اقبال کی شاعری کے ادوار اور سر کا خطاب
مصنف : عاطف سعد
اقبال کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی شاعری کا آغاز اسی وقت ہوگیاتھاجب وہ ابھی سکول کے طالب علم تھے اور اگر انکی شروع دنوں کی شاعری کو بغور دیکھا جائے تو ایک عاشق مزاج کی شاعری لگتی ہے ، مثال کے طور پہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار !کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ ،مستی میں ہشیار کیا تھی
تامّل تو تھا ان کو آنے میں قاصد!
مگر یہ بتا! طرزِ انکار کیا تھی؟
کہیں ذکر رہتا ہے، اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
۔لیکن اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاءکی منازل کا تعین اس کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اقبال نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری کو ہی بنایا ہے۔اقبال کی شاعری کے 4 ادوار ہیں.
1۔ پہلا دور از ابتداء1905ءیعنی اقبال کے بغرضِ تعلیم یورپ جانے تک کی شاعری
2۔دوسرا دور 1905ءتا 1908ءیعنی اقبال کے قیامِ یورپ کے زمانہ کی شاعری
3۔ تیسرا دور 1908ءتا 1924ءیعنی یورپ سے واپس آنے کے بعد ”بانگ درا “ کی اشاعت تک کی شاعری
4۔ چوتھا دور 1924ءتا 1938ء”بانگ درا “ کی اشاعت سے اقبال کے وفات تک کی شاعری۔
یکم جنوری ١٩٢٣ کو علامہ اقبال کو “سر ” کا خطاب ملا تو ان کے مداحین اور دوست احباب چونک اٹھے، کہ یا الہی یہ کیا ماجرا ہےاس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت برطانیہ عام طور پر وفاداری کے صلےمیں مخصوص عزازات اور خطا بات دیا کرتی تھی اور علامہ اقبالکے بارے میں دنیا جانتی تھی کہ وہ ایک درویش صفت انسان ہیں۔
مولانا نیرنگ علامہ کو خطاب ملنے پر لکھتے ہیں”میں اس اللہ کے قلندر کوخوب جانتا ہوں .مگر یہ بھی جانتا تھا کہ شیطان اپنے داؤ پیچ سب پر چلاتا ہے . اس لئے ضروری سمجھا کہ مبارک باد کے ساتھ ان کو یہ بھی یاد دلاؤں کہ اسلامی دنیا ان سے کیا کیا توقعات رکھتی ہے “. ان کے خط کے جواب میں علامہ اقبال نے لکھا” میں آپ کو اس عزاز کی خود اطلاع دیتا . مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے وقعات احساسات سے فرو تر ہیں سینکڑوں خطوط موصول ہوے ہیں اور ہو رہے ہیں . اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ، باقی رہا وو خطرہ ، جس کا آپ کے دل کو احساس ہوا ہے . سو قسم ہے اس بزرگ و برتر کی ، جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس خداۓ ذولجلال کی جس کی وجہ سے مجھ کو ا یمان نصیب ھوا ہے اور مسلمان کہلاتا ہوں . دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی انشاللہ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اقبال کا دل مومن ہے۔
خطاب ملنے کی کہانی کچھ اسطرح سے ہے پنجاب ہایی کورٹ کے چیف جسٹس سر شاری لال نے علامہ کو بلا کر کہا کہ حکومت نے مجھ سے خطابا ت کے لئے سفارشات طلب کی ہیں . اور میں آپ کے لئے ” خان صاحب” کا خطاب تجویز کر رہا ہوں . یہ چونکہ ادنی ترین خطاب تھا علامہ کو اس خطاب میں اپنی توہین کا پہلو نظر آیا اور علامہ نے بگڑ کر کہا ” میں کسی خطاب کا خوا ہاں نہیں. اس لئے آپ سفارش کی زحمت نہ کریں”. سر شا ری لال نے کہا ” اتنی جلدی فیصلہ نہ کریں ذرا سوچ لیں ” علامہ نے کہا ” میں سوچ چکا ہوں ، مجھے کسی خطاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے”.
اس زمانے میں سر ایڈورڈ مکلیگن پنجاب کے گورنر تھے .گورنر پنجاب سے علامہ اقبال کے ایک دوست نواب ذولفقار علی خان کے گہرے روابط تھے . ایک دن نواب صاحب نے گورنر سے کہا “کہ مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو سر کا خطاب مل چکا ہے . بری عجیب بات ہے کہ اقبال اس قدر دانی سے محروم ہیں . حالانکہ وہ بہت بڑے شاعر اور مسلمونوں کے محبوب رہنما بھی ہیں” اس پر گورنر نے کہا ” اچھا نم ان کو خان بہادر کا خطاب دلائیں گے” نواب صاحب نے کہا ” یہ خطاب تو ان کی شایان شان نہیں ہے ” پھر گورنر بولے “کہ ان کو شمس العلما کا خطاب کیسا رہے گا ؟”نواب صاحب نے کہا یہ بھی نہ مناسب ہے . گویا اس طرح کہ دیا کہ خطاب ملے تو سر کا ملے جوسب سے اونچا خطاب تھا۔
برطانیہ کا ایک مشھور اخبار نویس ، جو ادیب بھی تھا دنیاۓ اسلام کی سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کا مہمان ہوا . اس نے ایک تو “اسرار خودی ” کا وو انگریزی ترجمہ پڑھ رکھا تھا . جو پروفیسر نکلسن نے کیا تھا دوسرا اسلامی دنیا میں اقبال کا چرچہ سن رکھا تھا . تیسرا وہ اپنی ایک کتاب کے بارے میں علامہ اقبال سے راے لینا چاہتا تھا . اس نے گورنر سے درخواست کی کہ اقبال کو چاے پر مدعو کرے.علامہ کی اخبار نویس کے ساتھ چاے کی پیالی پر بہت علمی گفتگو ہوئی. جب علامہ رخصت ہونے لگے تو گورنر نے کہا ” مجھے بہت افسوس ہے کہ حکومت نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے میں سستی برتی ہے .میں اس وقت خطابات کی سفارش کر رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ کے لئے “سر ” کے خطاب کی سفارش کی جاۓ . علامہ نے انکار کیا اور کہا کہ میں خطابات و اعزازات کے مسائل میں نہی پڑنا چاہتا۔
جب علامہ کو سر کا خطاب ملا تو علامہ نے کچھ طنزیہ شعر لکھے تھے .جو علامہ کے خطوط میں موجود ہیں
۔
لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت
افسوس کہ سر ہو گئے اقبال
پہلے تو سر ملت بیضا کے وہ تھے تاج
اب اور سونو تاج کے سر ہو گئے اقبال
پہلے تو مسلمانوں کے سر ہٹے تھے اکثر
تنگ آ کے اب انگریز کے سر ہو گئے اقبال
کہتا تھا کل ٹھنڈی سرک پر کوئی گستاخ
سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال
سر ہو گیا ترکوں کی شجاعت سے سمرنا
سرکار کی تدبیر سے سر ہو گئے اقبال
No comments:
Post a Comment