Saturday, November 7, 2015

رفع ونزول عيسى بن مريم عليهما السلام اور امت اسلاميه و قاديانى عقيده میں فرق

رفع ونزول عيسى بن مريم عليهما السلام اور امت اسلاميه و قاديانى عقيده میں فرق 

مصنف : محمد احمد


امت اسلامیہ کا عقیدہ کیا ہے؟ 
امت مسلمہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کواس وقت زندہ سلامت آسمان پر اٹھالیا جب آپ کے دشمن اور مخالفین آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے ،  دشمن آپ کی ذات اقدس تک پہنچ ہی نہ سکے بلکہ اس سے پہلے ہی آپ کا رفع الی السماء ہوگیا ، اور پھر اللہ تعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ وہی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام قرب قیامت یہود کو اپنے ہاتھ سے مزہ چکھانے نیز آپ کے ماننے والے (عیسائی) جو آپ کے رفع کے بعد گمراہ ہو کر شرک میں پڑ گئے ان کے مشرکانہ عقائد کا بھی ابطال فرمانے کیے لئے دوبارہ آسمان سے نازل ہوں ، اسے عام اصطلاح میں رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کہا جاتا ہے ، لہذا یاد رکھیں موضوع ’’حیات ووفات عیسیٰ علیہ السلام‘‘  نہیں بلکہ ’’ رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام ہے‘‘  قرآن وکریم اور احادیث صحیحہ میں یہی الفاظ (رفع ونزول) وارد ہوئے ہیں ، حیات ووفات عیسیٰ یا صرف وفات عیسیٰ کے الفاظ مرزائی گورکھ دھندہ ہیں ۔ 

مکمل قادیانی عقیدہ کیا ہے؟ 
قادیانی کبھی بھی اپنا پورا عقیدہ بیان نہیں کرتے ، بلکہ صرف وفات عیسیٰ پر زور دیتے ہیں، پورا قادیانی عقیدہ یہ ہے :۔ 

’’اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو ان کے دشمنوں نے گرفتار کیا اور دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا، آپ کے جسم اطہر میں میخیں لگائیں ، مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ شدت تکلیف سے بے ہوش ہوگئے اور وہ لوگ انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے (یعنی قادیانی اور یہودی وعیسائی عقیدے میں صرف یہ فرق ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر ہی جان دیدی اور آپ کی موت ہوگئی ، جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ صلیب پر آپ کو ڈالا تو ضرور گیا اور آپ کو مارا پیٹا بھی گیا لیکن صلیب پر آپ کی موت واقع نہ ہوئی بلکہ آپ مردہ سا ہوگئے، یعنی یہودی وعیسائی اور قادیانی عقیدہ میں صرف ’’سا‘‘ کا فرق ہے)، اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر 33 سال کے لگ بھگ تھی ، چونکہ آپ صرف بے ہوش ہوئے تھے لہذا اپنے زخموں کا علاج کرنے کے بعد آپ وہاں سے کسی طرح نکل کر ہزاروں کلو میٹر کا سفر کرکے کشمیر چلے آئے اور وہاں مزید تقریباً 87 سال زندہ رہنے کے بعد آپ کی وفات ہوئی اور آپ کی قبر سری نگر کے محلہ خان یار میں ہے ۔ چونکہ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں لہذا اب وہ دوبارہ نہیں آسکتے ، دوسری طرف وہ احادیث نبویہ بھی صحیح ہیں جن کے اندر آنحضرت e نے یہ خبر دی ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام قیامت سے پہلے نازل ہوں گے، لیکن ان احادیث میں جن عیسیٰ بن مریم کے نزول کی خبر دی گئی ہے اس سے مریم کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں بلکہ امت محمدیہ میں سے ان کا ایک مثیل یا ایسا شخص جس کے اندر ان کی صفات ہوں گی مراد ہے جوکہ اس امت میں پیدا ہونا تھا اور اس کا صفاتی نام عیسیٰ بن مریم رکھا گیا ہے ۔ اور وہ شخص مرزا غلام احمد ہے جس کی ماں کا نام چراغ بی بی اور باپ کا نام غلام مرتضیٰ ہے‘‘ ۔ (یہ خلاصہ ہم نے مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں کی کتابوں اور تحریروں سے لیا ہے، طلب کرنے پر حوالے پیش کیے جاسکتے ہیں)۔  


ہم نے بارہا قادیانیوں سے یہ مطالبہ کیاکہ اپنا یہ پورا عقیدہ ترتیب کے ساتھ قرآن کریم سے ثابت کردیں ، اگر قرآن سے ثابت نہیں کرسکتے تو احادیث صحیحہ سے ثابت کرو، اگر وہاں سے نہیں تو کسی صحابی کے قول سے ہی ثابت کردو، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو مرزا قادیانی سے پہلے گذرے کسی مفسر، محدث یا مجدد سے ہی ثابت کردو ۔ اور ثابت کیا کرنا ہے؟ یاد رکھیں ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈالا گیا اور انہیں مارا پیٹا گیااور اذیت دی گئی ۔ اس کے بعد وہ کشمیر چلے گئے ۔ ان کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے ۔ احادیث میں کسی مثیل مسیح کے نزول کی خبر دی گئی ہے ۔ اور وہ مثیل مرزا غلام احمد قادیانی بن چراغ بی بی ہے ۔



