Saturday, November 7, 2015

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت کا ثبوت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  رفع الی السماء اور نزول من السماء  پر اجماع امت کا ثبوت 


مصنف : محمد احمد


 الله تعالى نے اپنی کتاب قرآن كريم اپنے نبی محمد صلى الله عليه وسلم پر نازل فرمائی اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے الله کی کتاب صحابہ کرام رضي الله عنهم کو سکھلائی، لہذا قرآن كريم فہم نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے بعد آپ کے  صحابہ کریم رضي الله عنهم سے بڑھ کر کسی کو نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ بارگاہ نبوت کے اولین اور بلا واسطہ شاگرد ہیں .. 

 پھر صحابہ کریم رضي الله عنهم سے یہی علم و حکمت کا خزانہ تابعين عظام نے اور ان سے تبع تابعين نے حاصل کیا، نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہی تین زمانوں کو اپنی امت کے بہترین زمانے قرار دیا ہے ... لہذا قرآن كريم کی تفسیر و تشریح اور نبى كريم صلى الله عليه وسلم کے فرامین کی جو تشریح صحابہ کرام، تابعين عظام اور تبع تابعين نے فرمائی اسکے مقابلے میں چودہ سو سال بعد والوں کی نئی ایجاد کردہ تفسیرو تشریح کی کوئی حيثيت نہیں، ہمارا دنیائے قادیانیت کو  چیلنج ہے کہ ان تینوں بہترین زمانوں یعنی صحابه ، تابعين اور تبع تابعين کے زمانے میں سے کسی ایک صحابی، کسی ایک تابعى يا تبع تابعى سے بسند صحیح یہ ثابت کیا جائے کہ اس نے یہ کہا ہو کہ "وہ حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام  جنہیں بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تھا انھیں دشمنوں نے پکڑ کر چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈالا تھا، آپ کو زخمی کیا تھا اور پھر آپ کو مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے، اسکے بعد آپ کشمیر گئے اور وہاں آپ کی موت ہوئی اور آپ کی قبر سری نگر میں ہے، اور احادیث میں جن عيسى بن مريم عليهما السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی خبر دی گئی ہے اس سے مراد انکا ایک مثیل ہے جس کا نام غلام احمد بن چراغ بی بی ہے" ... 

 اگر یہ ثابت نہ ہو سکے تو کسی صحابی ، تابعى يا تبع تابعى سے یہ قول ہی بسند متصل اور صحیح ثابت کیا جائے کہ انہوں نے فرمایا ہو کہ "حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام کی موت ہو چکی ہے ، انکا رفع الى السماء نہیں ہوا ، اور انہوں نے قیامت سے پہلے نازل نہیں ہونا" ... هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين . 


 دوستو! یہ اس امت کے بہترین زمانے ہیں، قرآن كريم بھی موجود تھا اور احادیث نبویہ بھی، وہ لوگ بھی عرب تھے ، عربی زبان میں کس لفظ کا کیا مطلب ہوتا ہے انھیں خوب معلوم تھا .. لیکن اسکے با وجود اگر انکے اندر کوئی ایک بھی  یہ عقیدہ نہیں رکھتا تھا کہ "حضرت عيسى بن مريم عليهما السلام کی موت ہو چکی ہے اور انکا رفع الى السماء نہیں ہوا اور ان کا نازل ہونا قیامت کی نشانیوں میں سے نہیں" تو یہ خير القرون كا اجماع ہی ہے ... 


 آئیے اب ہم سب سے پہلے رفع ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اجماع امت کے چند حوالے پیش کرتے ہیں  :


علم کلام کے مشہور امام ابو الحسن الاشعریؒ (وفات 324ھ) لکھتے ہیں :۔
’’وأجمعت الأمۃ علی أن اللہ عزوجل رفع عیسیٰ الی السماء‘‘ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا ۔ (الابانۃ فی اصول الدیانۃ، صفحہ 35 ، طبع دار ابن زیدون ۔ بیروت)

نوٹ: امام ابوالحسن اشعرى تیسری اور چوتھی صدی میں گذرے ہیں .. 


