Saturday, December 13, 2014

کیا یہودیوں کے لئے مسلمان خطرہ ہے ؟


کیا یہودیوں کے لئے مسلمان خطرہ ہے ؟ 


مصنف : رانا ابرار 


دنیا پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کے لئے یہودی سرگرم عمل ہیں اور بڑی تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ دنیا میں اسوقت جتنے بھی مذاہب ہیں سب اتنی تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہے جتنا کہ اسلام آگے بڑھ رہا ہے اور اس کے نام لیوا ؤں کی تعداد میں روز بروز  اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ہی یہودی مادی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔اور یہودیوں کو اسوقت اتنا خطرہ عیسائیت سے نہیں جتنا کہ اسلام سے ہے کیونکہ وہ عیسائی مشنری پرتقریبا مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں پر ابھی تک کوئی کنٹرول نہیں کر پایا اس لیئے انکو آپس میں الجھا کر اور لڑوا کر اپنا راستہ سیدھا کر رہے ہیں۔ ہٹلر کے سبق سکھانے پر جب یہودی سمبھلے تو انہوں نے کچھ تہہ کیا کہ وہ دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی پہچان کو بحال کریں گے اور پھر سے ایک مضبوط قوم بن کر ابھریں گے۔ دنیا کو دکھایاگیا۔۔۔!ایک مسودہ،ایک قانون، ایک تحریر، ایک راستہ۔ وہ سب کچھ تھا جسکی بدولت ان کی گرتی ہوئی حالت 
بہترہوئی اور قدرے بہترہوئی کہ دنیا میں جہاں بھی گئے اپنی جڑیں مضبوط کرتے گئے۔


 ان کی اس قانونی کتاب کا نام "The Protocols Of Learned Elders Of Zion"   اور  1919 ؁  میں دنیا اس سے متعارف ہوئی۔ لیکن کچھ معلومات کے مطابق اس پر سب سے زیادہ کام یورپ اور امریکہ میں ہوا اور اس کے ذریعہ سے یہودی سازشوں کو پروان چڑھا کر کے پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھا گیا۔پہلی صیہونی کانگرس1897؁  میں ہوئی جس میں تہہ پایا کہ یہودی مل کر فری میسن کے ساتھ کام کریں گے، اوراپنے بڑے دشمن عیسائی طبقہ اور ان کی تہذیب کو منتشر کریں گے اور انکی تباہی کی وجہ بنیں گے۔لیکن بات یہاں تک نہیں رکی ان کے راستے میں جو بھی آیا ...! اسے یا تو 
کسی کے ساتھ الجھا دیا،یا اسی کے کچھ لوگوں کو خرید کر اپنی مرضی کی پالیسیاں بنوا لی گئی۔


اس کے بعدان پروٹوکولز کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں کیا گیا۔حالنکہ یہودی اپنے ان اصولوں کو آزما چکے تھے.........! اور دانشور حضرات کے مطابق یہودی لابی نے ان پروٹوکولز کو لاگو کرنے کے لیئے متعارف کروایا تھا لیکن میرے مطا بق ایسا نہیں یہ پہلے سے ہی ان چیزوں پر اپنی منصوبہ بندی سے کاربند تھے لیکن عام فہم لوگوں کو اس چکر میں رکھنے کے لئے ان کو بڑے ڈرامائی انداز سے پیش کیا کہ اس طرح سے جو بھی ان کا تجزیہ کرے گا وہ یہ ہی سمجھے گا یہ ابھی اس مشن پر کام شروع کر رہے ہیں لیکن اس کی جڑیں کتنی گہریں اور مضبوط ہیں اس بات کا اندازہ کوئی نہیں لگائے گا جب کہ عام فہم میں ہم یہ ہی سمجھیں گے کہ جیسے  1919 میں انکو متعارف کرایا گیا تو کتنا عرصہ پہلے کام ہوا ہو گا کوئی دس بیس سال لیکن غور کریں تو اس کام تو وہ تین صدی پہلے ہی شروع کر چکے ہیں اور یہ تو انکی ایک رپورٹ ہے اپنی کارکردگی کی۔ان کی چالاکی اور مکاری کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ پروٹوکولز کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات یا بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر کام ہوا اورباقی جو کام رہتا ہے اسکو جاری رکھنا ہے۔ 


