Saturday, November 15, 2014

تخلیق کار

تخلیق کار 

مصنف : گھمنام

تخلیق کار وہ ہوتا ہے جو کوئی ایسی چیز کو ایسے وجود میں لے آئے جس کو پہلے کسی نے نہ لایا ہو. دنیا میں جتنے بھی تخلیق کار ہے  وہ جزوی طور پر کسی نہ کسی دوسرے کی تخلیق پر انحصار کرتے ہے. مثال کے طور جس نے کار کو تخلیق کیا ، وہ ایک ڈیزائن ،میٹریل ، میٹریل کی بناوٹ ، اسمبلنگ ، اور دوسرے پرزے کے تخلیق کار کی تخلیق پر انحصار کرتا ہے پھر  جا کر وہ کار کی تخلیق کر پاتا ہے ، اگر فرض کرو کہ انسان کو تخلیق کرنے وہ مطلق تخلیق کار نہ جو جو ہر تخلیق کا خالق ہو تو انسان کا وجود جس کی بناوٹ انتہائی کومپلایکٹ ہے وہ کیسا تخلیق ہوتا ، اگر صرف انسان اس لاجک کی انتہا اور منطق کو لے کر چلا جائے جو  ایک انسان کو کسی حد تک معقول لگتی ہو اور جس کی عقل سلیم دائرہ عقل میں سمجھ رکھتی ہو تو وہ انسان کی تخلیق ور نظر ثانی  کرے تو وہ اپنی اس دنیا کے اصولوں منطق ، لاجک اور تھیوری   کا احاطہ کر کے کیا نتیجہ اخذ کرے گا ؟

یہ بات بہت اہم کہ انسان ایک نطفہ  سے ااندرونی اور بیرونی لحاظ سے تخلیق کیا ہے. جس کے انٹرنل آرگن  اور ایکسٹرنل بناوٹ  ایک ہی نطفہ سے تخلیق ہوئی. انسان کا ایک ایک باڈی پارٹ ایک پرزہ ایک ہی تسلسل سےتخلیق ہوتا ہے ، کیا کبھی آپ نے سے سنا کہ انسان کے پرزے پرزے ہو سکتے ہو جیسا کہ ایک کار کو بار بار کھولا اور جوڑا جا سکتا لیکن انسان کو کھولنے اور جوڑنے میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ، ایک سرجن جب ہارٹ کی ٹرانسپلانٹ کرتا ہے تو وہ سب پہلے اس انسان کے سگنیچر لے لیتا کہ اگر آپریشن کامیاب نہ ہوا اور مر گیا یعنی ناکارہ ہو گیا تو اس کی ذمداری اس ڈاکٹر پر نہیں ہو گی ،اگر ڈاکٹر کی لاپرواہی کی بنا پر کچھ ہوتا ہے  ، جیسا کہ غلط گروپ کا خوں ، آپریشن کے دوران   قینچی بھول جانا ، غلط ٹانکے وغیرہ تو ڈاکٹر کو قصور وار مانا جاتا ہے.  دنیا میں انسان کی تخلیق کے لئے کوئی ایسی صنعت نہیں جہاں پر انسان کے پارٹ بنتے ہو ، کیا آپ نے سنا کہ انسان کا بازو فلاں برانڈ کا ، فلاں انسان کی گردن چائنا کی ہے ، فلاں انسان کا معدہ جرمنی کا ہے؟  فلاں انسان کی دو آنکھیں ایل ای ڈی ہے  جب ایسا کچھ بھی نہیں تو پھر کیا انسان کوئی ایسا مطلق تخلیق کار نہیں ہے ؟ اگر انسان کا کوئی تخلیق کار نہیں پھر اس انسان جو کہ  منطق اور لاجک کا پیروکار تو پھر یہ انسان کی تخلیق کیوں نہیں کر سکتا ؟ افسوس کا مقام تو یہ کہ مادہ پرست نفسانی اور عقلی گھوڑے دوڑانے والا خود کے خالق سے نہ صرف  غافل ہے بلکہ محض خیالی فریب میں مبتلا ہوکر اپنے ہی وجود کے تخلیق کار کا انکار کرتا ہے. 