  امام ابومحمد عبدالحق بن عطیہ اندلسیؒ (وفات541ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔
 ’’وأجمعت الأمۃ علی ما تضمنہ الحدیث المتواتر من أن عیسیٰ علیہ السلام فی السماء حي وأنہ ینزل فی آخر الزمان‘‘ اور امت کا اس بات پراجماع ہے جو احادیث متواترہ میں وراد ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانہ میں نازل ہوں گے ۔(المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب العزیز ، جلد 2 صفحہ 237 ، طبع وزارۃ الاوقاف قطر)

نوٹ: یہ امام ابن عطيه اندلسى چوتھی اور پانحویں صدی ہجری میں گزرے ہیں ... اور یہ لکھ رہے ہیں کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت عيسى عليه السلام آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں آپ نازل ہونگے .. 


 شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (وفات 852ھ) رقمطراز ہیں :۔
’’وأما رفع عیسیٰ فاتفق اصحاب الاخبار والتفسیر علی أنہ رُفع ببدنہ حیاً، وانما اختلفوا ہل مات قبل أن یُرفع أو نام فرُفع‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بارے میں محدثین ومفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کو جسم سمیت زندہ اٹھا لیاگیا ، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ کیا رفع سے پہلے (کچھ دیر کے لئے ۔ناقل) آپ کو موت دی گئی تھی یا آپ کو نیند کی حالت میں اٹھا یا گیا (لیکن جسم سمیت زندہ اٹھائے جانے پر بہرحال اتفاق ہے)۔ (تلخیص الحبیر، جلد 3 ، صفحہ 431، طبع مؤسسۃ قرطبہ)

           
شیخ الاسلام  ابن تیمیہ ؒ (وفات 728ھ) نے بھی امام ابوالحسن الاشعریؒ کی یہ بات نقل کی ہے، لکھتے ہیں :۔
 ’’وأجمعت الأمۃ علی أن اللہ عزوجل رفع عیسیٰ الیہ الی السمائ‘‘ امت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھا لیا ۔(بیان تلبیس الجہمیۃ، جلد 4، صفحہ 457، طبع سعودیہ)

واضح رہے کہ یہ وہی امام تیمیہؒ ہیں جن کے بارے میں مرزا قادیانی نے جھوٹ لکھا ہے کہ وہ وفات مسیح کے قائل ہیں ، مرزا کے اس جھوٹ پر ہم پھر کبھی بات کریں گے ۔


 مشہور مفسر علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادیؒ (وفات 1270 ھ) آیت خاتم النبیین کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔
 ’’ولا یقدح فی ذلک ما اجمعت الأمۃ علیہ واشتہرت فیہ الأخبار ولعلہا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علی قول ووجب الایمان بہ وأکفر منکرہ کالفلاسفۃ من نزول عیسیٰ علیہ السلام آخر الزمان لأنہ کان نبیاً قبل تحلی بل تحلی نبینا صلى الله عليه وسلم  بالنبوۃ فی ہذہ النشأۃ …‘‘ (آنحضرتe کے آخری نبی ہونے پر) اس بات سے اعتراض نہیں وارد ہوسکتا جس پر امت کا اجماع ہے اور جس کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں جو متواتر معنوی کے درجہ کو پہنچتی ہیں اور ایک قول کے مطابق اللہ کی کتاب نے بھی یہ بیان کیا ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے ، اور اس کے منکر کو کافر کہا گیا ہے جیسا کہ فلاسفہ (وہ عقیدہ یہ ہے کہ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری زمانہ میں نازل ہونا ہے (ان کے نازل ہونے سے اعتراض اس لئے نہیں ہوسکتا کہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپe سے پہلے کے نبی ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی، جلد 22، صفحہ 34، دار احیاء التراث العربی، بیروت)