دعوائے نبوت کی طرح دعوائے مسیحیت میں بھی مرزا قادیانی کی قلابازیاں
دوستو! جس طرح مرزا قادیانی پوری زندگی اپنے دعوائے نبوت میں باربار اپنے بیان بدلتا رہا ، کبھی یہ اعلان کرتا رہا کہ میں مدعی نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں، کبھی یہ کہتا کہ نبی سے مراد ہے محدّث لہذا جہاں جہاں میں نے اپنے لئے نبی کا لفظ لکھا ہے اسے کاٹ کر محدّث لکھ لیا جائے، کبھی کہتا کہ میرے نبی ہونے کا مطلب ہے ایک پہلو سے نبی ایک پہلو سے امتی، کبھی کہتا کہ میں کامل نہیں بلکہ ناقص نبی ہوں، کبھی کہتا کہ میں ظلی بروزی نبی ہوں، کبھی یہ بیان جاری کیا کہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور جس کی وحی میں اللہ کی طرف سے امر اور نہی ہوں وہ صاحب شریعت ہوتا ہے (یعنی میں صاحب شریعت نبی ہوں) ، الغرض مرزا قادیانی اپنی موت کے دن تک اپنے دعوائے نبوت میں حسب ضرورت رنگ بدلتا رہا ،بالکل اسی طرح کی قلابازیاں وہ اپنے دعوائے مسیحیت میں بھی لگاتا رہا ، مرزا کی تحریروں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :۔ 

مجھے کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں :
’’اس عاجز نے جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کربیٹھے ہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ اول، رخ 3 ، صفحہ 192)


میرا دعویٰ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں :
’’میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیشگوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ، رخ 17، صفحہ 295)


مسیح موعود ہزار ششم (چھٹے ہزار) میں مبعوث ہوگا :
’’ اور اب یہ ثابت ہوا کہ تکمیل اشاعت ہزار ششم میں ہوگی اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح موعود ہزار ششم میں مبعوث ہوگا‘‘۔  (تحفہ گولڑویہ، رخ 17، صفحہ 261 حاشیہ)


نبیوں کی پیش گوئیوں کے مطابق یہ موعود ساتویں ہزار میں ظاہر ہوا ہے :
’’لوگوں نے خدا کے اس موعود کو ماننے سے انکار کیا ہے جو تمام نبیوں کی پیش گوئیوں کے موافق دنیا کے ساتویں ہزار میں ظاہر ہوا ہے‘‘۔ (دافع البلائ، رخ 18، صفحہ 232) 


میرے بعد دس ہزار سے بہی زیادہ مسیح  آسکتے ہیں :
’’اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ظاہری جلال واقبال کے ساتھ بھی آوے اور ممکن ہے اول وہ دمشق میں ہی نازل ہو‘‘۔   (ازالہ اوہام حصہ اول ، رخ 3، صفحہ 251)


میرے بعد کسی مسیح کے قدم رکھنے کی بھی جگہ نہیں :
’’فلیس لمسیح من دوني موضع قدم بعد زماني‘‘ پس میرے سوا کسی مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔  (خطبہ الہامیہ، رخ 16، صفحہ 243)
’’اور ایسا ہی آخری مسیح آنحضرت صلى الله عليه وسلم  سے چودہویں صدی میں ظاہر ہوا‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ، رخ 20، صفحہ 215)


اب اس سوال کا جواب مرزا قادیانی کا کوئی پیروکار ہی دے سکتا ہے کہ اگر مرزا کے بعد دس ہزار سے زیادہ مسیح آسکتے ہیں تو پھر مرزا کے بعد کسی مسیح کے قدم رکھنے کی جگہ کیوں نہیں؟ اور اگر آخری مسیح چودہویںصدی میں آچکا تو پھر وہ دس ہزار مسیح کیسے آسکتے ہیں؟۔


قرآن کریم سے حضرت مسیحؑ  کا دوبارہ آنا ثابت ہے :
’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ۔ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے ۔ اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعد دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا ۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، رخ 1 صفحہ 593 ، حاشیہ)


قرآن میں حضرت مسیحؑ کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں: 
’’ قرآن شریف میں مسیح بن مریم کے  دوبارہ آنے  کا تو کہیں ذکر نہیں‘‘ (ایام الصلح، رخ 14، صفحات 392 و393) 


آنے والا مسیح نبی نہیں ہوگا :
’’آنے والے مسیح کے لئے ہمارے سید ومولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی ‘‘ (توضیح مرام ، رخ 3، صفحہ 59)
’’وہ ابن مریم جو آنے والا ہے کوئی نبی نہیں ہوگا ‘‘ (ازالہ اوہام ، رخ 3، صفحہ 249)


آنے والا مسیح نبی ہوگا :
’’جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ چلتا ہے اس کا انہی حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور امتی بھی‘‘۔  (حقیقۃ الوحی، رخ 22، صفحہ 31) 


حضرت مسیح علیہ السلام امت محمدیہ میں داخل ہیں: 
’’یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم اِس امت کے شمار میں ہی آگئے ہیں‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم، رخ 3، صفحہ 436)
’’یوں تو قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرت صلى الله عليه وسلم  کی امت میں داخل ہے ‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، رخ 21، صفحہ 300) 


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو امتی قرار دینا کفر ہے: 
’’حضرت عیسیٰ کو امتی قرار دینا ایک کفر ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، رخ 21 ، صفحہ 364)


مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی ساری زندگی، کبھی میں ہوں!  اور کبھی میں نہیں ہوں !   کبھی اقرار !  اور کبھی انکار !  اس طرح خود سے لڑتا رہا !

No comments:

Post a Comment