الله تعالی کی اس عجیب و غریب صنعت میں اس قدر حیرت انگیز نظم و نسق اور بے عیب تسلسل کو دیکھ کر انسانی عقل کمال حیرت و استعجاب میں کھو جاتی ہے اور فہم و قیاس عاجز اور دنگ رہ جاتے ہیں کس قدر مکمل اور محکم انتظام ہے ، کتنا قوی اور زبردست اہتمام ہےکسی جنگل میں جانور کے گوبر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں پر کوئی جاندار تھا یا ہے ، کسی کے قدموں کے نشان سے یہ نشاندہی کی جاسکتی یا سے کوئی انسان گزرا ہے اگر کسی چوپائے کے نشان سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے کوئی چوپایہ کا گزر ہوا ہے تو پھر یہ کیسی منطق کہ زمین و آسمان نظم و نسق کیسے اپنے خالق اور صانع حق سبحان کا پتا نہ دے ؟  ایک کور چشم ، تاریکی پسند ، الو منش ملحد کس حساب انکار کرتا ہے کہ کوئی تخلیق کار نہیں؟ ایک ظلمت گزین چمگاڈر مثال بے دین کی ہٹ دھرمی اور کفر کی کیا حقیقت ہے .  الٹا لٹک جانے سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ دنیا الٹی ہے . اگر دن کے وقت چمگاڈر کچھ نہ دیکھ سکے تو اسم  میں چشمہ کا کیا قصور یہی مثال ایک بے دین کی ہے  جو کہ اسم الله سے نا واقف ہے .

.فرض کرو ایک شخص بہت نیچے اتر کر تحت الثری کی تاریکوں میں سے ایک دھات کرٹکڑا اٹھا لاتا ہے اور بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں کئی میل نیچے غوطہ لگا کر وہاں سے بھی کوئی آبی خول نکال لاتا ہے اور تیسری دفعہ فضائے آسمان کی بلندیوں میں لاکھوں کروڑوں میل اوپر چڑھ کر کسی بہت دور کے سیارے سے ایک کنکر اٹھا لاتا ہے ، اب ان تینوں اشیاء کا موجودہ سائنس کی روشی میں بغور مطالعہ کیا جائے تو متفقہ فیصلہ یہ ہو گا کہ ان تینوں اشیاء کی اجزائے ترکیبی میں وہی ذرات برقیہ ہیں جو اشیائے کائنات کی تمام اشیاء کے تمام چھوٹے بڑے اجسام اور اجرام میں میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں ، ماہ سے ماہی ،ثریا سے سے ثریٰ تک کائنات علم کی تمام اشیاء کے اجزاۓ ترکیبی کی یہ وحدت صاف طور پر وحدت خالق کا ناقابل تردید مظاہرہ ہے یہ اشیاء خود اس بات کا ثبوت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا خالق ،رب العالمین اور معبود برحق ایک واحد مطلق ذات ہے.مصر کے میناروں سے نکلی ہوئی ہزاروں سال کی چیزیں مختلف زمانوں میں سنگبار ستاروں سے گرے ہوۓ دھات اور پتھر کے ٹکڑے ، بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے لائے ہوۓ کنکر اور سمندر کی گہرایوں سے نکالے ہوۓ آبی خول اور گھونگے آج کل دنیا کے مختلف عجائب خانوں میں موجود ہیں اور موجودہ سائنس اور کیمسٹری کی روشنی میں ان عناصر ترکیبی کا تجزیہ یہی نکلتا ہے کہ ان سب کی سخت ایک ہی قسم اور سب کے سب ایک ہی کاریگر کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں . زمینوں اور آسمانوں میں خدائے تعالیٰ کی قدرت کی بے شماری نشانیاں موجود ہیں ، لیکن یہ غفل انسان تو دیکھ کر بھی اندیکھا کر دیتا ہے ، اپنی جاہلانہ مفروضوں میں خود قید کر رکھا ہے ، لیکن اس بے عقل اور نادان انسان کو اپنے آپ کی اورایک ذرہ بے مقدار تک کی تو خبر نہیں لیکن الله تعالیٰ کے مثل اور بے مثال اور لم یزل والا یزال ذات کی کنہہ اور حقیقت میں عقلی گھوڑے دوڑا رہا ہے ،،، انسان خدا کی نسبت مثالیں تو پیش کرتا ہے لیکن اسے اپنی خلقت اور پیدائش تک کا پتا نہیں .

ملحد، دہر یعنی نیچریوں کو کارخانہ کائنات چلانے کے لئے ایک علت العلل اور فعال کل طاقت کے ماننے کے سوا چارہ نہیں، لیکن یہ کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں کہ مکوں کائنات اور خالق موجودات ایک بے جان مادہ ، بے حس نیچر اور بے ادارک و با شعورہیولے ہو . ایسے منظم ، باقاعدہ اور علم و حکمت پر مبنی کارخانہ قدرت والی ذات کو حیات ، قدرت ، ارادہ ،علم، سمع ،بصر اور کلام وغیرہ صفات ذاتی سے متصف ہونا لازمی اور ضروری ہے. بے جان ہیولی ، بے حس ایتھر اور بے شعور مادے کا یہ کام ہر گز نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا بنائے اور چلائے . 