شیخ محمد بن احمد السفارینی رحمۃ اللہ علیہ (وفات 1188ھ) اپنی مشہور کتاب عقیدہ سفارینیہ میں لکھتے ہیں:۔
’’ومنہا ای من علامات الساعۃ العظمیٰ العلامۃ الثالثۃ أن ینزل من السماء السید المسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ونزولہ ثابت بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ‘‘ قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے تیسری نشانی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوںگے اور آپ کا نزول کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔

  اور پھر اجماع امت کا بیان کرتے ہوئے لکھا:۔
  ’’وأما الاجماع فقداجمعت الامۃ علی نزولہ ولم یخالف فیہ أحد من أہل الشریعۃ ، وانما انکر ذلک الفلاسفۃ والملاحدۃ ممن لا یُعتد بخلافہ وقد انعقد اجماع الامۃ علی أنہ ینزل ‘‘ جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو امت کاآپ کے نزول پر اجماع ہے اور اہل شریعت میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا سوائے فلسفیوں اور ملحدین کے جن کے اختلاف کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ آپ نازل ہوں گے ۔ (لوامع الانوار البہیۃ  المعروف بہ عقیدہ سفارینیہ ، جلد 2 ، صفحہ 94، طبع دمشق)



 مرزا قادیانی کا اقرار
  یہ تو تھے چند حوالہ جات امت اسلامیہ کے چند معروف اور قابل قدر اکابرین کے جن میں تیسری صدی ہجری کے اہل سنت کے امام ابوالحسن اشعریؒ بھی ہیں، اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ جیسے بھی ہیں جومرزائی جماعت کے نزدیک بھی اپنے زمانے کے مجدد تھے ، اب آئیے مرزا قادیانی کا اقرار بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ صاف طور پر تسلیم کرتا ہے کہ اس سے پہلے تیرہ صدیوں میں امت کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ، چنانچہ اس نے کہا :۔
’’ایک دفعہ ہم دلی میں گئے تھے ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہاکہ تم نے تیرہ سو (1300) برس سے یہ نسخہ استعمال کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدفون اورحضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر پر بٹھایا یہ نسخہ تمہارے لئے مفید ہوا یا مضر اس سوال کا جواب تم خود ہی سوچ لو ، ایک لاکھ کے قریب لوگ اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں‘‘۔(ملفوظات، جلد 5، صفحہ 579)


 ہمارا مقصد اس حوالے سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ مرزا قادیانی نے صاف اقرار کیا کہ اس سے پہلے 1300 سالوں سے مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں ، لیکن یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ مرزا قادیانی نے حسب عادت یہاں بھی انتہائی بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے کاعقیدہ رکھنے کی وجہ سے ایک لاکھ مسلمان مرتد ہوگئے ، شاید اس کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہو جو مرزائی ہوکر اور مرزا کو مسیح مان کر مرتد ہوگئے ورنہ امت اسلامیہ کی تاریخ گواہ ہے اور جیساکہ مرزا نے بھی کہا کہ اس سے تیرہ سوسال پہلے سے مسلمانوں کا یہی عقیدہ چلا آرہا ہے لیکن ان تیرہ صدیوں میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ صرف یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے لوگ مرتد ہوگئے ہوں ، مرزا قادیانی کی اپنی ایک خود ساختہ منطق ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانا جائے تو اس کامطلب ہے کہ انہیں خدا مان لیا گیا جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔


 مرزا قادیانی نے صراحت کے ساتھ ایک جگہ لکھا:۔
’’سو واضح ہو کہ اس امر سے دُنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریباً تمام مسلمانوں کا اِس پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رُو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہوگا اور یہ پیشگوئی بخاری اور مسلم اور ترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلی کے لئے کافی ہے‘‘۔ (شہادۃ القرآن، رخ 6، صفحہ 298)

 پھر اسی کتاب میں تھوڑا آگے جاکر مرزا قادیانی نے یہ الفاظ لکھے :۔
            
’’واضح ہوکہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف ائمہ حدیث نے چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو وبس بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ پیش گوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اسی قدر اس پیش گوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کوابتداء سے یاد کرتے چلے آتے تھے ‘‘۔ (شہادۃ القرآن، رخ 6 ، صفحہ 304)