1)  بنیادی تعلیم وتربیت  2)  معاشی جنگ  3)  فتح ونصرت کے طریقے  4)  مذہب کی جگہ مادیت  5)  جبر اور جدید ترقی  6)  فنی عمل پر عبور  7)  بین الاقوام جنگیں  8)  عارضی حکومت  9) تعلیمِ نو  10)  طاقتور تیاری  11)  مطلق العنان ریاست  12)  پریس پر کنٹرول  13)  مخالف کے لئے اضطراب و پریشانی  14)  مذہب پر حملہ  15)  مخالف پرسنگدل دباؤ  16)  اختیار کا ناجائز فائدہ  17)  مخالفین کی گرفتاری  18)  حکمران اور لوگ  19)  مالی پروگرام  20)  قرضہ اور اعتماد  21)  سونے کی طاقت  22)  دنیا پرحکمرانی  23)  حکمران کی خصوصیات۔

عام فہم میں یہ وہ بنیادی نسخہ تھا جس کی بدولت یہودیوں نے کام کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ دنیا پر قابض ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور کافی حد تک وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں جو کہ انہوں نے تہہ کیا تھا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ان پروٹوکولز کولیتے ہوئے دنیا پرتجزیہ کریں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔یہاں کچھ تاریخی کارنامے لکھتا ہوں جو یہودیوں کے ہیں۔

1649  یہودی 'کرومویل 'کی چارلز اول بننے میں مالی مدد کریں گے۔اور بدلے میں انکی انگلستان واپسی قانونی نقطہ نظر سے جائز ہوگی۔
1694  ولیم (اورنج)،  انگلستان کے بادشاہ نے یہودیوں سے کسی معاملہ میں مالی مدد مانگی اور انہوں نے سود پر بینک نوٹ جاری کئے اور اس طرح پہلے سنٹرل بینک کی بنیاد رکھی گئی۔
1697  لندن اسٹاک ایکسچینج دنیا میں سب سے زیادہ بلندی پر گئی۔بدلہ میں 12 حکومتی سیٹیں صرف یہودیوں کے لئے ریزو کی گئیں۔
1750  یہودی میئرایمزچل کوکراؤن کی طرف قرضہ دینے کا اختیار ملا۔ نیا عہدہ اور    "ہاؤس آف ریڈشیلڈ "قائم ہوا۔
1753  یہودی میئر ایمزچل،اس کا پیادہ بادشاہ جارج دوئم اور ایمسٹرڈیم یہودی بنکار وں نے  Naturalization Bill  (قوم میں داخل ہونے کا بل)  پاس کرایا تاکہ یہودی بھی برطانوی رعایامیں شمار ہوں گے۔
1808  'نیپولین' یوررپ کا حکمران بنا تو اس نے ایک فرمان جاری کیااس میں یہودیوں پر مناسب پابندیاں لگائی گئیں۔اسپریہودیوں نے انتقام لینے کے لئے منصوبہ بندی کی۔
1814  والٹرلو کی جنگ نیپولین کے انٹی جیوِش قانون کے خاتمہ کی آخری نشانی بنی اوریورپ پر عیسائیوں کا غلبہ ہو گیااور فرانس کے جیمز اور انگلینڈ کے ناتھن نے اس جنگ میں نیپولین کے خلاف مالی اعانت کی۔
1815  جیمز اور ناتھن  (Rothschild) نے ویانا گانگرس میں یورپی حکمرانوں کوجمع کیا اور اپنی منصوبہ بندی کا ایک مسودہ پیش کیا جو ایک اور نیپولین کو اٹھ کر یورپی تشکیل کو اپنی مرضی سے ڈھالنے سے باز ر کھ سکے۔"طاقت کا توازن"  وجہ  اگر ایک یورپی قوم بہت زیادہ طاقتور بن گئی تو، دوسری قومیں اکٹھی ہو کر اسپر حملہ کریں گی، مطلب جن قوموں کو یہودی ظاہر کریں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں تو ان کے پیادے کے ذریعہ سے ان کو دبا لیا جائے۔
1848  یہودیوں نے اپنے پیادوں  (Rothschild) کے ذریعہ ایک کتاب لکھوائی جس کا مصنف کارل مارکس تھا کتاب میں یہودیوں کی طرف سے مانگ تھی بڑے شرفا سے کہ ان کی جائیدادیں انکو واپس کی جائیں۔
1890  "Vickers of England"دنیا کی سب سے بڑی اسلحہ اور گولہ بارود کی فیکٹری  (Rothschild) نے بنوائی۔ ایک اسٹیج (Rothschild)کی جنگ کے لئے سیٹ کیا گیا پہلی جنگ عظیم،دوسری جنگ عظیم اور اس طرح مزیدجنگوں کے لئے بھی۔
 
