لبرل ماہرین ثقافت کی اہم دریافت
مصنف : گھمنام
آج کل پاکستان میں زوروشور سے ثقافت اور روایات کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ،ہر ایک کا اپنا ہی نظریہ ہے ، کبھی سندھ میں سپرمین کی ثقافت تو کبھی لاہور میں گینز بک میں ریکارڈ درج کروانے کی ثقافت. اور تو اور کچھ ذہین لوگوں نے تو گاڑی کی نمبر پلیٹ میں بھی کلچر اور ثقافت ڈھونڈی لی اور اب بہت سے ثقافت اور روایات کے لبرل سائنس دان گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی درجہ بندی کر رہے ہیں تاکہ اس نایاب ثقافتی ورثے کومحفوظ کیا جا سکے. یونیسکو کی ٹیم تو پاکستان میں ان ذہین لبرل ماہرین کو اپنے ادارے کا سفیر تک مقرر کرنے کا سوچ رہی ہے، کیوں کہ یہ عظیم کاوش دنیائے ثقافت میں ایک نئے سنگ میل کی بنیاد ہے. اس سےپہلے کہ میں تعریف کے پل باندھوں ایک نظر پاکستان کی اس عوام پر ڈالتے ہیں جو کہ اس ثقافتی ورثے سے ہمیشہ کے لئے محرورم رہیں گے.
پاکستان کی 65فیصد آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں کی ثقافت اور روایات ایک دوسرے سے محبت ، لنگی کرتا، بھنگڑا ، دکھ سکھ میں شریک ہونا، بھوک ،پانی سے محرومی ، تعلیم کا فقدان ،پڑھے لکھے بے روزگار ،چودھریوں کے مزارے وغیرہ وغیرہ ہیں ، مجھے یقین ہے اگر یہ عظیم ماہرین ثقافت اگر ان علاقوں کا دورہ کرے تو بہت کچھ اور بھی دریافت ہو سکے گا جس سے پاکستان کا نام روشن ہو سکتا ہے. مثال کے طور پر تھر کے علاقہ میں جو ثقافتی ورثہ مل سکتا ہے وہ ہے قحط جس کودائمی بنانے کے لئے ان ماہرین کی خدمات درکار ہیں. کیوں کہ جو بچے بھوک سے اس جہان فانی سےرخصت ہو گئے ان کی ہڈیوں کے برتن بنا کر بلاول ہاؤس میں سجائے جاسکتے ہیں تاکہ سپرمین کی ثقافت کوبھی تحفظ مل جائے ، اور باقی جو وہاں کے افراد جو آج کل مولویوں اور فوج کے رحم و کرم پر زندہ ہیں ان کو بھی کہیں دفن کر دیا جائے کیونکہ ان افراد کی بھوک کی وجہ سے پاکستان کا نام جو بدنام ہوا اور سندھ فیسٹیول کو نقصان پہنچا ہے اس کاتھوڑا بہت ازالہ ہوجائے .سندھ کی عوام چودھریوں اور جاگیروں داروں کے غلام تو وہ پہلے سے ہی ہے . اسی طرح پنجاب کے دیہی علاقوں میں جو تعلیم کا فقدان ہے اور بے روزگاری ہے اس کو بھی ختم کرنے کے لئے تمام اسکولوں کو قبرستان میں منتقل کر دینا چاہیے اس سےیہ فائدہ ہو گا کہ" اسکول سے نکلا اور قبر میں اٹکا" والی مثال قائم ہو جائے گی ، ویسے بھی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں مزارع کلچر پہلے سے ہی پروان چڑھا ہوا ہے ، اور خادم اعلی پنجاب کو کوئی پریشانی بھی نہیں ہو گی کہ وہ گھر گھر جاتے پھرے، اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی بھی غریب ان کی بیٹی کے کیک کھانے کی خواہش میں رکاوٹ نہیں بنے گا .بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ کے دیہی علاقوں میں تو اس کی بنیاد کب کی رکھی جا چکی ہے. قبیلوں میں تقسیم شدہ لاچار عوام پر اب کبھی ڈرون سے تو کبھی فوجی آپریشن سے تو کبھی بم دھماکوں سے ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے ، لیکن وہاں کی عوام بھی پتا نہیں کیوں ڈھیٹ ہے اوپر سے ہتھیار بھی اٹھا لیا ،جس کی وجہ سے ان لبرل ماہرین کو گھنٹوں ٹیلی ویژن پر دماغ کھپائی کرنی پڑتی ہے یہ مرتے کیوں نہیں ،پورا پورا دن ان بیچارے لبرل کا خون چلتا رہتا ہے ،کب یہ مرے گے . اور کب ان سے جان چھوٹے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ افراد نمبر پلیٹ ثقافت کے ورثے سے ہمیشہ کے لئے محروم رہ جائے گا.
اب رہ گیا پاکستان کا وہ مڈل کلاس طبقہ جس کو سٹار پلس ،انڈین فلمیں ، جیو ٹی وی دیکھنے کی فرست نہیں ،یہ ابدی نیند سوئے ہوۓ ان کی نہ دھوپ ہے نہ چھاؤ . ان کو تو یہ بھی خبر نہیں ہوتی پڑوسی زندہ بھی ہے کے نہیں ، ایسی عوام کا پاکستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ،کیوں کہ یہ پاکستان تو ایلیٹ کلاس کا ہے ، سرمایہ داروں کا ہے ،جو ہردنیا کی چیز سے آگاہ ہے ، جن کو ثقافت اور روایات کا اصل مطلب پتا ہے. ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا پتا ہےلیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ دیہاتی نہ رہے تو غیر ملکی امداد نہیں آئے گی ،اگر ہتھیار اٹھانے والوں سے مذکرات ہو گئے تو ڈرون کو زنگ لگ جائے گا ، اگر مڈل کلاس طبقہ سٹار پلس ،انڈین فلمیں ، جیو ٹی وی کے سحر سےباہر آ گئے تو یہ ہاتھ بھی نہیں آئیں گے . ان کو مزید اُلجھانے کے لئے ثقافت اور روایات کی جنگ کا آغاز ضروری تھا ،جو ماہرین ثقافت نے گاڑی کی نمبر پلیٹوں میں ثقافت کی دریافت کا انقعاد کیا یقیناً یہ ایک عظیم کارنامہ ہے ورنہ یہ عربی میں لکھی ہوئی نمبر پلیٹوں سے گمراہی کا شکار ہو جاتے اور ہمارا معاشرہ تباہ ہو جاتا ،جب پہلے سے ہی ہماری دفتری زبان انگلش ہے تو عربی میں لکھی گئی میرا مطلب عربی اور فارسی سے آئی ہوئی زبان اردو کی کیا ضرورت ہے. یہ معصوم راقم اور پورے پاکستان کو ان لبرل ماہرین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور ان کے لئے حکومتی خزانہ سے بجٹ مختص کروانے کی اپیل کی جانی چاہئے تاکہ ایسی ہی مزید دریافت کی جا سکے اور ہمارے ورثے کو محفوظ بنایا جا سکے۔
No comments:
Post a Comment