حیات عیسی علیہ السلام از رؤے کتب مرزا غلام احمد
مصنف : حمزہ اعوان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نسلی علی رسولہ الکریم
احمدی دوستو! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب اور آپ کے احباب اس بات پر بضد ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں لیکن آپ یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ مرزا صاحب نے کل زندگی 69 سال 4 ماہ 25 دن پائی ہے اور 57 سال 4 ماہ 25 دن تک یہی کہتے رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور مرنے سے 12 سال پہلے 1896ء کو اپنا عقیدہ بدلہ اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں۔ انہیں زندہ آسمانوں پر ماننا شرک عظیم ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مرزا صاحب نے کتاب البریہ میں لکھا ہے کہ میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں ہوئی ہے(کتاب البریہ صفحہ 159، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 177) اور وفات 26 مئی 1908 میں ہوئی(ملفوظات جلد 10 صفحہ 459) حساب لگائیں 69 سال 4 ماہ 25 دن بنتے ہیں۔
آیت قرآنی اور تفسیر الہامی اول
مرزا صاحب نے براہین احمدیہ میں لکھا ہے:”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ“ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔(براہین احمدیہ جلد1 صفحہ 499، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593 از مرزا غلام احمد صاحب)
مندرجہ بالا عبارت میں خاص طور پر لائق توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت قطعی الثبوت ہے اور مرزا صاحب نے ”اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے“ کہہ کر اس کی الہام تفسیر کی ہے۔ وہ بھی ان کے نزدیک قطعی ہے کہ یہ آیت حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری و جسمانی آمد کی پیشگوئی ہے۔ پس قرآن مجید کی آیت اور مرزا صاحب کی الہامی تفسیر دونوں مل کر حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری اور جسمانی آمد ثانی کو قطعی بنا دیتے ہیں، جس کے بعد مرزا صاحب کے ماننے والوں کے لئے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
آیت قرآنی اور تفسیر الہامی دوم
اس الہامی کتاب براہین احمدیہ میں بڑے زور دار دعویٰ کے ساتھ اپنے الہام سے ثابت کیا کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں، دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، ملاحظہ فرمایں:” عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَ عَلَیْكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا۔خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور اور اس کی آنکھیں ہوگیا سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔“(براہین احمدیہ صفحہ 505،506 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 601، 602 از مرزا صاحب)
نوٹ: مرزا صاحب کے الہامات کا مجموعہ ”تذکرہ“ میں فاضل مرتب نے زِیر بحث الہام”عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَ عَلَیْكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا“ پہ حسب ذیل نوٹ لکھا ہے:
”حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین نمبر 2 کے نمبر 5 پر اور اس کے علاوہ کئی مقامات پر بھی بحوالہ براہین احمدیہ ان یرحمکم درج فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”علی“ کا لفظ سہو کتابت ہے۔(تذکرہ طبع دوم صفحہ 82، طبع سوم79-80، طبع چہارم صفحہ 63 از مرزا صاحب)
نوٹ: مرزا صاحب نے اربعین نمبر 2 میں براہین احمدیہ میں درج شدہ الہامات کی فہرست دی ہے ھو الذی اور عسی ربکم والی آیات کو مرزا صاحب نے اپنے الہامات قرار دیا ہے۔(اربعین جلد 2 صفحہ9، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 321،352)
یہاں کس قدر وضاحت سے مرزا صاحب نے حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ ہونے،رفع آسمانی اور آمد ثانی کے عقیدے کو تسلیم کیا ہے۔ اور 12 سال بعد تک اسی عقیدے پر جمے رہے۔ ہمیشہ مسیح موعود ہونے کا انکار کیا اور مثیل مسیح کہلاتے رہے۔