1906  مارکونی کی ایجاد ریڈیو یہودی ڈیوڈ سرنوف کی وساطت سے مارکیٹ میں لایا گیا۔ 'ڈیوڈ سرنوف' نے  انگلینڈ میں  "Marconi Company" بنوائی اور "RCA"  امریکہ میں بنوائی اس طرح یہودیوں کے میڈیا پرکنٹرول کا آغاز ہوا۔
1910 یہودیوں نے پورے یورپ میں "منسٹر آف فنانس"  کے آفس پر اپنا قبضہ جما لیا۔'لوئس کلوٹز'فرانس کا منسٹر آف فنانس بنا، ایسے ہی اٹلی کا' مِچل' بنا، جرمنی کا 'برن ہارڈ'، انگلینڈ کا 'روفوس'، ترکی کا 'ڈیوڈ'۔یہ سب یہودی تھے۔
1913 Federal Reserve Bank"   " کو" وڈروولسن" وجود میں لایا۔اس طرح امریکہ کا کنٹرول یہودیوں کے ہاتھ آیا۔
1914  "Vickers of England" اسلحہ ساز کمپنی پہلی جنگ عظیم میں Rothschildکی ملکیت رہی۔
1916  جرمنی جنگ جیت رہا تھا۔ صیہونی یہودی  وائزمین ایک زہریلی گیس دریافت کرتا ہے اور وعدہ لیتا ہے کہ وہ اسے انگلینڈ کو استعمال کرنے دے گا لیکن اس کے بدلے امریکہ کی مداخلت ہو گی اور صیہونیت کی مدد کرنا ہو گی۔ وزیر اعظم لائڈجارج نے اس پیشکس کو قبول کیا۔
1917  لارڈ بیلفور،وائزمین اور Rothschild نے ایک اعلامیہ میں آپسی منصوبہ بندی سے صیہونیوں کی عرب ممالک کے رقبہ پر چوری کو     "سرکاری"کر دیا۔
1919  یہودیوں نے جرمنی کی ذلت کے لئے"Treaty of Versailles" کیا۔
1945  روز ویلٹ چرچل، یہودیوں کو کمیونسٹ روس کے خلاف نصف یورپ پر قبضہ کی اجازت دیتا ہے تا کہ وہ جنسی زیادتی کر سکیں اجتماعی قتل اور نسل کشی بھی کریں۔
1948  ہیری ٹرومین، کی صیہونی یہودیوں نے مالی مدد کی کہ وہ اسرائیل کی شناخت قائم کریں۔

ان صیہونیوں نے کس طرح سے تاریخ میں اپنا کردار اد کیا اور مختلف حکومتوں میں اپنا اثرو رسوخ
 کیسے بڑھایا اور طرح سے اپنے جال کو بنا کہ اب چاہتے ہوئے بھی بڑے بڑے تھنک ٹینک اس جال کو کاٹنے کی کوشش کریں تو اس میں الجھ جاتے ہیں۔

یہودیوں کے کارنامے پڑھنے کے لئے پورے یورپ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تین کتابیں ہیں جو حکومتوں کی کرپشن اور سیاسی سازشوں اور مجرمانہ اتحاد سے متعلق ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب"Dialogue in Hell between Machiavelli and Montesquieu"   اس کتاب کا طرز بیاں طنزیہ ہے اور سبجیکٹ بادشاہ نیپولین سوئم ہے،اور اس میں کھیل گورنمنٹ کا الٹ پلٹ اور تخریبی بربادی ہے،فن نگاری وخطابت جزباتی ہے،پیسے کابے جا استعمال،اور خفیہ ایجنٹوں کا بیان بھی ہے جس طرح دنیا پر قابض ہیں۔


