Saturday, October 11, 2014

خلائی سفر کے مہنگے خواب اور انسانیت کا درس دینے والے نام نہاد

خلائی سفر  کے مہنگے خواب اور انسانیت کا درس دینے والے  نام نہاد 


مصنف : مرتضیٰ مہر 


گزشتہ کچھ دنوں میں انڈیا نے جو مریخ پر پہنچنے میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔انہوں نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف
 مبذول کرالی ہے مشرق و مغرب میں اس انسانی دماغ کی دھوم مچی ہوئی ہے جس کی ترکتازیوں نے خلاء کی وسعتوں کوعبور کر کے مریخ کی سطح کو فتح کیا کوئی شک نہیں کہ منگلیان کے حیرت انگیز سفر نے انسانی ذہن کی توانیوں کا حیرت انگیز مظاہرہ پیش کیا ہے اُنہوں نے جو یادگار کامیابی حاصل کی ہے وہ سائنسی نقطہ نظر سے تاریخی قدروقیمت رکھتی ہیں اور اُنہوں نے فن و تکنیک ،حساب و تخمین کی صحت اور غیر معمولی حالات کی پیش بینی کو اپنے عروج تک پہنچا کر دکھلایا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اس خلائی سفر میں خلائی جہاز کی روانگی سے لے کر واپسی تک ہر مرحلہ ایک عام آدمی کے لئے نہایت حیرت انگیز ہے ، اور ٹھیٹھ سائنسی نقطہ نظر سے یہ سفر ایک ایسا کارنامہ ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ 
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے روشن دماغوں کا تاریک پہلو کچھ اور ہے ۔ ہارون الرشید کے زمانے کے ایک واقعہ پر نظر دوڑاتے ہیں ۔ جو ہم کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دے گا ۔ ہارون الرشید کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آتا ہے ۔ مشہور ہے کہ کسی شخص نے اس کے دربار میں ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے کی اجازت چاہی تھی ، اجازت مل گئی تو وہ دربار میں حاضر ہوا اور فرش کے بیچوں بیچ ایک سوئی کھڑی کر دی اور کچھ فاصلے پر کئی سوئیاں ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا پھر اس نے ایک سوئی اُٹھا کر فرش میں کھڑی ہوئی سوئی کا نشانہ لیا اور اس کی طرف پھینک دی پلک جھپکنے کی دیر میں حاضرین نے دیکھا کہ یہ دوسری سوئی پہلی سوئی کے ناکے میں داخل ہو کر پار ہو چکی ہے ۔ اس کے بعد اس نے اور ایک سوئی اُٹھائی اور اس کو بھی اس طرح پہلی سوئی کے ناکے میں پار کر دیا پھر یکے بعد دیگرے اس نے کئی سوئیاں اسی طرح پھینکیں اور سب کی سب پار ہو گئیں ۔ ایک میں بھی نشانہ خطا نہیں گیا ۔

ہارون الرشید نے یہ حیرت انگیز کمال دیکھا تو اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو دس دینار انعام میں دئیے جائیں اور دس کوڑے لگائے جائیں ۔ حاضرین نے اس عجیب و غریب انعام کی وجہ پوچھی تو ہارون الرشید نے کہا کہ دس دینار اس شخص کی ذہانت ،نشانے کی سچائی اور اولوالعزمی کا انعام ہیں اور دس کوڑے اس بات کی سزا ہیں کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیتیں ایک ایسے کام میں صرف کی ہیں جس کا دین دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ہارون الرشید کی حکمت و ظرافت کا یہ واقعہ موجودہ دور کی خلائی دوڑ پر بہت چسپاں ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ چاند تک پہنچنے کے اس کارنامے پر بھی ایک طرف ان سائنسدانوں کی تعریف و تحسین کرنے کو دل چاہتا ہے جنہوں نے اپنی ذہانت فنی مہارت اور عزم و حوصلہ کے بالکل نرالے ریکارڈ قائم کئے ہیں ۔ لیکن جب اس طرف نگاہ کی جاتی ہے کہ اس کارنامے پر انسانیت کی کتنی ذہنی،مالی اور جسمانی توانائیاں صرف ہوئیں ،اور ان کے نتیجے میں انسانیت کو کیا ملا ۔ ؟ تو یہی کارنامہ ایک ایسا بین الاقوامی جرم نظر آتا ہے جس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی ۔ چونکہ اس معاملے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں کچھ دماغوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے اسی مسئلے پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری ہے ۔

