ایک دن غصہ میں اس نے استعفی دے دیا اور چھوڑ کر چلا گیا ابھی مجھے وہاں نوکری کئے کوئی  4 مہینے بھی نہیں ہوئے تھے. لیکن جاتے جاتے وہ مجھے ایک بات کہہ گیا کہ  اگر تو غیرت والا ہوا تو تم بھی ایک دن اسی طرح استعفی دے کر چلا جائے گا جس طرح میں نے دیا ورنہ بے غیرتوں کی طرح چپ چاپ ایک نوکری کی طرح نوکری کرتے رہوں گے، یہ بات میرے دل پر لگی کہ ایسا کیا ہوا جو وہ یہ که  گیا. پہلے تو میں سمجھا وہ جذبات میں تھا شاید اسلئے یہ باتیں که رہا ہے . لیکن وقت گزرتا گیا اور میں بھی  اس کی بات بھول چکا تھا. بظاہر مقامی کمیونٹی میں نسلی اقلیتوں کے انضمام  اور     هم آهنگ سازی کاایجنڈا تھا ،اسی پر کام کرتے رہیں ، لیکن کہتے ہیں برائی چھپتی نہیں چھپانے سے،کچھ عرصے بعد ہمیں ایک دوسرے  شعبے ﴿ سوسائٹی﴾ جو کہ اسی این جی او کا تھا وہاں پر دعوت دی گئی . اس شعبے ﴿سوسائٹی﴾ کا نام تھا محبت اور امن . (Love and Peace ) جس کا ایکٹنگ چیئرمین پاکستانی تھا لیکن یہ وہ ایسا پاکستانی تھا جو صرف اور صرف  اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں لیکن اس کے اثرات کا کوئی خیال نہیں کرتے. اس ونگ ( سوسائٹی ) کا اصل ٹارگٹ تھے مسلمان اور خاص کر کے پاکستانی مسلمان ، اور پاکستانی بھی وہ جو غیر قانونی طور پر باہر جاتے ہیں. یہ ان لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کو عیسائی بناتے ہے، یہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں وہاں موجود کچھ ایسے پاکستانیوں سے ملا جو کہ پہلے مسلمان تھے لیکن یہاں آنے کے بعد عیسائی ہو گئے تھے ، کچھ تو یہ که  رہے تھے کہ  بس ہم صرف پرمٹ کے حصول کے لئے پیپروں میں عیسائی ہیں  ، دل سے ابھی مسلمان ہے . کچھ تو یہ کہہ رہے تھے اب باہر آئے ہیں تو کمانا تو ہے اب ایسے تھوڑ ہی ا واپس چلے جائیں ،یہ سننے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی ہو. دل میں سوچا یہ کیا ہو رہا ہےاور میں کیا کر رہا ہوں. اسی کشمکش میں ہی  تھا کہ  دعوت کا پروگرام ختم ہو گیا. لیکن میں ایک عجیب کیفیت میں تھا کہ ہمارے لوگ جو پاکستان سے باہر جاتے ہیں کیا سوچ لے کرآتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر لوگ یا تو اَن پڑھ ہوتے ہیں یا پھر گاؤں کے دور دراز علاقوں سے جو اِن کے شکنجوں میں با آسانی آجاتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا کہ سب سوشل ورکرز بُرے ہوتے ہیں، لیکن وہ بھی بے بس ہوتے ہیں یا وہ لوگ صرف ظاہری ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان پر کبھی پیچھے کے مقاصد ظاہر ہی نہیں ہوتے. اور میری طرح کوئی این جی او کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ  ان کی ظاہری اچھائیاں آواز اٹھانے والے کے خلاف ایک پھانسی کے پھندے سے کم نہیں ہوتی.جو آواز اٹھاتا بھی  ہے تو  اس کی آواز کی گونج کسی اور  تک پہنچنے سے پہلے ہی ظاہری اچھائیوں میں دفن ہو جاتی ہے . ہو سکتا جو میں ابھی لکھ رہا ہوں وہ بھی سب کو بکواس سے زیادہ اور کچھ نہ لگے کیوں کہ میٹھا زہر تو ہم ہمیشہ پیتے آئے ہیں چلو یہ بھی سہی .  الله کا شکر ہے کہ ہماری پاکستانی کمیونٹی اب ان حقیقت سے آشنا ہو چکی ہے اور وہ ان کے دجل فریب میں نہیں آتے. لیکن آج کل یہ پاکستان میں متحرک ہے اسلئے میں نے سوچا کیوں نا  اپنا تجربہ آپ لوگوں کو  بتایاجائے ،ہو سکتا اب بھی دوسرے ممالک میں یہ گندا کھیل  کھیلا جا رہا ہو ،