دوسراایک جرمن ناول ہے جس کا نام"Biarritz" ہے،جسے12 ربی (یہودی علم قانون)کی کہانی بھی کہتے ہیں میں اسرائیل کے قبیلوں کا بیان ہے جو کہ پاک قبرستانوں (جن کے ساتھ ان کے گرجاملحق ہوتے) میں خفیہ طور پر ملتے اور سحرانگیز گیت گاتے اوراپنے ان یہودی بنکاروں کی کامیابی کا جشن مناتے کہ جو دنیا پر کنٹرول کر چکے تھے۔تیسری بک "The Book of the Kabal" کے نام سے پکاری جاتی ہے ایک روسی یہودی نے لکھی جو بعد میں عیسائیت قبول کرتا ہے۔


یہ یہودی کونسل کی یاداشت کی تعبیر تھی، اس میں ریاست اندر ریاست کا بیان ہے اور اس کے
 ساتھ کہا گیا ہے کہ یہودی انٹرنیشل سازشوں میں مشغول رہے ہیں۔


کچھ حضرات پروٹوکولزکو، سازش کرنے والوں کی زبان کہتے ہیں،کچھ دانش وروں کے مطابق اس کے انداز بیان میں جس طرح کے فقرہ جات ہیں لکھاری نے یہودیوں کے خلاف لکھا ہے اور یہ پروٹوولز پروپیگنڈہ پر بنیاد کرتے ہیں یعنی" الٹا چور کتوال کو"اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کیا یہودی اپنا ماسٹر پلان اس طرح سے لکھ کر کے دنیا کے سامنے لائیں گے اس طرح تو جو سازش وہ کرنا چاہتے ہیں دنیا کو پتا چل جانے پر کیا اسکا حل نہیں نکالا جا سکے گا؟خود اپنے پاؤں پر کوئی بھی کلہاڑی نہیں مارتا۔،لیکن جس طرح میں پہلے عرض کر چکا ہوں اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے اس کا مقصد صرف نشرواشاعت تھا اور دنیا کو اپنی کامیابی بتانا تھاکہ کس طرح سے ہم نے پوری دنیا کی اکانومی کو اپنے کنٹرول میں کیااور مزید کریں گے،کس طرح سے میڈیا پر مکمل کنٹرول کیااور مزید کریں گے کس طرح سے مختلف ملکوں میں سازشیں رچا کر کے اپنے مقاصد کی جنگیں شروع کروائیں اور مزیدکروائیں گے یہ وہ بدلہ تھا جو انہوں نے ہٹلر سے مار کھانے کے بعد لیا۔لیکن یہ بدلہ تو عیسائیوں سے لینا تھا پھر مسلمانوں کا کیا قصور؟ کیوں مسلمان کے خلاف سازشیں رچا رہے ہیں کیا وجہ ہے حالانکہ مسلمان تو مادی وسائل میں ان سے بہت کمزور ہیں تو بھلا کیا ضرورت ہے کہ وہ ان کے خلاف سازش کریں ایویں ہی مسلمان باؤلے ہوئے پڑے ہیں جو صیہونی یہودیوں پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں انکو کیا ضرورت ہے ایساکرنے کی فلاں فلاں۔آج ہمارے درمیان اس طرح کی منظم سوچ کام کررہی ہے اور ہمیں یہ باور کروایا جا رہا ہیکہ ایسا کچھ بھی تو نہیں اور یہودیوں کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ایسا کچھ کرنے میں اپنا وقت ضائع کریں اور یہ وہ لوگ ہیں جو یہودیوں کے کارندے یا پیادے ہیں جس طرح تاریخ میں رہے ہیں۔


ً باریک بینی سے دیکھتے ہوئے فرض کیا میں یہ بات درست مان لیتاہوں یہودیوں کو مسلمانوں سے کوئی خطرہ نہیں۔۔۔!لیکن اسلام سے خطرہ ہے کہ جس طرح سے پوری دنیا میں دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور دوسرے مذاہب کے لوگ خاص کر یورپ میں لوگ کثیر تعداد میں اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔

