Wednesday, May 14, 2014

ڈی این اے ٹیسٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل

مصنف : ڈاکٹر غلام اصغر ساجد


میں یاسر پیر زادہ کا ایک کالم پڑھ رہا ہوں۔ آج یاسر پیر زادہ صاحب"عالمی جینیاتی سائنسدان" لگ رہے ہیں صاف محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہ حیثیت ہائی اسکول کی سائنس کی کتاب پڑھ کر حاصل کی ہے ۔ اپنی اسی "سائنس دانی" کی بنیاد پر وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اسلامی اور نظریاتی علماء کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا کے کیسسز میں بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس قبیل کے ایک اور "سائنسدان" محمد حنیف صاحب کا ایک "سائنٹفک آرٹیکل" نما بلاگ بھی میرے سامنے موجود ہے جو بی بی سی نامی معروف نیوز ایجنسی نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے شائع کیا ہے۔ میں اپنی کم علمی اور نا تجربہ کار معلومات کے باوجود پوری ذمہ داری اور وثوق سے کہتا ہوں کہ موصوف بنیادی طور پر زنا بالرضا کے کیسسز کے وکالت کرتے ہوئے سائنس کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں لیکن افسوس اوپر سے انصاف کا راگ بھی الاپے جاتے ہیں اور ان علماء پر غیر منصفی کا الزام بھی دھر رہے ہیں

قرآن و سنت اور اسلامی قانون سے ناواقف ہونا تو خیر اس "روشن خیال تعلیم یافتہ لبرل طبقہ" کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر ان کی "سائنس دانی" پانچویں کی سائنس سے آگے نہ بڑھ سکے یہ ضرور ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ڈی این اے ٹیسٹ کس طرح کا عمل ہے اس کا اندازہ تو آپ کو واقعہ بالا سے ہو چکا ہو گا اس کا معیاری ہونے پر کوئی دو رائے نہیں رکھی جا سکتیں کیونکہ ہر انسان جینیاتی طور پر منفرد ہے اوراس کو ڈی این اے ٹیسٹ ہی پڑھ سکتا ہے لیکن یہ ٹیسٹ اسی صورت میں معیاری کہلاتا ہے جب تمام مراحل یوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کنڈکٹ کیےجائیں زنا کے کیسسز میں اسلامی قانون سخت سزا دینے کا قائل ہے لہٰذا ڈی این اے ٹیسٹ ایسے میں ایک کمزور شہادت ہے اس پرکلی طور پر اسلامی قانون متفق ہے، غیر ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ممالک بہت حد تک اور کسی حد تک خود سائنس بھی متفق ہے آئیے اس کا جائزہ لیں

ڈی این اے ٹیسٹ کا پہلا مرحلہ سیال مادے کے نمونے حاصل کرنا ہوتے ہیں آپ کے ڈی این اے ٹیسٹ کی کامیابی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے کہ آپ نے جو نمونہ حاصل کیا اس میں واقعی وہ جنسی جرثومے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جس پر آپ ٹیسٹ کرنے والے ہیں یہ مختلف کیفیات پر منحصر ہے جس میں طریقہ واردات،ذانی کی جسمانی و جنسی صحت، نمونہ حاصل کرنے کا وقت اور نمونہ حاصل کرنے کا طریقہ کار و تجربہ کاری۔ طریقہ واردات کو میں علیحدہ بحث کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں اور باقی چیزوں کا سرسری جائزہ لیے چلتے ہیں یہ ممکن ہے کہ ذانی کی جنسی و جسمانی صحت ایسی ہو کہ وہ سیال مادہ تو پیدا کرے مگر اس میں بہت کم جنسی جرثومے ہوں جس پر نمونہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے اور بعض صورتوں میں ایسے بھی ممکن ہے کہ کوئی جرثومہ ہی نہ ہو خود یورپی ممالک میں ایسے بہت سے کیسسز سامنے آئے جس میں ظاہری جسمانی جائزہ سے مزنیہ (جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو) پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے شوائد موجود تھے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ نیگٹو آ رہا تھا۔ وہیں یہ بات بھی بہت زیادہ اہم ہےکہ مزنیہ زنا کے بعد کتنے وقت میں نمونہ کے لیے پہنچی ہے کیونکہ محدود وقت کے بعد ممکن نہیں کہ نمونہ حاصل کر کےٹیسٹ کیا جائے ایسی ہی صورت حال حالیہ گینگ ریپ کیس انڈیا میں بھی دیکھی گئی جب بوجوہ ڈی این اے ریپ کٹ کی عدم دستیابی کے نمونہ حاصل کر کے محفوط کرنا تین دن تک ممکن نا ہو سکا پاکستان جیسے ملک جہاں مریض ایمبولینس کا انتظار کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا ایمبولینس ان کی میت لیے ہسپتال پہنچتی ہے ایسی صورت حال میں زنا کے بروقت نمونے کا حصول مشکل تر ہے