اپنی کتاب ازالہ اوہام میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:” اے برادران دین وعلمائے شرع متین!آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سُنیں کہ اس عاجزنے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے مُنہ سے سُنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پُرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالیٰ سے پاکر براھین احمدیہ کے کئی مقامات پر بتصریح درج کر دیا تھا جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہوگا میں نے یہ دعویٰ ہرگزنہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاّب ہے بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یا آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہو رہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعض روحانی خواص طبع اور عادت اور اخلاق وغیرہ کے خدائے تعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھے ہیں۔“(ازالہ اوہام اول صفحہ 190، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 192 از مرزا صاحب)
قارئین کرام: مسیح موعود بننے سے انکار اور مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ الہامی ہے جیسا مرزا صاحب کی اپنی تحریروں سے ثابت ہے۔ اب حیرانی والی بات ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کے الہامات سے اپنا یی دعوی ثابت کیا کہ مسیح موعود نہیں ہوں،مسیح زندہ ہیں، دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اور دوسری طرف یہ بھی براہین احمدیہ کے الہامات سے ہی ثابت ہے کہا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں اور عیسی علیہ السلام مسیح موعود نہیں وہ فوت ہو چکے ہیں، آگے حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔
مرزا صاحب اعجاز احمدی کے شروع میں لکھتے ہیں:”وحی سے بیان کرتا ہوں اور مجھے کب اِس بات کا دعویٰ ہے کہ مَیں عالم الغیب ہوں جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تُو مسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہوگیا ہے تب تک مَیں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اِسی وجہ سے کمال سادگی سے مَیں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے۔ جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو مَیں اس عقیدہ سے باز آگیا۔ مَیں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دِل پر محیط ہوگیا اور مجھے نُور سے بھر دیا اُس رسمیؔ عقیدہ کو نہ چھوڑا حالانکہ اسی براہین میں میرانام عیسیٰ رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ تُو ہی کسر صلیب کرے گا۔ اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اِس آیت کا مصداق ہے کہ 3 3 ۱ تا ہم یہ الہام جو براہین احمدیہ میں کھلے کھلے طور پر درج تھا خدا کی حکمت عملی نے میری نظر سے پوشیدہ رکھا اور اسی وجہ سے باوجودیکہ مَیں براہین احمدیہ میں صاف اور روشن طور پر مسیح موعود ٹھہرایا گیا تھا مگر پھر بھی مَیں نے بوجہ اس ذہول کے جو میرے دل پر ڈالا گیا حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ پس میری کمال سادگی اور ذہول پر یہ دلیل ہے کہ وحی الٰہی مندرجہ براہین احمدیہ تو مجھے مسیح موعود بناتی تھی مگر مَیں نے اس رسمی عقیدہ کو براہین میں لکھ دیا۔ مَیں خود تعجب کرتا ہوں کہ مَیں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی کیونکر اسی کتاب میں رسمی عقیدہ لکھ دیا۔ پھر مَیں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بیخبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدّو مدّ سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور مَیں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اِس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔ پس جب اِس بارہ میں انتہا تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا کہ فاصدع بما تؤمر یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سُنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روزِ روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیاتب مَیں نے یہ پیغام لوگوں کو سُنا دیا۔“(اعجاز احمدی صفحہ 9 روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 113 از مرزا صاحب)
مرزا صاحب نے ایک قرآنی اور الہامی آیت سے یہ ثابت کیا ہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں، دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور پھر 12 سال بعد اسی قرآنی اور الہامی آیت سے ثابت کر رہے ہیں کہ مسیح موعود میں ہوں عیسی ابن مریم انتقال فرما چکے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ میں نے براہین احمدیہ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام کا رسمی عقیدہ لکھ دیا تھا۔ حالانکہ مرزصاحب نے قرآن کی آیت کی الہامی تفسیر کرتے ہوئے بڑے زور دار دعوے سے ثابت کیا کہ عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں دوبارہ تشریف لائے گے۔