یہودی اپنے مذہب کے معاملہ میں بہت کٹر ہیں اور انکو یہ بھی معلوم ہے کہ کس طرح سے ایک مسلمان ایک کھجور کھا کر بھی گزارا کر سکتا ہے، مذہب کے معاملہ میں اور خاص کر محمدﷺ کے معاملہ میں اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے یہ ہی وہ باتیں ہیں جن سے وہ ڈرتے ہیں،وہ ایٹم بمب یا ہتھیاروں سے نہیں ڈرتے اور نہ انکو ڈرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسپر وہ بین الاقوامی طور پر بہت مضبوط ہیں۔۔وہ ڈرتے ہیں تو مسلمان کے جزبہ اور نعرہ تکبیر سے،وہ برائے نام مسلمانوں سے نہیں ڈرتے وہ ڈرتے ہیں تو ان لوگوں سے جو اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں جو مادیت کی بجائے مذہب اور اس کے عقائد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس معاملے میں وہ مسلمانوں کی تاریخ بھی جانتے ہیں اس وقت اگر کوئی ہے جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنے تو وہ ایک ایسا آدمی ہے جو اپنی مرضی سے کسی چیز کے حصول کے لئے کسی کا آلہ کار نہیں بنتا بلکہ مقابل اس کے وہ اپنے عقائد کو اہمیت دیتا ہے۔اس کے عقائد اسکی ذہن سازی کرتے ہیں کہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے وہ بلا معاوضہ اپنی تمام تر مہارتیں صرف کرے۔اس کے اندر حوس نہیں کیونکہ اسکا مذہب اسے صبر کا درس دیتا ہے قربانی کا جذبہ عطا کرتا ہے۔مذہب اسلام ہر انسان کی جبلت اور بھوک کو خواہ جس قسم کی بھی ہو،نفسانی،پیٹ کی بھوک ہو حرص ولالچ ہو یا خواہش ہو اس کے لئے ایک ضابطہ اور قانون فراہم کرتا ہے جس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزار سکے۔اور جو سچے دل سے کلمہ پڑ لیتا ہے تو اس میں اگر ایمان کی ایک چنگاری بھی ہو تو وہ چنگاری ہی کافی ہے اس چنگاری سے ڈرتے ہیں یہودی،کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اگر یہ بگڑ گیا تو یہ چنگاری بھی ایٹم بمب سے کم نہیں، کیونکہ وہ اپنے عقائد پر سمجھوتہ نہیں کرتا اور نہ ہی کٹنے اور مرنے سے ڈرتا ہے۔ اسی محبت اور پختہ یقین سے یہودی ڈرتے ہیں۔

وہ اپنے پیادوں اور ایجنٹوں کے ذریعہ سے مسلمانوں پر کنٹرول کرنے کی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن انکو کچھ برائے نام کے مسلمان مل جاتے ہیں جو انکے ایجنڈے پر عمل کریں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے انکا طریقہ کار یہ ہے کہ ان کے" ڈائیریکٹ ایجنٹ" مسلمان حکومتوں پر مسلط ہیں اور ان کے "ان ڈائریکٹ ایجنٹ" جو کہ برائے نام مسلمان ہیں وہ حکومت پر بٹھا دئے جاتے ہیں اور اس طرح مسلم دنیا پہ جنگ مسلط کر کے وہ ہی حکمت عملی اپناتے ہوئے مسلمانوں کو مزید تقسیم کر رہے ہیں اور آپسی دشمنی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
اسرائیل کے قیام کے بعد یہودیوں کی سب سے بڑی طاقت امریکہ ہے کیونکہ امریکہ مذہب عیسائت کے نام پر نہیں بنا بلکہ سیکیولر ملک ہے۔امریکہ میں اس وقت یہودی اقلیت میں ہو کر اس طرح اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں گویا کہ جتنے بھی اسرائیلی یہودی وہاں پہ آباد ہیں ہر ایک امریکن فوجی جیسا ہے۔ جب کی اسکے برعکس اسرائیل ایک مکمل مذہبی ملک ہے اور مذہب کے معاملے میں وہ پاکستان سے بھی زیادہ کٹر ہیں۔