ڈی این اے ٹیسٹ کا دوسرا مرحلہ حاصل کیے جانے والے نمونے کو لیبارٹری کے عمل سے گزارنا ہے یہاں مختلف اشیاء اثر انداز ہو سکتی ہیں جس میں لیبارٹری عوامل بھی ہیں اور غیر لیبارٹری عوامل بھی۔ لیبارٹری عوامل میں لیبارٹری کی ڈویلپمنٹ اور ٹیکنیشن کی تجربہ کاری کے علاوہ مخصوص کیس اسٹڈی پر منحصر ہے کہ ٹیسٹ پوزیٹو آتا ہے یا نیگیٹو۔ یورپی ممالک کی لیبارٹریز تو بہت حد تک جدید اور ڈویلپڈ ہیں مگر پاکستان میں یہ معقولیت سے کم سطح پر ہوں گی اس سترہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں صرف ایک فارینزک لیب ہے اور شور الاپا جا رہا ہے کہ علماء نے ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم نہیں کیا۔ غیر لیبارٹری عوامل کا ٹیسٹ پر اثر انداز ہونا بھی خارج از امکان نہیں ایسی صورت میں ایک جھوٹی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کی جرح ہی کیسے ممکن ہے عدالت زیادہ سے زیادہ دوبارہ ٹیسٹ کنڈکٹ کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے جبکہ جھوٹے گواہان کی جرح با آسانی عدالتیں کرتی چلی آ رہی ہیں ایسے میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کیسے بنیادی شہادت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی بتانا بہت ضروری ہے کہ سائنس نہایت بے ثبات علم ہے اس میں ٹھہراؤ نہیں ہے اس کا اقرار خود بدل سائنس بھی کرتی ہے آج جس کو پوجا جا رہا ہے کل ہو سکتا ہے کہ کوئی سائنسدان اٹھے اور سب کچھ بدل کر رکھ دے بشرطیکہ وہ محمد حینف یا یاسر پیرزادہ جیسا "سائنسدان " نہ ہو جو مغرب کی اندھی تقلید کے خوگر ہیں۔ یہاں میڈیکل کے شعبہ میں ایسے کئی ڈایاگونسٹک ٹولز تھے جو اپنے وقت میں نہایت معتبر مانے جاتے تھے پھر ہوا یوں کہ ان کی جگہ نئے اور جدید ٹولز نے لے لی اور وہ پرانے ٹولز معتبر سے غیر معتبر ہو گئے۔ ایسے میں اسلامی قانون ایک سخت سزا کے لیے اس سائنسی ٹول کو بنیادی شہادت کیوں مانے جو بے ثبات ہے اور اگلے ہی دن بدل جانے کی گنجائش رکھتا ہے ۔

اس مباحث کے آخری اور سب سے اہم نقطہ کی جانب بڑھتے ہیں جسے میں دانستہ عارضی طور پر چھوڑ آیا تھا یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کی بناء اسلامی قانون میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کسی بھی ملک میں بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا جی ہاں اسی کی بنیاد پر یہ روشن خیال لبرلز زنا کی وکالت کے درجے پر فائز ہیں اور اسی کی بنیاد پر میں ان کم فہم اسلام پسندوں کے اس سادہ خیال اور خوش فہمی کی نفی کروں گا جو وہ فرما رہے ہیں کہ "اگر کبھی حد کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم کرلیا گیا تو ہمارے روشن خیال طبقے کی آدھی عوام سنگسار ہوجائے گی اور باقی آدھی کوڑے کھا کر اسپتال میں پڑی ہوگی " حقیقت یہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہی یہ روشن خیال لبرل طبقہ اٹھائے گا آئیے پہلے یہ سمجھیں کہ اسلام میں زنا کس چیز کو کہا جاتا ہے؟ نکاح کے بغیر مباشرت کو زنا کہا جاتا ہے چاہے وہ باہمی رضامندی سے کیا جائے یا متعلقہ افراد میں سے کوئی جبر کے ساتھ کرے۔مغرب کے روشن خیال لبرلز میں باہمی رضا مندی سے کیے جانے زنا کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ افراد کی ذاتی زندگی اور آزادی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔لہٰذا ان کے ہاں جرم وہی ہے جس کا کیس خود مزنیہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ اسلام جرم کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے جرم کہتا ہے اسی لیے زنا چاہے بالرضا ہو یا بالجبر زنا ہی رہے گا چونکہ ان دونوں کے طریقہ واردات میں فرق ہے ۔ میں یہ بات پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ کیا خیال کرتے کہ اس دور میں زیادہ کیسسز کس قسم کے ہوتے ہیں یہ وباء بالرضا پھیل رہی ہے یا بالجبر۔