کچھ وحشی ملحدوں کا ایسا گروہ ہے جس کی آنکھیں سائنس کی اس شان و شوکت کو دیکھ کر اس درجہ خیرہ ہوئی جاتی ہیں کہ اس کے نزدیک سیاروں پر راکٹ پھینکنے سے زیادہ ضروری ، اہم قابلِ تعریف اور قابل تقلید کام کوئی اور ہے ہی نہیں اور جو ایسا نہیں کرتے وہ ان کے نزدیک کافر ہیں ۔ ایسے حضرات ان سائنسی ترقیات کا ذکر جس مرعوبیت ،رشک اور حسرت کے ساتھ کرتے ہیں ، وہ گویا زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ انسانیت کی سب سے بڑی محسن اور اس کائنات میں سب سے زیادہ خوش نصیب اور افضل و برتر قوم وہ ہے جس کے فرزندوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے اور بڑی محروم ہیں وہ قومیں جو اس ’’مقدس‘‘ دوڑ میں ان سے پیچھے رہ گئیں ہیں ۔

آپ نے اکثر وحشی درندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ۔۔۔۔دنیا چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے ، اور مسلمان ابھی تک نماز، روزے اور نکاح و طلاق کے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں ۔۔۔یہ فقرہ اسی وحشی پن کا ترجمان ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ راکٹ اور مصنوعی سیارے ایجاد کرنے کے بعد مغربی قوم زندگی کے ہر شعبے میں دوسری قوموں سے سبقت لے گئی ہیں اور اب انڈیا ایشیا پر سبقت لے گیا ہے ، اور اب اپنے ہر مسئلے کا حل ان ہی کے نقوش قدم میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے
۔

اصل واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں اندازِ فکر غلط اور خطرناک ہیں ۔ ہمیں اس بات کا اظہار کرنے میں قطعی کوئی تامل نہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے ، اور سائنس کے نقطہ نظر سے انسان کی ایک عظیم کامیابی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ’’کارنامے‘‘ کی انجام دہی کی انسان کو جو قیمت ادا کرنی پڑی ہے ، کیا اس کے پیش نظر یہ کارنامہ انجام دینے کے لائق بھی تھا ۔؟

اپالو ہشتم اور اپالو دہم کی کامیابیوں سے مزے لینے والے تو بہت ہیں لیکن یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ان جہازوں کے ایک ایک سفر پر کیا خرچ آیا تھا ۔ ؟ اگر آپ 
http://en.wikipedia.org/wiki/Apollo_program وزٹ کرتے ہیں اور پروگرام کاسٹ دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ چیز ملے گی
۔ (نوٹ یہ ٹوٹل کاسٹ نہیں ہے یعنی کاسٹ اس سے کہیں زیادہ ہے)



Apollo spacecraft: $7,945.0 million
Saturn I launch vehicles: $767.1 million
Saturn IB launch vehicles: $1,131.2 million
Saturn V launch vehicles: $6,871.1 million
Launch vehicle engine development: $854.2 million
Mission support: $1,432.3 million
Tracking and data acquisition: $664.1 million
Ground facilities: $1,830.3 million
Operation of installations: $2,420.6 million

واضح رہے کہ یہ رقم پاکستان کےکئی سالوں کے بجٹ اور کئی سالوں کی قومی آمدنی کے مساوی ہے اتنا پیسہ صرف کچھ
انسانوں کو خلاء کی سیر کرانے کے لئے خرچ کر دینا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک جس قدر روپیہ کم از کم ستر اسی سال میں خرچ کرتا ہے وہ صرف ان میں سے چار خلائی جہازوں پر خرچ کیا جا چکا ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ جس دنیا میں جگہ جگہ بھوک اورافلاس کا رونا رویا جاتا ہو ۔ جہاں کروڑوں افراد اپنا پیٹ بھرنے کے لئے جو کی روٹی تک کے محتاج ہوں ، جہاں بے شمار مریض دوا میسر نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہوں ، جہاں کی تقریباً آدھی آبادی تعلیم سے ناآشنا ہو ، کیااس دنیا میں کروڑوں اور اربوں نہیں ،کھربوں روپیہ خلا میں اُڑا کر ضائع کر دینا کسی ایسے شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کے دل میں انسانیت کا ادنیٰ سا درد ہو ۔ ؟ جی نہیں وحشی ملحدوں کا درد کبھی انسانیت کے لئے نہیں جاگے کا اُن کے شوق پورے ہونے چاہیے انسان بھوک سے مرتے ہیں مر جائیں خود کشی کرتے ہیں کر جائیں پانی کی بوند کو ترستے ہیں ترس جائیں وحشی ملحدوں کا شوق پورا ہونا چاہیے اور خلائی سفر ہونا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی مسلمان گائے یا بکرے کو زبح کر کے کسی غریب کو یہ نعمت خدا چھکانے کی کوشش کرے تو ان انسانیت کے دشمن اور کتوں کے باڈی گارڈوں کے دل میں جتنا بھی درد ہے وہ دھاڑیں مار مار کر چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے ۔