یہ اندازا لگانا کہ امریکہ میں کتنے اسرائیلی یہودی آباد ہیں،بہت مشکل ہے۔سیگی بلاشا(CEO   لاس اینجلس، امریکی اور اسرائیلی کونسل)  نے اسرائیلی لوگوں کی تعداد5  لاکھ سے8  لاکھ بتائی ہے جو کہ امریکہ کے رہائشی ہیں۔ اس اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ اسکو کتنا معلوم ہے یا اسکو کیا حکم ملا ہو گا۔چور کی داڑھی میں تنکا اور خود ہی کہتا ہے  مختلف تنظیمیں مختلف طریقوں سے حساب کتاب کرتی ہیں اور نتیجہ نکالتی ہیں،

 
اورن ہیمن چئیرمین "Moatza Mekomit"  (جو کہ اسرائیلی طبقے کے لئے ایک نئی "Umbrella" تنظیم ہے)  اس نے بھی سیگی بلاشا کی طرح تکا ہی لگایا ہے یا لگوایا گیا ہے کہ مطابق امریکہ میں رہائش پذیر یہودیوں کی تعداد 6.5لاکھ  ہے۔ ڈیوڈ جو کہ یہودی لوگوں کے کمیشن "UJA"  کا منیجنگ ڈائریکٹر ہے وہ تعداد 2 لاکھ بتاتا ہے۔ اسرائیلی وزارت داخلہ کے مطابق 7.6 لاکھ تعداد ہے جو لوگ اسرائیل چھوڑ چکے ہیں تب سے جب سے ریاست بنی ہے یعنی 1948سے۔

وجہ؟  اسکی وجہ یہ ہے کہ نہ تو یہودی ایجنسیوں کو اسکی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اسرائیلی گورنمنٹ کوکہ یہ معلومات باہر نکلنے دیں۔ اس کے ساتھ امریکہ اسوقت نیوورلڈ آرڈر کے بعد سے دنیا میں اسوقت پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے اور ہرمسلمان ریاست کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں کسی نہ کسی طرح اپنی ٹانگ اڑا دیتا ہے۔ عیسائی لوگ جو واقعی ہی میں مذہبی ہیں ان کے مطابق عیسائی ہی ایک ایسی قوم ہیں جو کہ یہودیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں میرا خیال ہے کہ اتنی تعداد میں ان کی موجودگی کے باوجود وہ کیا کرسکے ہیں۔ اور اس بات کا اعتراف بھی امریکن شہری جو عیسائی ہیں کرتے ہیں کہ یہودی اس وقت امریکہ پر قابض ہیں یہ میں نہیں کہتا بلکہ ان کے ساتھ آپ کی بات کبھی ہو تو آپکو خود معلوم ہو جائے گا کہ کیا معاملہ ہے۔لیکن اتنی بڑی آبادی کے ساتھ عیسائت کی افزائش اتنی تیزی سے نہیں ہو رہی جتنی تیزی سے مسلمان بڑھ رہے ہیں حالنکہ اس وقت سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی مسلمان کر رہے ہیں لیکن اسلام پھر بھی پھیل رہا ہے۔کچھ لوگ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور کچھ قدرت کو اصولوں کے مطابق پیدائش سے تعداد میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔مخالفین انکی نسل کشی کر رہے ہیں تا کہ جو پیدائش سے بڑھ رہے ہیں انکو اس طریقے سے ختم کیا جائے اور جو غیر مذہب اسلام قبول کر رہے ہیں اس تبلیغ کے مقابلے میں سازشی نظریات پھیلا کر کے اسکا مقابلہ کر رہے ہیں۔