دہریوں اور نیچریوں کو ایک الگ بے وقوفوں کی بستی بسانی چاہیے ، اور کسی بے حس ،بے جاں بیوقوف و بے شعور دہریہ آدمی کو اس آبادی کا مختار ، کارکن منتظم مقرر کر کے دیکھ لے ،پتا چل جائے گا کہ کیا ارتقا پاؤ گے ، فیس بک پر ان دھریوں کی مثال ایسے جیسے کسی پاگل خانے میں کچھ پاگل اکھٹے ہو کر ایک دوسرے کو اپنے پاگل ہونے کی کہانی سنا رہے ہو. یا خود کو عاقل سمجھنے والے کسی پاگل خانے میں جا کر بے شعوری کا تھوڑا سا نظارہ کر لے اور دیکھ لے کہ کیا بے شعوری گل کھلا رہی ہیں ،، اگر وہاں صاحب عقل اور ذی شعور انسان نگرانی اور حفاظت کرنے والا نہ ہو دیکھو پھر پاگل خانے میں کیا طوفان بدتمیزی پربا ہوتا ہے ، تو پھر کیا یہ دنیا بنا کس نگران کی چل رہی ؟ اتنی منظم اور حکمت کے ساتھ .فرض کرو کہ ایک بڑی جھیل ہو اور اس میں ایک کشتی چھوڑ دی جائے ، بغیر کس چلانے والے کہ کیا وہ کشتی خود بخود ایک مقررہ وقت پر ایک مخصوص مقام پر آیا کرے گی ، تو اس دہری نے جواب دیا یہ تو ہر گز ممکن نہیں ، تو آپ نے فرمایا کہ فضائے آسمانی کی اس بڑی وسیع نیلگوں جھیل میں سورج اور چاند کیوں کر بغیر چلانے والے کے ابتدا سے اب تک روز مرہ وقت مقرر پر ایک متعین مقام سے نکل کر ایک خاص مستقر اور مخصوص مقام پر غروب ہوتے ہیں . ؟ 

وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا لے آتا ہے چاند اور سورج کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے وہی اللہ (جس کے یہ سارے کام ہیں) تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں

سخت سے سخت ملحد بے دین بھی اگر اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اور کس وقت انصاف کی عینک چڑھا کر اپنے ضمیر کی طرف جھانکے اور غور فکر کرے کہ جب میں ایک بولتا چالتا ، دیکھتا بھالتا اور سوچتا سمجھتا مخلوق موجود ہوں تو ایک واجب الوجود خالق کل ہستی کیوں موجود نہیں ، تعجب ہے کہ زرہ بے مقدار کو اپنی ہستی کا تو اقرار ہے لیکن اس آفتاب المتاب کی نفی اور انکارہےقرآن میں ہے وہ تمھارے نفسوں کے اندر ہے لیکن تم اسے نہیں دیکھتے اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا . 

یہ بے دین ، بے حس ملحد اپنے الحاد کی تائید میں دلیل پیش کرتے ہے کہ جب الله تعالیٰ کا نہ تو ہمیں کوئی وجود نظر آتا ہے نہ اس کی ذات کی کنہ اور حقیقت سمجھ آتی ہے اور نہ اسکی صریح صفت اور نہ اعلانیہ فعل اور نہ ٹھوس عمل دنیا میں نظر آتا ہے تو ہم کیونکر جانیں اور یقین کریں کہ وہ ذات موجود ہے ، تو کیا کسی چیز کا سمجھ نا آنے اور معلوم اور محوس نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں. اگر نیوٹن نے ایپل کو گرتے نہ دیکھا ہوتا تو کیا گریوٹی تھی ہی نہیں ؟ کیا عمل کا رد عمل سرے سے موجود ہی نہیں تھا .کیا رگڑ کا قانون سرے سے موجود ہی نہیں تھا ؟ زندگی اور موت کا کیسے انکار کرو گے ؟ عقل سلیم نے موجودات کا سلسلہ محسوسات اور معلومات تک محدود نہیں رکھا . بلکہ جو کچھ بنی نوع انسان کو اپنی عملی اور ذہنی کدو کاوش کی بدولت آج تک معلوم اور محسوس ہوا ہے وہ نا معلوم غیبی کائنات کا ایک نا چیز ذرے سے بھی کم ہے 

ممکن ہے سکھ میں بھول جائیں  اطفال
لیکن دکھ میں انہیں ماں ہی یاد آتی ہے 


No comments:

Post a Comment