طریقہ ہائے واردات کی نظر سے دیکھا جائے تو صاف دکھتا ہے کہ باہم رضا مندی سے کیے جانے والے اس گناہ میں کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جس میں جنسی جرثوموں کو مزنیہ کے جسم میں داخل ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کنڈومز کا استعمال اس کی ایک مثال ہے۔ یہ احتیاط اس لیے ضروری کہ ہمارا معاشرہ نا تو ایسے زنا اور ناحرامی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا ، لبرلز کے ہاں چونکہ اس سب چیزوں کو قبول کیا جاتا ہے لہٰذا وہاں احتیاط ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے کے بعد یہ احتیاط پہلے سے زیادہ ضروری سمجھی جانے لگے گی ایسے میں کسی انسانی شہادت کی بناء کیس عدالت میں پہنچتا بھی ہے تو ڈی این اے کے لیے شواہد موجود ہی نہیں ہوں گا اور اگر ہوں بھی تو متعلقہ افراد مٹا دینے میں سستی نہیں برتیں گے۔ پھر آپ بیسوں مرتبہ ڈی این ٹیسٹ کر لیں رزلٹ نیگیٹو ہی ملتے رہیں گےیہی یاسر پیرزادہ اور محمد حنیف کی خواہش ہے جو زنا کومعاشرے میں پھیلانے کا موجب ہے۔

ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ فیصلہ قابل تحسین ہے جس میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر کے انسانی شہادت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ اسلامی قانون و تعزیرات میں ہمیشہ اس بناء پر سزائیں سنائی جاتی ہیں کہ جرم کا سدباب ہو، جرم کو پھیلنے سے روکا جائے اور جرم کا پرچار نہ کیا جائے ، وہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا صرف اس لیے نہیں دیتا کہ اس نے جرم کیا ہے بلکہ وہ معاشرے کے باقی افراد کو پیغام بھی دیتا ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ زنا کے معاملے میں بھی وہ اسی اصول کو مدنظر رکھتا ہے اسی لیے وہ ایسے تمام کیسسز کا پنڈورا نہیں کھولتا جب تک وہ جرم معاشرے کی نظر میں نہ آ جائے اور چار فرد اسے دیکھ نہ لیں، لیکن روشن خیال لبرلز کے ہاں متعلقہ افراد چاہے وہ زانی ہو یا مزنیہ، اور جرم تو بالجبر ہے جب تک معاشرے میں ننگے نہ ہوں جائیں، بچہ بچہ زنا کے لفظ سے واقف نہ ہو جائے مجرموں کو سزا دینے کا راگ الاپاجاتا ہے

2 comments:

  1. main nay YAsir Pirzada ka naam suna tha, aj socha isk aik adh column parh loon, pehlay column ka pehla para graph prhny k baad mery mouns say bay ikhtiar nkla, " Lakh Di Laanat " .

    ReplyDelete
  2. I guess i still need self study. the thing which making me confuse is let suppose we are being in a country where Islamic laws are well applying. now Islamic sharia court have an issue there is a girl who got raped forcefuly and the place (sure rapist will not do it in public or on common places)rapist rape her is far from reach of a common person and now she has no one to justify her. In such case what Islami sharia law says?will they just leave rapist because of that?or what else? I really want to understand it. So far when people will start following Islam such cases will not happen...commenting as anonymous because i couldn't log in via mobile.

    ReplyDelete