لیکن اب ان کا ٹارگٹ افغانستان ،عراق ، پاکستان ،صومالیہ ، شام اور وہ ممالک ہے جو حالت جنگ میں ہیں . بلکل ویسے ہی چال چلی جا رہی ہے جیسے جنوبی افریق کے لوگوں کے ساتھ ہوا ، ان کے ہاتھ میں بائبل پکڑا کر ان کے سب اثاثے دونوں ہاتھوں سے لوٹ لئے گئے تھے. ایک بات اور ذہن نشین کر لیں کہ  یہ این جی اوز مسلمانوں کو عیسائیت کی تعلیم دینے کے علاوہ اسلام سے بھی متنفر کر رہی ہے، جیسا کہ ملحدین، منکر حدیث، مرزائی. لبرلز، روشن خیال، ہم جنس پرست وغیرہ وغیرہ ہیں ،ملحد سے لے کر ہم جنس پرست تک عیسائی مشنریوں کی طرف سے اسلام پر اٹھاۓ گئے بھونڈے اعترض ہی پیش کرتے ہیں. جن کے جواب الاجوابات ہمارے مسلمانوں نے کب کے دے دیے . لیکن کسی میں ہمت نہیں ہمارے اسکلر اور علماء کرام کے دیے گے جوابات کو چیلنج کر سکیں. اصل مقصد تو صرف مسلمانوں کے ایمان کو تباہ کرنا ہے، چاہے جیسے بھی ہو،میڈیا کے ذریعے یا پھر این جی او زکے. اور ہم ظاہری اچھائیاں دیکھ کر تعریف کرتے نہیں تھکتے. آخر میں علی کی بات سچ ثابت ہوئی اور میں نے بھی ایک دن استعفیٰ اسی طرح دیا جس طرح علی دے کر گیا تھا. بہت سے پہلوں ابھی رہ گئے ہیں جن کو میں ٹھیک سے قلم بند نہ کر سکا لیکن ایک یہ پہلوں بھی ہے جو کہ بہت ہی خاص اور بہت اہم ہے وہ یہ کہ جتنی بھی غیر ملکی خاص کر کے عیسائیت کی این جی اوز  ہیں  یہ آپس میں ایک نیٹ ورک کی طرح منسلک ہیں  یہ مغرب کے لئے جاسوسی کا ایک ایسا آلہ کار ہے جو با آسانی کسی بھی  گھر ، یا ملک میں بنا کسی روکاوٹ کے داخل ہو جاتی ہیں . اور اپنا کام انجام دیتے وقت  کسی کو شک بھی نہیں ہو پاتا. ابھی کچھ عرصۂ پہلےہی پاکستان میں کسی ایک این جی او  پر پابندی عائد کی گئی تھی کیوں کہ اس کے ارکان جاسوسی میں ملوث تھے. اب تو پاکستان میں اب این جی اوز  کے متعلق قانون سازی بھی ہو رہی ہے. لیکن ہمارے غدار سیاست بار بار اس میں روکاوٹیں کھڑی کر رہیں ہیں .

مختصر مدت کے فوائد اور ظاہری اچھائیوں کو دیکھ کر ہم کسی کے بھی گرویدہ ہو جاتے ہیں، یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے. اور اس کمزوری سے یہود نصار بخوبی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا. ہمیں چرغ کی روشنی دیکھا کر ہمارے ایمان کو  اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں ہوتی . ہم یہ بھول چکے ہیں  کہ اسلام میں حقوق الله کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنے کو کہا گیا ہے. اسلام ہمیں پڑوسی کے حقوق سے لے کر ایک یتیم بے سہارا لوگوں کے حقوق تک کا  خیال رکھنے کا درس دیتا ہے. یہ فلاح بہبود کا نظام اسلام تعلیمات کا ہی  حصہ ہیں . آؤ! یہ عہد کریں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے میں ساتھ کھڑے ہو گے  جو کچھ مدد کر سکتے ہو ان کی مدد کرو گے  ،چاہے مالی طورپر  یا اخلاقی طورپر کیونکہ یہ ہر ایک  مسلمان کی ذمہ داری ہے. غیر مسلم سے بھی اخلاق سے پیش آؤ اور ان کی بھی مدد کرو .یہی تعلیم دی ہے محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ . اے مسلمان تمہارا دین مکمل ہے تجھے ہر محاذ پر رہنمائی فراہم کرتا ہے بس ایک دفعہ اپنے دین پر عمل کر کے تو دیکھ.

”آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا “﴿المائدہ آیت 3﴾. حقوق الله سے چمٹ جاؤ اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو کرحقوق العباد میں سمٹ جاؤ۔ الله کی قسم اس کامل اکمل دین پر عمل کرو گے  تو ایک کامل انسان بن جائے گا. تو پھر  دنیا میں بھی کامیاب ہو گا اور آخرت میں بھی سُرخرو ہو گے

خودی کو کر بلند اتنا کہ خدا بندے سے خود پوچھے ، کہ بتا تیری رضا کیا ہے ۔

No comments:

Post a Comment