احمدی دوستو! کیا قرآن شریف میں رسمی عقائد درج ہیں اور مرزا صاحب کو رسمی الہام ہوتے تھے؟،،،،،انا للہ و انا الیہ رجعون۔
احمدی دوستو! جب مرزا صاحب کی طرف اللہ تعالی کے کیے ہوئے الہام اور قرآن شریف کی آیت کا مفہوم مرزا صاحب غلط بیان کر رہے تھے تو اللہ نے کیوں نہیں فرمایا۔ مرزا صاحب کیا کر رہے ہو کیا آپ کو الہام اور قرآن شریف کی آیت کا مفہوم نہیں سمجھ میں آیا، یا خواب دیکھ رہے ہو۔ عیسی علیہ السلام تو مر گئے ہیں اور جس مسیح موعود نے آنا ہے وہ تم ہو اور تم ہی لکھ رہے ہو کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ کیا اللہ کو دوبارہ 12 سال بعد یاد آیا یا علم ہوا کہ مرزا صاحب نے اپنی گردن پر چھری پھیر دی ہے۔ کیا اللہ تعالی کو نعوذ باللہ نیند آگئی تھی؟ کیا یہ اصلاح و تجدید دین ہو رہی ہے؟ انا للہ و انا الیہ رجعون۔
اور پھر لطف یہ کہ جب حیات عیسی علیہ السلام کا عقیدہ بدلہ تو مرزا صاحب نے اپنی کتاب ست بچن میں لکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے 120 برس کی عمر پائی۔(ست بچن صفحہ176، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 302 از مرزا صاحب)
پھر پانچ ماہ بعد مرزا صاحب نے اپنی کتاب تریاق القلوب میں لکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے 125 سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔(تریاق القلوب صفحہ 371، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 499 از مرزا صاحب)
پھر چار سال بعد مرزا صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین میں لکھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام 153 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔(تذکرۃالشہادتین صفحہ 29، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 29 از مرزا صاحب)۔
اسی طرح قبر کے بارے میں مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں لکھا کہ مسیح کی قبر ان کے اپنے وطن گلیل میں ہے۔(ازالہ اوہام دوم صفحہ 473، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 353)
پھر کچھ سال بعد مرزا صاحب نے اتمام الحجہ میں لکھا مسیح کی قبر بیت المقدس، طرابلس یا بلاد شام٭ میں ہے۔(اتمام الحجہ صفحہ 24، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 296 از مرزا صاحب)
پھر کچھ سال بعد مرزا صاحب نے اپنی کتاب کشتی نوح میں لکھا کہ مسیح کی قبر کشمیر سری نگر محلّہ خان یار میں ہے۔(کشتی نوح صفحہ 18، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ16 از مرزا صاحب)
اگرچہ مرزا صاحب کا قبر مسیح کا مسئلہ پھر مشتبہ ہوا اور مرنے سے 11 دن پہلے لکھا کہ ایک بزرگ کی روایت سے مسیح کی قبر مدینہ کے قریب ہے۔(چشمہ معرفت صفحہ 251، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 261 از مرزا صاحب)
لیکن احمدی احباب کشمیر والی قبر ہی مسیح کی قبر بتلاتے ہیں جس کا قبر ہونا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہر گز ثابت نہیں۔
مرزا صاحب نے ابن مریم بننے کی غرض سے 1896ء کو اپنا عقیدہ بدلا بحوالہ(اعجاز احمدی صفحہ 9، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 113 از مرزا صاحب) اور 1908ء تک زندہ رہے۔ یعنی 12 سال تک اللہ کی طرف سے الہام ہوتے رہے یعنی اللہ مرزا صاحب سے مزاق کرتے رہے اور یہ صحیح خبر ایک بھی الہام میں نہ دی گئی؟ نعوذ باللہ! اصل میں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے سرمہ چشم آریہ کے آخر میں ایک اشتہار دیا ہے جس میں فرماتے ہیں کہ” کتاب براہین احمدیہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے مؤلف(مرزا صاحب) نے ملہم و مامور(یعنی اللہ کے حکم سے)ہوکر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے۔“(سرمہ چشم آریہ اشتہار صفحہ 270 کے بعد، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 318 کے بعد)
