Monday, April 20, 2015

مردوں کا استحصال آئے دن ہوتا رہتا ہے

مردوں کا استحصال آئے دن ہوتا رہتا ہے

مصنف : گھمنام



آج کل میں جب یہ تحریک نسواں کی متحرک آنٹیاں اور آنٹے نماعجیب وغریب قسم کے  "شمیم"  مردوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کا آنسو روتا ہے. ایک مرد کی کوئی عزت ہی نہیں ہے. " میری پسند میرا بدن" جیسی ویڈیو سے کیا بتانا چاہتے ہیں کہ مرد مرد نہیں بلکہ درندہ ہے. کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں ایک جہاز میں سفر کر رہا تھا کہ آگے والی نشست پر ایک  خاتون جہاز کے  کیبنٹ میں اپنا دستی سامان نہیں رکھ پا رہی تھی. یہ دیکھتے ہی ہم تین چار مرد حضرات  نے خدمت خلق کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں . چونکہ میں پچھلی نشت پر تھا تو یہ نیک کام کرنے کا شرف مجھے حاصل ہوا ، لیکن اس خاتوں کے ساتھ والی سیٹ پر کیا دیکھتا ہوں کہ  تین چار ہٹی کٹی لمبے قد والی خواتین بھی تشریف فرما تھیں  لیکن کسی کو شرم نہ آئی کہ اس بیچاری چھوٹے قد والی خاتون کی مدد ہی کر دیں. ایسے قصے روزانہ آپ کے ارد گرد ہوتے ہی ہوں گے. مرد نے ہمیشہ  "سب سے پہلے خواتین " کا نعرہ بلند کیا ہے. بینک میں لگی لائن ہو یا پھر بس کی نشت ، مرد ہی قربانی کا بکرا بنتا آیا ہے . مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ڈالر خور آنٹیاں اور شیم مرد کون سے حقوق کی بات کرتے ہیں . کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ ہم مرد آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟

ہم مردوں کا استحصال آئے دن ہوتا رہتا ہے. آئے دن مردوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے. ایک دفعہ میں  شام کے وقت آفس سے گھر جا رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں  کہ ایک عورت بھرے بازار میں اپنے مرد کی پٹائی کر رہی تھی . یہ دیکھ کر سوچا  وجہ ہی معلوم کرلو. پتا چلا مرد بیچارے نے اس کی ایک پرانی دشمن خاتون  کو فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ کے لئے انویٹیشن بھیج دیا تھا. جس سے بعد میں اسی دشمن خاتون نے متعلقہ پارٹی کو مطلع کر دیا تھا . پٹنے والے مظلوم مرد اپنا دکھڑا کسی کو سنا بھی نہیں سکتے. چلو مان لیا شادی سے پہلے تھوڑا ہم لا پرواہ قسم کے ہوتے ہیں  لیکن قسم لے لو شادی کے  اگلے دن ہی  یہ بیوی سب سے پہلے اپنے شوہر کے نئے موبائل پر قبضہ کرتی ہے.اور اگر شوہر بیچارہ انکار کر دے تو منہ بن جاتا ہے اور پندرہ دن کے لئے   میکے میں مکلاوا جانے کی دھمکی آ جاتی ہے . پہلے دن ہی موبائل پر قبضہ کرنے کی  سمجھ صرف سابقہ چکروں کا سراغ لگانا ہوتا ہے جس کی بنیاد زیادہ تر شک و شبہ پر ہوتی ہے.

مرد بیچارہ ہفتے میں اگر ناخن کاٹنا بھول جائے تو سب سے پہلا طعنہ آتا ہے کہ زنانی بن گیا ہے کیا ؟ لیکن اگر کوئی خاتون مردوں جیسے بال کٹوا کر آ جائے تو فیشن کی اصطلاح کا سہارا لے کر بواۓ کٹ کا نام دیا جاتا ہے.بواۓ کٹ فیشن کا نمونہ دیکھنے کے لئے اب شیریں مزاری کو ہی دیکھ لے  .  مرد نے اگر شرٹ کے بٹن کھولے ہوں اور چھاتی کے بالوں کا گجن نظر آ رہا تو بھی یہ سوسائٹی جملے کستی ہے لیکن اگر کسی خاتون نے کھلے گلے والی کوئی قمیض یا شرٹ پہنی ہوئی ہو  تو بھی مرد ہی  قصوروار کہ تم مردوں کو  بس ایک ہی چیز نظر آتی ہے. اس بے حس معاشرے نے مرد کو گالی بنا کر رکھ دیا. اگر یہ عورتیں فیشن کے نام پر cleavage والی قمیضیں پہن سکتی ہیں تو کم از کم نواز شریف جہاز میں اپنی شلوار کا  نارا کھول کر دوبارہ تو باندھ ہی سکتا ہے. لیکن وہاں بھی یہ لوگ کیمرے لے کر پہنچ گئے. گلیمر کے نام پر عورتوں کی نیلامی خود کرتے اور اس کا ازالہ مردوں سے کروانا چاہتے ہیں.اگر عورتوں کی آزادی کا مطلب ننگ دھڑنگ ہے تو مردوں کی آزادی کا مطلب کیا ہونا چاہیے ؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ عورتیں آخر اپنے جسم کی نمائش کیوں کرتی ہیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ انہیں مرد دیکھیں. اب جب وہ خود یہ چاہتی ہیں کہ مرد انہیں دیکھے تو پھر اس دیکھنے پر مرد کے خلاف اتنا واویلا کیوں؟ کیا کبھی کسی مرد نے کسی عورت سے کہا کہ وہ ننگ دھڑنگ ہو کر گھر سے باہر نکلے؟ اگر نہیں تو پھر عورت کو کیا مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ایسے کپڑے پہنے جس سے جسم کی نمائش ہو رہی ہوتی ہے؟ کیا کوئی حقوق نسواں کا ٹھیکیدار اس سوال کا معقول جواب فراہم کر سکتا ہے؟

No comments:

Post a Comment