Saturday, November 15, 2014

جنریشن گیپ یا ذہنی معذوری

جنریشن گیپ یا ذہنی معذوری

مصنف : گھمنام

آج کل کچھ نو جوان ،( خیر جوان تو میں بھی ہوں ) ، سوشل میڈیا پر سیاست کے علمبردار بنے ہوئے ہیں اور ان مسلمان شخصیات کو متنازعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں جو پاکستان سے بننے سے پہلے نظریاتی طور پر ایک دوسرے الگ الگ سیاسی نظریہ رکھتے تھے. آج ان کو پاکستان کا دشمن یا ان شخصیات کو آپس میں دشمن باورکروایا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے جان نشینوں سے نفرت کریں :

اگر میں غلط نہیں ہوں تو اسلام ہندوستان میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب تاجروں نے مالابار کے ساحلی علاقوں میں متعارف کروایا. پھر آہستہ آہستہ اسلام پھیلتا گیا اور گیارھویں صدی تک اسلام گجرات کے ساحلی علاقوں تک پھیل گیا، اور پھر اگلی صدی میں اسلام بھارت کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کا ایک حصہ بن گیا. ہمارے آباؤ اجداد اسلام کی حقیقت کو سمجھ کر اسلام قبول کرتے گئے لیکن ملک تو ان کا بھارت ہی تھا. جب انگریز آئے انہوں نے  ہندوستان پر قبضہ کیا بلکہ حکومت بھی  کی.  اس وقت مسلمان اپنی اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق الگ الگ نظریہ رکھتے تھے. کچھ لیڈر پاکستان لے کر ھندوستان سے الگ ہونا چاہتے تھے اور کچھ بھارت کے ساتھ ہی وابستگی کے خواہاں تھے. اس کی بنیادی وجہ تھی کہ صدیوں سے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہ رہے تھے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ مسلمان انگریز سے پہلے حکمران تھے. کچھ مسلمان لیڈر یہ خیال کرتے تھے کہ اب چونکہ مسلمانوں کا تنہا حکومت میں آنا ممکن نہیں اور ملکی سیاسی مفادات کا ٹکراؤ ہندو اور مسلمان دونوں میں ہوتا رہے گا اسلئے بہتر ہے کہ دونوں قوموں کے الگ الگ ملک ہوں اور کچھ مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ تھا کہ نہیں الگ ملک بنانے کی ضرورت نہیں ہے. ایسے نظریات کی بنا پر وہ سیاسی اختلاف رکھتے تھے. جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو وہ افراد بھی پاکستان میں آ گئے یا وہ انہی علاقوں میں رہتے جو آج پاکستان کا حصہ ہے تو انہوں نے پاکستان کی سیاست میں خود کو ڈھالا تو کیا یہ غلط ہے ؟ اس میں کوئی غلط نہیں ہے . پہلے وہ بھارت کو اپنا ایک ملک کے طور پر دیکھتے تھے تو کیا غلط کرتے تھے اس وقت اپنی اپنی سیاسی بصارت کی بات تھی لیکن آج ان شخصیات کو پاکستان کا دشمن اس بنا پر قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی اختلاف رکھتے تھے. اس وقت مسلمان جو پاکستان بننے کے حق میں تھے وہ بھی غلط نہیں تھے اور جو خلاف تھے وہ بھی. ایک سیاسی بصیرت یہ کہتی تھی کہ بھارت اس کا ملک ہے اور ملک تھا بھی اور ایک یہ سمجھتا تھا کہ اب بھارت میں مسلمانوں کا ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے.

لیکن آج 2014 کی سیاست میں جبکہ پاکستان کو بنے 67 سال ہو گئے. کھڑے ہو کر کوئی یہ بولے نہیں جی آپ کے آباؤ اجداد پاکستان بننے کے مخالف تھے تو اسلئے تو آپ غدار ہو یہ جہالت کا وہ اعلی مقام ہے جس کا کوئی ثانی نہیں.ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی ہمارے بھائی کیوں کہ اسلام ہمیں بھائی بناتا ہے ، دنیا کا ہر مسلمان ہمارا بھائی ہے لیکن سیاسی بصارت الگ الگ رکھنا ہر مسلمان کا حق ہے ، اس بنا پر اگر کوئی فتویٰ صادر کرتا  ہے تو  وہ ایک جاہل ہے اور کچھ نہیں . آج تو فیس بک کے مفتی یہاں تک که رہے ہیں کہ جو اس وقت پاکستان بننے کے خلاف تھا وہ اسلام کا غدار تھا . اس سے بڑی اور جہالت کیا ہو سکتی ہے. آج کی سیاست کو پاکستان تک ہی رہنے دو. اور ان شخصیات پر کیچڑ اچھالنا بند کرو جو آپس کبھی دشمن نہ تھے. مولانا مودودی ہو یا پھر حضرت علامہ اقبال رح یا پھر مولانا ابوالکلام آزاد یا پھر علما جو سیاسی نظریہ کی بنا پر پاکستان کے حامی تھے یا نہیں تھے ،یا کوئی اختلاف رکھتے تھے ، ان کی اسلام کے لئے جو خذمات  ان کو نظر انداز ہر گز نہیں کیا جا سکتا ، اور سیاسی نظریہ الگ ہونے کی بنا پر آج کسی کو کوئی حق نہیں کہ ان پر کسی قسم کا فتویٰ صادر کریں ، آج کوئی بھی ذہنی مریض کھڑا ہوتا اور کہتا ہے کہ علامہ اقبال شاعرے مشرق نہیں تھے وہ ایسے تھے وہ ویسے تھے ، کوئی کہتا مولانا مودودی غدار تھے وغیرہ وغیرہ . ان شحصیات پر کفر تولنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی آج تم میں سے کسی کو کوئی حق کہ آپ ان کو متنازعہ بنا کر آج کی سیاست جمکاؤ .


No comments:

Post a Comment