آئینہ کمالات اسلام میں مرزا صاحب لکھتے ہیں” اِس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ رُوح القدس(جبرائیل علیہ السلام) کی قدسیّت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قُویٰ(یعنی بدن کے تمام اعضاء) میں کام کرتی رہتی ہے۔“(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 93، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 93 از مرزا صاحب)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روح القدس کی قدسیت نے مرزا صاحب کے ہاتھ کو کیوں نہ پکڑا اور قلم کیوں نہیں توڑ دی، روح القدس کی قدسیت نے کیوں نہیں شور مچایا، کیوں نہیں چیخی چلائی کہ مرزا صاحب کیوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ عیسی علیہ السلام کو مرے ہوئے تقریباً دو ہزار سال ہو گئے ہیں اور تم لکھ رہے ہو کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور لکھ بھی ایسی کتاب میں رہے ہو جو اصلاح و تجدید کے لئے لکھی جا رہی ہے۔ مرزا صاحب کیا تمہاری مَت ماری ہے۔ تمہیں نہیں پتہ کہ عیسی علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک ہے۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے براہین احمدیہ جلد 1 میں لکھا ہے کہ:”ہم نے صدہا طرح کا فتور اور فساد دیکھ کر کتاب براھین احمدیہ کو تالیف کیا تھا اور کتاب موصوف میں تین سو مضبوط اور محکم عقلی دلیل سے صداقت اسلام کو فی الحقیقت آفتاب سے بھی زیادہ تر روشن دکھلایا گیا چونکہ یہ مخالفین پر فتح عظیم“ہے۔(براہین احمدیہ جلد 1 صفحہ62، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 62)
احمدی دوستو! صدہا فتور اور فساد میں سے سب سے بڑا فتور اور فساد تمھارے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ آسمان پر ماننا پر ماننا اور انکا دوبارہ دنیا میں آنا ہے۔ صدہا فتور اور فساد کی اصلاح تو مرزا صاحب سے کیا ہو گی، حیات مسیح علیہ السلام کو براہین احمدیہ میں مرزا صاحب نے تسلیم کرکے اپنے پاؤں کاٹ دیئے۔ مرزا صاحب کا یہ کہنا کی مخالفوں پر فتح عظیم ہے، یہ مرزا صاحب کی خوش فہمی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ مخالفوں کی فتح عظیم ہے نہ کہ مرزا صاحب کی مسیح و موعودیت اور مہدی معودیت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کہ واسطے تیز سے تیز تر کلہاڑا ہے۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب طالب علمی کے زمانے کے بارے میں لکھتے ہیں:” اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔“( کتاب البریہ صفحہ 181، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 181)
مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ” والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے اور ان کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔“(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 218 از مرزا بشیر احمد)
مرزا صاحب فرماتے ہیں:” مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبّر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا۔“(کتاب البریہ صفحہ 187، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 187)
مرزا صاحب 1884ء میں براہین احمدیہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بعد نماز مغرب میرے پاس تشریف لائے۔ حضرت فاطمہ،حسن، حسین رضی اللہ عنہم بھی تھے اور رسول ﷺ بھی تھے۔”پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت بتلایا گیا یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی رضی اللہ عنہ نے تالیف کیا ہے اور اب علی علی رضی اللہ عنہ وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔“(براہین احمدیہ صفحہ504، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 599)
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593،601 پر لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام
زندہ ہیں اور دوبارہ تشریف لائیں گےجیسا میں پہلے بیان کر آیا ہوں۔ براہین مرزا صاحب نے 1884ء میں لکھی ہے۔ یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ براہین میں حیات عیسی علیہ السلام کا مسئلہ لکھنے کے بعد مرزا صاحب 12 سال تک اسی عقیدہ پر جمے رہے۔ 12 سال بعد عقیدہ بدلا اور ازالہ اوہام دوم کے صفحہ 595، مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 423 پر لکھا ہے کہ قرآن شریف کی 30 آیتوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔(ازالہ اوہام صفحہ 598، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 423 از مرزا صاحب)