 مرز ا قادیانی صاف لفظوں میں اقرار کر رہا ہے کہ حضرت مسیح بن مریم علیہماالسلام کے نزول کے بارے میں احادیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ ابتداء سے مسلمانوں کے اندر عقیدہ کے طور پر چلی آرہی ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پراتفاق ہے ، اگرچہ مرزا نے یہاں بھی’’مسیح موعود‘‘ کا لفظ لکھ کر ڈنڈی ماری ہے کیونکہ احادیث میں کسی’’ مسیح موعود‘‘ کا ذکر نہیں بلکہ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نام مذکور ہے اور انہی کے نزول کا عقیدہ ابتداء سے مسلمانوں میں چلا آرہا ہے ۔


وفات مسیح کا راز اورمرزاقادیانی کا دعویٰ

 ایک طرف مرزا قادیانی نے اپنے سے پہلے لوگوں کے نام لے کر یہ دعویٰ کیا کہ فلاں فلاں بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے (آج بھی مرزا کے پیروکار یہی جھوٹ بولتے ہیں) ، لیکن دوسری طرف مرزا قادیانی نے  نے یہ بیان بھی جاری کیا:۔

’’یااخوان ہذا الأمر الذی اخفاہ اللہ من أعین القرون الأولیٰ ، وجلیٰ تفاصیلہ فی وقتنا ہذا یخفی ما یشاء ویبدی‘‘ اے بھائیو! یہ معاملہ (یعنی وفات مسیح کا راز۔ناقل) وہ ہے جو اللہ نے پہلے زمانوں کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور اس کی تفاصیل اب ظاہر ہوئی ہیں ، وہ جو چاہتا ہے اسے مخفی رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے اسے ظاہر کرتا ہے۔  (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5، صفحہ 426)


 اسی کتاب میں ایک اور جگہ یوں لکھا:۔
’’وبقی ہذا الخبر مکتوماً مستوراً کالحبّ فی السنبلۃ قرناً بعدقرن، حتی جاء زماننا ہذا…‘‘  اور یہ خبر (یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ناقل) زمانہ در زمانہ اسی طرح پوشیدہ اور چھپی رہی جیسے دانہ اپنے خوشے میں چھپا ہوتاہے یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا ۔  (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5 ، صفحہ552)

 اگلے صفحے پر صاف لکھا :۔ ’’ فکشف اللہ الحقیقۃ علینا لتکون النار برداً وسلاماً‘‘  پس اللہ نے ہم پر حقیقت کھولی تاکہ آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے ۔ (آئینہ کمالات اسلام، رخ 5، صفحہ 553)


 اب اگر تو واقعی مرزا سے پہلے گذرے وہ لوگ جن کامرزا اور اسکے پیروکار نام لیتے ہیں  وفات مسیح کے قائل تھے تو مرزا کا یہ بیان جھوٹ ثابت ہوا کہ یہ راز اس سے پہلے کسی پر نہیں کھولا گیا ، اور اگر یہ راز مرزا سے پہلے مخفی اور مستور تھا تو پھر مرزا کا یہ دعویٰ کہ فلاں فلاں وفات مسیح کا قائل تھا جھوٹ ہوا ۔

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں                اپنے ہی  دام  میں  خود  صیاد آگیا

2 comments:

  1. جواب بھی ذرا دل تھام کر پڑھنا کہیں شرمندہ نہ ہونا پڑے
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت کے دعویٰ کی حقیقت
    http://ehtisaab.blogspot.com.tr/2015/11/blog-post_9.html

    ReplyDelete
  2. پاکٹ بک کے لطیفے پیسٹ کردینے سے سوال و جواب نہیں ہوتا،،،، لے دوسرا حصہ آپ کے لئے


    http://ahtisaab.blogspot.hk/2015/11/blog-post_10.html

    ReplyDelete