یہودیوں کی گرفت یورپ پر بہت مضبوط ہے۔ اوراس کے علاوہ سوچ اور فکر کی بنیاد پریہاں ان ممالک میں لوگ اسلام سے متاثر ہو کر اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر رہے ہیں۔مزیدایک نقطہ اس میں اسلام کے ماننے والوں کی تعداد کے بڑھنے کا  یہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔جب انسان کو آسائش کی نسبت سکون کی طلب ہو گی تو کیا کوئی سائنسی ایجاد یا کوئی ڈاکٹر کی دوائی اس پر اثر کرے گی؟۔۔۔۔۔! نہیں۔  ہاں ایک بات ہے اسکو وقتی طور پر کچھ خوشی ضرور مل جائے گی لیکن اطمینان کہاں سے ملے گا تو جن لوگوں کو اطمینان نہیں اور انکی ذاتی زندگی بہت کٹھن ہو چکی ہے تو وہ سکون کی تلاش میں بھی نکلتے ہیں اور اسلام میں جو چیزیں انکو مل جائیں تو کیا ضرورت ہے انکو آسائش کی اور یہ ہر کسی کی اپنی سوچ پرمنحصر کرتا ہے کہ آیا اسے آسائش کی زیادہ ضرورت ہے یا سکون کی جس سے کسی کو اطمینان حاصل ہوتا ہو وہ اپنا مطلوبہ راستے کا انتخاب کرتا ہے۔

"PEW Research Center"  جولائی 2011  میں اپنی ایک ریسرچ رپورٹ شائع کرتا ہے۔ 
جس کا عنوان  "The Future of the Global Muslim Population 2010 to 2030"  ہے۔ ریسرچ سینٹر لکھتا ہے کہ 2009 کے اندازے کے مطابق پوری دنیا میں مسلم آبادی 1.29  ارب ہے۔اور2010  میں مسلم آبادی 1.61  ارب ہے۔ آگے 2030   تک پوری دنیا کے  232  ممالک کی جس شرح سے آبادی بڑھ رہی ہے اسکی رپورٹ 2.19  ارب پیش کرتا ہے۔ پھر ایک سمری پیش کرتا ہے جس میں واضح لکھتا ہے کہ مسلم آبادی کی شرح بڑھوتری بنسبت غیر مسلم آبادی زیادہ ہے۔  لکھتا ہے کہ مسلم آبادی کی شرح بڑھوتری جس طرح پچھلے دوعشروں میں بڑھی ہے ایسے ہی اگلے دو عشروں میں بڑھے تویہ نتیجہ آئے گا۔

اب ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک چیز سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اس وقت دنیا میں مسلمان سب کے لئے خطرہ ہیں تو کیسے ہیں؟؟؟؟۔۔۔مسلمانوں کی روز بروز بڑھتی آبادی! تو اسکا مقابلہ کیسے کیا جائے؟  ایسا کیا جائے کہ انکو یا تو آپس میں لڑا دو یا ایسی جنگیں شروع کروجس سے دوہرا فائدہ ہو وہ کیسے جی؟ وہ ایسے جی کہ ہمیں انکی آبادی سے خدشہ ہے اور آپ ان کی معدنیات،خام تیل وغیرہ کے جو ذخائر ہیں انکو حاصل کریں دونوں کا کام آسان ہو جائے گا اس طرح دیکھا جائے تو جتنی بڑی ترقی یافتہ ریاستیں ہیں بنسبت ایشیا اور خاص کر جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں تو ان پر کوئی دہشت گردی کا دھبہ لگا کر کے حملہ کرو اور نسل کشی کرو،ان پر ظلم بھی کرو اور ساتھ تحفہ کے طور پر ان پر دہشت گردی کا لیبل بھی لگاؤ،  جو کچھ ہو سکتا ہے لوٹ لو کیونکہ انکو معیشت کے ساتھ ہرپہلومیں کمزور کرنا ہے۔

 
اور انکے ساتھ نظریاتی جنگ کے لئے الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کو قابو کرواور حقائق کو چھپا تے ہوئے یا انکاری کرتے ہوئے"Conspiracy Theory"   کا جال بن دو انکے مرکز پر حملہ کرو، انہیں اسلام سے دور کرو کیونکہ یہ بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں۔ جب انکو ان چیزوں میں الجھا دیا جائے گا تو اگر یہ ترقی کی طرف بڑھنے کی کوشش بھی کریں تو انکو نئی سے نئی الجھن میں ڈال دو تاکہ یہ کسی قسم کی ترقی نہ کر سکیں۔

No comments:

Post a Comment