کیوں صاحب؟ مرزا صاحب مرزا صاحب اس قدر کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے کہ گویا دنیا میں نہیں تھے۔ خاص کر تدبر قرآن شریف اور تفسیروں کا اور احادیث شریف کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ کسی حدیث شریف یا قرآن شریف کی ایک آیت میں بھی یہ نہ تھا کہ عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں کہ مرزا صاحب نے براہین میں لکھا کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں، دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اب 12 سال بعد 30 آیات سے ثابت کر رہے ہیں کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں کیا یہ 30 آیات اس وقت نظر نہیں آئی تھیں۔ کیا تفسیرِ علی (رضی اللہ تعالی عنہ) جو مرزا صاحب کو براہین لکھنے سے 10 سال پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اللہ نے دی تھی، اس میں بھی یہ نہ لکھا تھا کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ احمدی دوستو!! مرزا صاحب نے براہین احمدیہ اور تذکرہ میں لکھا ہے کہ براہین احمدیہ کی تصنیف سے 20 برس پہلے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس وقت میرے دائیں ہاتھ میں میری تالیف کردہ کتاب تھی۔ آپ نے دریافت فرمایا تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ عرض کیا یہ میری لکھی ہوئی کتاب ہے۔ فرمایا اس کا کیا نام ہے؟َ میں نے کہا قطبی یعنی قطب کے ستارے کی طرح مستحکم غیر متزلزل۔ آپ نے فرمایا مجھے دیں۔ میں نے آپ کو دیدی۔ فرمایا اس کے زریعہ اسلام زندہ ہو گا۔(براہین احمدیہ صفحہ 249، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 274،275 حاشیہ، تذکرہ طبع دوم صفحہ3،4 طبع سوم صفحہ 2 طبع چہارم صفحہ 1 تا 2 از مرزا صاحب)
احمدی دوستو! بقول مرزا صاحب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کتاب کے زریعہ اسلام جو مردہ ہو چکا ہے، زندہ ہو گا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ فرمایا ہوتا تو یہ بھی فرمایا ہوتا کہ مرزا جو تم نے اس کتاب میں جو گند مارا ہے اسے درست کر کہ عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور ان کے ہاتھوں سے دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ عیسی علیہ السلام کے ذریعہ ظہور میں ائے گا۔ مرزا کیا تم کو اتنا علم نہیں کہ عیسی علیہ السلام کو مرے تو تقریباً دو ہزار سال ہو گئے ہیں اور تم نے لکھا ہے کہ وہ زندہ ہیں دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ مرزا یہ غلبہ دین تو تمھاری اس کتاب کے ذریعہ سے ہو گا نہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں سے۔ لہٰذا اس غلطی کو درست کرو۔
احمدی دوستو! قطب ستارے کی طرھ مستحکم غیر متزلزل(براہین احمدیہ) میں وہ زلزلہ آیا کہ وفات مسیح کی عمارت ایسے منہدم ہوئی کہ قیامت تک قائم نہیں ہو سکتی۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے اپنی کتاب ازالہ اوہام صفحہ 323 تا 338 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 423 سے 438 میں لکھا ہے کہ 30 آیتیں قرآن شریف میں ہیں اور وہ تمام آیات بھی لکھی ہیں کہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ ایک آیت ہے شراب حرام ہے، سب مفسرین نے لکھا شراب حرام ہے۔ ایک آیت ہے چور کے ہاتھ کاٹو، سب مفسرین نے لکھا چور کے ہاتھ کاٹو۔ ایک آیت ہے زانی مرد ہو یا عورت اس کو سنگسار کر دو، سب مفسرین نے لکھا ہے زانی مرد ہو یا عورت اسے سنگسار کیا جائے۔ تعجب ہے تیس قرآنی آیتیں ہیں کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور کسی مفسر نے یہ نہیں لکھا کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ منہ مانگا انعام دوں گا اگر آپ مرزا صاحب سے پہلے 1 صدیوں کے کسی مفسر، مجدد کی چھوٹی بڑی ترجمہ و تفسیر سے یہ دکھا دیں کہ اس نے لکھا ہو کہ اس آیت سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے محمدی بیگم کے ساتھ شادی کی پیشگوئی کی تھی۔ اس پر میرا ایک رسالہ آسمانی دلہن کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں اس پیشگوئی کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کریں میں یہاں صرف ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے۔
عن عبد الله بن عمرو قا ل قا ل رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عيسى بن مريم إلى الأرض فيتزوج ويولد له ويمكث خمسا وأربعين سنة ثم يموت فيدفن معي في قبري فأقوم أنا وعيسى بن مريم في قبر واحد بين أبي بكر وعمر . رواه ابن الجوزي في كتاب الوفاء .
حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ۔ " حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم زمین پر اتریں گے تو وہ نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی دنیا میں ان کی مدت قیام پینتالیس برس ہوگی پھر ان کی وفات ہو جائے گی اور وہ میری قبر یعنی میرے مقبرہ میں میرے پاس دفن کئے جائیں گے ( چنانچہ قیامت کے دن ) میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں ایک مقبرہ سے ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان اٹھیں گے اس روایت کو ابن جوزی نے کتب الوفا میں نقل کیا ہے ۔(مشکوۃشریف صفحہ نمبر 491باب نزول عیسی علیہ السلام)
حدیث مذکورہ بالہ سے صاف واضح ہے کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام زمین پر اتر کر نکاح کریں گے چونکہ مرزا صاحب مسیحیت سے پہلے نکاح کر چکے تھے اور اس سے اولاد بھی تھی۔ اس لئے مرزا صاحب نے حدیث ہذا کا یہ مطلب ظاہر کیا کہ اس نکاح سے جو مسیح موعود کی علامت ہے محمدی بیگم کا میرے ساتھ نکاح ہونا ہے۔
چنانچہ مرزا صاحب کے الفاظ ہیں:” اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولد لہ۔ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مرا وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے۔ گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔“( انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 337 از مرزا صاحب)
احمدی دوستو! ساری باتیں چھوڑو، مرزا صاحب کی شادی محمدی بیگم کے ساتھ نہ ہونے سے ثابت ہو گیا کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں اور مرزا صاحب کا دعوی جھوٹا ہے۔ آپ حدیث شریف کے الفاظ پر غور فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عیسی علیہ السلام ہی کی شادی کا ذکر کیا کیونکہ جب عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھاے گئے تھے اس وقت آپ کنوارے تھے اور ابھی اپ کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اس واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ عیسی علیہ السلام شادی کریں گے اور ان کے بچے بھی ہوں گے اور یہ مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کی بیوی نہ تھی۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ نامرد ہیجڑا تھے(بحر حال کنوارے دنیا سے رخصت ہوئے) تفصیل کے لیے دیکھو۔(نور القرآن صفحہ 73، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 448،449 از مرزا صاحب)
احمدی دوستو! کتاب ”عسل مصفی“ تالیف ابو العطا مرزا خدا بخش قادیانی احمدی یکے از کمترین خادمان مسیح موعود بماہ اپریل 1903ء مطابق غرہ ذی الحجہ 1318ھ میں لکھی گئی تھی۔ اس میں مجددین کی ایک فہرست دی ہے اس کا مطالعہ فرمائیں۔”اس باب میں کہ کون کون مجدد ہوئے ہیں ہم اوپر دکھلا چکے ہیں کہ ہر صدی کے سرے پر مجددوں کا آنا ضروری ہے کیونکہ ہر سو 100 سال کے بعد زمانہ کی حالت پلٹا کھاتی ہے اور دین اسلام میں ضعف آتا ہے۔ لہٰذا از بس ضروری ہے کہ اس ضعف اور کمزوری کے دور کرنے کے لئے کوئی شخص خدا تعالی کی طرف سے خاص تائید پا کر دنیا میں کھڑا ہو اور جس قدر اہل اسلام میں فتور برپا ہو گیا ہو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اور دین مردہ کو ازسر نو زندہ کرکے اس کو اپنی اصلی ہیئت میں دکھلا دے۔ چنانچہ اس غرض کے پورا کرنے کے لئے 13 صدیوں میں جس قدر مجدد اصحاب تسلیم کئے گئے ہیں ، جن میں سے بعض نے اپنی زبان سے دعویٰ مجددیت کا ہے اور بعض نے نہیں کیا صرف لوگوں نے ان کو اپنے اعتقاد اور علم سے مجدد تسلیم کر لیا ہے۔ ہم ان کی صدی وار نام لکھ دیتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ ان کے اسمائے مبارک سے ناواقف اور نا آشنا ہیں اچھی طرح واقف ہو جائیں۔
پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں
(۱) عمر بن عبدالعزیز (۲) سالم (۳) قاسم (۴) مکحول
علاوہ ان کے اور بھی اس صدی کے مجدد مانے گئے ہیں۔۔۔۔۔
دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) امام محمد ادریس ابو عبداﷲ شافعی (۲) احمد بن محمد بن حنبل شیبانی (۳) یحیٰ بن عون غطفانی (۴) اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس (۵) ابو عمرو مالکی مصری (۶) خلیفہ مامون رشید بن ہارون (۷) قاضی حسن بن زیاد حنفی (۸) جنیدبن محمد بغدادی صوفی (۹) سہل بن ابی سہل بن ریحلہ الشافعی (۱۰) بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبداﷲ صوفی
تیسری صدی کے مجددین