آپ باہر کی دنیا کو چھوریں خود امریکہ جس نے اولین یہ کارنامہ انجام دینے کا اعزاز حاصل کیا تھا ٹھیک اسی مہینے جس میں اپالو ہشتم پر ایک کھرب بیس ارب روپیہ خرچ کیا گیا ، یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ وہاں پر نو آدمیوں میں سے ایک مفلس ہے اور ’’افلاس آج کا سب سے بڑا مادی مسئلہ ہے‘‘ ہفتہ وار ٹائم نیویارک 24جنوری 1969ء ص21
اور اگر آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں اور انڈیا کے خلائی مشن پر لوگوں کے تبصرے پڑھیں تو وہ بھی اس سے مختلف نہیں ملینگے ۔ کیونکہ میں نے پڑھے ہیں ۔

کیا پاکستان جیسا ملک کڑوؑڑوں روپیہ صرف چاند تک پہنچنے کے بے فائدہ شوق میں پھونک دے کیا یہ عقل، دیانت ، انصاف اور انسانی ہمدردی سے کہیں میل کھاتا ہے ۔ مشرق کا کوئی آدمی اس خلائی دوڑ کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ حسد کی وجہ سے کہہ رہا ہے ۔ اس لئے اس موضوع پر مغرب کے ایک مشہور مورخ اور مفکر کا تبصرہ پڑھیں اس موضوع پر برطانیہ کے ممتاز مورخ اور فلسفی آرنلڈ ٹائن بی کا ایک بڑا فکر انگیز مضمون شائع ہو وہ ان خلائی کارناموں کی حیرت انگیزی کا اعتراف کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔

لیکن آج بھی امریکہ کی دس فیصد یا بیس فیصد آبادی افلاس زدہ افراد پر مشتمل ہے ، اور اگر دنیا کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کا صرف ایک تہائی حصہ ایسا ہے جسے صحیح طریقے سے خوراک مل رہی ہے ۔ لہٰذا بنی نوع انسان کی معاشی قوت کا صحیح مصرف یہ ہرگز نہیں ہے کہ اہرام مصر بنانے یا چاند تک پہنچنے کی حماقتوں کا ارتکاب کیا جائے جو بذاتِ خود جرائم کی فہرست میں آتے ہیں ۔ ‘‘

’’روس اور امریکہ کے لوگ ایک دوسرے کو ان خلائی کامیابیوں پر مبارک باد پیش کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ ان کی رقیبانہ کاوشیں ہی درحقیقت اس ’’حماقت‘‘ کا سب سے بڑا سبب ہیں ، اگر زمین کے ایک چھوٹے سے سیارے پر یہ دو بڑی سیاسی طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل نہ ہوتیں تو اس ’’حماقت‘‘ کا ارتکاب نہ کیا جاتا ۔ ‘‘

جب سے انسان کے معاملات کا ریکارڈ (تاریخ کی صورت میں) ہمارے پاس موجود ہے ، اس وقت سے انسان کی تیکنیکی ترقی اور اخلاقی زوال لازم و ملزوم ہوتے جا رہے ہیں ، ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ بلاشبہ حیرت انگیز ’’کامیابیوں کی داستان‘‘ ہے لیکن ہمارے اخلاق و کردار کی تاریخ ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی تاریخ ۔۔۔۔۔۔ اب تک ناکامیوں کی حسرت بھری داستان ثابت ہوئی ہے ۔ یہ وہ اخلاقی ’’خلاء‘‘ ہے جو 1945ء کے بعد سے اتنا زیادہ وسیع ہو چکا ہے کہ اس نے تباہی کے آنے کے لئے ایک وسیع راستہ کھول دیا ہے 
کہا جا رہا ہے کہ انڈیا کے مشن کی لاگت کل 450 کروڑ روپے یا چھ کروڑ 70 لاکھ امریکی ڈالر رہی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔یعنی کم سے کم لاگت میں اور پہلی ہی کوشش میں کامیاب خلائی سفر لیکن اس سے ہو گا کیا ۔ انڈیا کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی تھی اس کو بغور پڑھیں ۔ چدریان ۔2 کی تعمیر کا کام ترقی پر 
خلا سیکشن کے مطابق، منگل مشن کے بعد اسرو کا اگلا قدم چاند پر روبوٹ اتارنے کا ہے. چدریان ۔2 تعمیر ترقی پر ہے. لینڈر اور روور کے ٹیسٹ شروع ہو گئے ہیں.

2017 کے بعد خلا میں انسانی مشن بھیجنے پر زور 
خلائی شعبہ کے ذرائع کے مطابق مگلیان کی کامیابی سے خلائی پروگرام میں بھارت کا اعتماد بڑھا ہے. اس لئے خلا میں انسانی مشن بھیجنے کا منصوبہ پر عمل کی سمت میں قدم بڑھائے جائیں گے. اس کے لئے اسرو نے پہلے ہی ضروری مطالعہ کر لئے ہیں. 2017 کے بعد اس مشن پر کام شروع ہو جائے گا اور 2020 میں اسرو خلا میں انسانی مشن بھیجے گا. پہلے مرحلے میں انہیں قریب 500 کلومیٹر کی ہی فاصلے تک زمین کی نچلی کلاس میں انسانی مشن بھیجا جائے گا اور اس کے بعد یہ دائرہ بڑھایا جائے گا. اس منصوبہ پر تقریبا 12 ہزار کروڑ روپے کے اخراجات کا اندازہ ظاہر کیا گیا ہے.

فکروخبر آن لائن ایڈیشن ۔
اس کے علاوہ دوسرے ممالک بھی اس ریس میں شامل ہونگے اور غریبوں کا حق مارا جائے گا ۔ غریب خودکشی پر مجبور کئے جائیں گے ۔ بچے بوڑھے لاعلاج ہو کر مر جائیں گے ۔ کیونکہ جو پیسے فلاحی کاموں پر اور انسانیت کی بہتری کے لئے خرچ ہونے چاہیے تھے وہ تو خلائی سفر کے شوق میں اُڑائے جا رہے ہیں ۔ تاکہ وحشی ملحد راضی ہو سکیں ۔ انسانوں کے جنازے اُٹھتے دیکھ کر ۔
اسلام اس چیز کا مخالف نہیں ہے حج اسلام کا اہم رکن ہے لیکن یہ اُنہی پر فرض ہے جو صاحبِ استطاعت ہو ورنہ یہ حکم بھی ساقط ہو جاتا ہے یہ نہیں کہ گھر میں جوان بیٹیا ہوں ۔ کھانے کو کچھ نہ ہو غربت نے ڈھیرا جمایا ہو اور نکل پڑو حج کرنے نہیں ۔ بلکہ جب آپ کے زمہ کوئی بھی ایسی زمہ داری نہ ہو تو پھر بے شک آپ حج کریں اور جتنے مرضی کریں یہی حال ان خلائی سیروں کا ہے جب یہ ثابت ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور میں لوگ ٹھیک سے کھانا تک نہیں کھا سکتے تو دوسرے ملکوں پر بحث کرنا فضول ہو گیا ۔ اسلام پہلے انسانیت کا خیال کرتا ہے پھر دوسری چیزوں کاملحد پہلے دوسرے شوقوں کا خیال کرتا ہے پھر انسانیت کا یہی کشمکش ہے جو جاری ہے ۔ 



Total Cost of NASA's Space Shuttle Program: Nearly $200 BillionThe space shuttle provides pricey but useful lessons for future spaceflight endeavors.

space.com

1 comment:

  1. مرتضی بھائی کی یہ تحریر فیسبک پر میری نظر نہیں گزری۔۔۔۔۔ہارون الرشید کا واقع اور اس بات کا جو موازنہ کیا اس میں مکمل متفق ہوں۔ سب باتیں اپنی جگہ مگر اس سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچا؟
    پھر اس بات کو لے کر مسلمانوں پر ان جاہلین کا تبرا کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ اس دن ایک تحریر نظر سے گزری کچھ سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ سائنسدانوں کی اپنی فیلڈ ہ اور علماء کی اپنی۔ ان دونوں کا یوں موازنہ جاہلیت سے عاری نہیں۔ کیا علماء کرام کو چاند سے حدیثیں لا کر فقہ کے مسائل کو حل کرنا ہے؟

    ReplyDelete