(۱) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی (۲) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی (۳) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی (۴) احمد بن شعیب(۵) ابو عبدالرحمن نسائی (۶)خلیفہ مقتدر باﷲ عباسی (۷) حضرت شبلی صوفی(۸) عبیداﷲ بن حسین (۹) ابو الحسن کرخی وصوفی حنفی (۱۰) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔
چوتھی صدی کے مجددین
(۱) اما م ابوبکر باقلانی (۲) خلیفہ قادر باﷲ عباسی (۳) ابوحامداسفرانی (۴) حافظ ابو نعیم (۵) ابو بکر خوارزمی حنفی (۶) بقول شاہ ولی اﷲ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری (۷) اما م بیہقی (۸) حضرت ابو طالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جوطبقہ صوفیاء سے ہیں (۹) حافظ احمد بن علی بن ثابت خطیب بغداد (۱۰) ابو اسحاق شیرازی (۱۱) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ المحدث۔
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) محمد بن محمد ابو حامد امام غزالی (۲) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی (۳) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی (۴) عبداﷲ محمد بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی (۵) ابو طاہر سلفی (۶) محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی۔
چھٹی صدی کے مجددین
(۱) محمد بن عبداﷲ فخرالدین رازی (۲) علی بن محمد (۳) عزالدین بن کثیر (۴) امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا(۵) یحیٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت (۶) یحیٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی (۷) حافظ عبدالرحمن ابن جوزی۔
ساتویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) احمد بن عبدالحلیم نقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (۲) تقی الدین ابن دقیق العید (۳) شاہ شرف الدین مخدوم بہائی سندی (۴) حضرت معین الدین چشتی (۵) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی ورعی دمشقی حنبلی (۶) عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابو محمد عفیف الدین یافعی شافعی (۷) قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی۔
آٹھویں صدی کے مجددین
(۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی (۲) حافظ زین الدین عراقی شافعی (۳) صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی (۴) علامہ ناصر الدین شازلی بن سنت میلی۔
نویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) عبدالرحمن کمال الدین شافعی معروف بہ امام جلال الدین سیوطی (۲) محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی (۳) سید محمد جونپوری مہدی اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں ۔
دسویں صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں
(۱) ملا علی قاری (۲) محمد طاہر فتنی گجراتی ، محی الدین محی السنہ (۳) حضرت علی بن حسام الدین معروف بہ علی متقی ہندی مکی
گیارہویں صدی کے مجددین
(۱) عالم گیر بادشاہ غازی اورنگ زیب (۲) حضرت آدم بنوی صوفی (۳) شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی
بارہویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی (۲) مرز امظہر جان جاناں دہلوی (۳) سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی (۴) حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی (۵) اما م شوکانی (۶) علامہ سیدمحمد بن اسما عیل امیر یمن (۷) محمد حیات بن ملازیہ سندھی مدنی۔
تیرھویں صدی کے مجددین
(۱) سید احمد بریلوی (۲) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۳) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی (۴) بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں (۵) بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے ، ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو جامع و جمیع صفات انسان تھے، کوئی کامل انسان نہیں ہو سکتا تھا کہ شریعت اسلامی کے تمام محکمہ جات کی خدمات کو سر انجام دے سکتا۔ اس لئے ضروری بلکہ اشد ضروری تھا کہ شریعت حقہ اسلام کے ہر پہلو اور ہر محکمہ کے ضعف اور کمزوری کو دور کرنے کے لئے الگ الگ افراد اس خدمت پر مامور ہوتے اور مشاہدہ اور تجربہ گواہی دیتا ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے رہا۔ چنانچہ فہرست مجددین سے واضح ہوتا کہ کوئی مجدد فقہیہ ہے کوئی محدث، کوئی مفسر ہے، کوئی صوفی، کوئی متکلم ہے اور کوئی بادشاہ۔ الغرض جن کاموں کو ایک ذات جمیع صجات انسانی بہمہ حسن و خوبی سر انجام دیتی تھی اب مختلف زمانوں میں مختلف افراد مختلف پہلوؤں میں ان خدمات کو بجا لاتے رہے ہیں اور اس سے کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا۔
جب یہ امر روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ ہر صدی کے سر پر کسی مجدد کا آنا ضروری ہے تو اب کوئی وجہ نہیں کہ چودہویں صدی کے سر پر کوئی نہ آوے۔ مجدد کا آنا نہایت ضروری ہے۔ خاص کر ایسے پرقتن زمانہ میں جبکہ اسلام پر ہر پہلو اور ہر طرف سے مصائب کے پہاڑ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ اور اسلام ایسے نرغہ میں پھنس گیا ہو کہ جس سے جانبری نہایت مشکل ہو گئی ہو۔“(عسل مصفی 116-121از مرزا خدا بخش)
حمدی دوستو! عسل مصفی میں 83 مجددین کی فہرست دی گئی ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔ احمدی دوستو یہ تو ظاہر ہے مجدد وہ ہو سکتا ہے جو اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ قرآن و حدیث کا علم رکھتا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی سے لے تیرہویں صدی تک تمھارے 83 مجدد ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چلا کہ عیسی علیہ السلام مر گئے ہیں۔ انہیں زندہ ماننا شرک ہے اور لوگوں کے واسطے سب سے بڑا فتنہ ہے اور پھر سب سے بڑا ظلم یہ کہ خود مرزا صاھب بھی 57 سال 4 ماہ 25 دن تک اس شرک میں مبتلا رہے اور یہی کہتے رہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
احمدی دوستو! مرزا صاحب نے ضمیمہ حقیقۃ الوحی الاستفتاء روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 660 پر سب سے بڑا فتنہ حیات مسیح علیہ السلام کو قرار دیا ہے بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک عظیم کہا ہے۔ 13 صدیوں کہ کسی مجدد نے حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کی اصلاح کیوں نہیں کی۔ اس کئے 13 صدیوں کے سب مجدد حیات مسیح علیہ السلام کے عقیدہ کے قاہل تھے۔ کسی نے ہرگز نہیں کہا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں بلکہ سب نے کہا عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور انکا نزول ہو گا۔ اگر کسی نے کہا ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں تو حوالہ دو۔
آپ زرا سوچیں یہ ساری باتیں یہ نہیں بتاتی کہ یہ سارے کا سارا دجل ہے، فریب ہے، ہیرا پھیری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب پہلے ہی دن کہہ دیتے عیسی علیہ السلام تقریباً دو ہزار سال پہلے فوت ہو چکے بجائے اس کے ان کو اتنا عرصہ زندہ مانتے رہے اور اپنی کتابوں میں بھی لکھتے رہے۔ اللہ تعالی بھی نعوذباللہ خاموش رہے، کیا اللہ تعالی سے بھی نعوذباللہ غلطی ہو گئی تھی۔ اللہ تعالی نے کیوں نہ بتایا کہ غلام احمد کیا لکھ رہے ہو؟ مرزا صاحب کو الہام ہوتے رہے کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں، آسمانوں سے اتریں گے اور کوئی بتانے والا نہ تجا کہ یہ الہام غلط ہے۔ روح القدس جبرائیل علیہ السلام بھی خاموش رہے۔ کثرت سے تفاسیر کا مطالعہ اور بالخصوص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر میں بھی یہ مسئلہ نہ ملا۔ تیرہ صدیوں کے مجددین میں سے کسی ایک کو بھی معلوم نہ ہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ سب ان کو ذندہ مانتے رہے اور حیات و نزول مسیح علیہ السلام کے متعلق لکھتے رہے۔ جب ملہم من اللہ ہو کر لکھئ گئی کتاب براہین احمدیہ (قطبی) حضرت محمد عربی ﷺ کی بارگاہ میں پیش کی گئی تو آپ ﷺ بھی خاموش رہے۔ پھر عمر کے آخری حصہ میں تواتر سے ہونے والے الہامات نے مرزا صاحب پر یہ کھول دیا کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور مرزا صاحب خود مسیح موعود ہے۔ مگر یہ الہامات نہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر کے متعلق بتا سکے اور نہ ان کی قبر کے متعلق بتا سکے۔
احمدی دوستو! آدمی آلو خریدتا ہے تو اسے اچھی طرح دیکھتا ہے کہ کہیں یہ خراب یا کانا تو نہیں۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ جہاں ایمان کے سودے ہوں وہاں آنکھیں بند کرکے کسی کی ہر بات قبول کر لے۔ یہ تو جنت اور جہنم کا سوال ہے۔ اس قدر غفلت سے کام نہ لیں بلکہ سوچیں، سمجھیں اور اپنا عقیدہ وہی بنائیں جو تمام امت کا متفقہ طور پر چلا آ رہا ہے۔
شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات
No comments:
Post a Comment