سلمان تاثیر اپنے غرور میں مارا گیا !
مصنف : گھمنام
میں یہ بحث نہیں کرتا کہ سلمان تاثیر نے کتنی گستاخی کی، میں یہ بھی بحث نہیں کرتا کہ اس کی سٹیٹمنٹ گستاخی کے زمرے میں ہے یا نہیں. اس پہلے میں اس معاملے پر آگے لکھوں میرے کچھ سوالات ہیں !
پاکستان میں جب بھی کسی مسیح یا ہندو کو پاگل پن کا دورہ پڑھتا ہے تو وہ نبی صلی الله علیہ وسلم اور قرآن ک کی گستاخی کرنے کا کیوں مرتکب ہوتا ہے ؟
وہ پاگل مسیح یا ہندو اپنی کتابوں بائبل، بگوان گیتا کی گستاخی کیوں نہیں کرتا ؟ سڑکوں میں ننگا کیوں نہیں گھومتا . اس کے اپنے گھر والے اس سے محفوظ کیوں رہتے ہیں؟
جب بھی گستاخی کا کوئی کیس کسی تھانہ میں اندراج ہوتا تو این جی فورا اس کی بے گناہی کا راگ الاپنا کیوں شروع کر دیتی ہیں ؟
کیس کی انویسٹیگیشن شروع نہیں ہوتی تو کم عمری اور پاگل پن کے سرٹیفکیٹ سے بیک چینل کیوں ملک سے باہر بھگا دیا جاتا ہے ؟
پاکستان کے آئین کی شق نمبر :295 ،شق نمبر 295-A ، شق نمبر 295-B ، شق نمبر 295-C میں ایسی کون سی ترمیم اس قانون کے خلاف بولنے والے چاہتے ہیں ؟
اب بات کرتے ہیں سلمان تاثیر پر ، یہ بات کسی سے ڈھکی چپھی نہیں ہے کہ سلمان تاثیر گورنر کے عہدے پر ہر بات بڑی بے باکی ، گھمنڈی انداز میں کرتے تھے ،آئے دن گورنرپنجاب کا شریف برادارن سے سیاستی ٹاکڑا ہوتا رہتا تھا جس کی وجہ سے ان کی سیاسی سطح پر واہ واہ بھی تھی اور شدید اختلاف رکھنے والے بھی .سیاستی گھرم جوشی اپنی جگہ لیکن جب بات آئی پاکستان کے مسلمانوں کے نمائندے ہونے کی تب ان کا انداز بیان میں شائستگی نہ آئی.بلکہ وہی دھمکی آمیز رویہ اپنایا، پاکستان کی عوام تمام سیاست دانوں کی ہر قسم کی ناانصافیاں برسوں سے برداشت کرتے آ رہے ہیں، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دینی لحاظ سے بھی ان حکمرانوں کی ہر بکواس کو سر آنکھوں پر رکھیں گے. اگر سلمان تاثیرکو شق نمبر 295-C میں کوئی کالا قانون نظر آ رہا تھا تو اس کے متعلق اسمبلی میں قرارداد پیش کیوں نہ کی ؟
ممتاز قادری سلمان تاثیر کا گارڈ تھا. اور گارڈ قریب قریب ہوتے ہیں. حقیقت تو یہ ہے کہ سلمان تاثیر کو اس کے غرور نے مروایا ہے ، جب معاملہ دین کا ہو اور مسلمانوں کے آپ نمائندے طور پر ایسے اونچےمنسب پر فائز ہو تو لفظوں کا استعمال اور زبان سنبھال کر عوام سے مخاطب ہونا چاہیے، رہی بات قانون کی تبدیلی کی تو اس کو ٹویٹر یا سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ ڈرافٹ کر پیش کیا جاتا ہے نہ کہ بکواس کرکے .جب قانون کا حقیقی معنی میں اطلاق ہو تو کسی کو کوئی شوق نہیں کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے. ۔ یہاں پاکستان میں کیس چلتے نہیں اور این جی او پہلے محترک ہو جاتی ہیں،جب قانون کو رکھیل کی طرح استعمال کیا جا رہا ہو تو پھر اس کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت باقی نہیں رہتی ؟انہی وجوہات پر ممتاز قادری بننے میں کسی کو دیر نہیں لگتی.
یہ بات تو میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک عام مسلمان چاہے وہ باعمل مسلمان نہ بھی ہو ، پانچ وقت نمازی نہ بھی ہو، قرآن و سنّت کی تعلیم سے واقف نہ بھی ہو ، لیکن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کا عشق اور محبّت لازوال ہو گی ، لیکن میں شرمندگی سے بتاتا چلوں ، ہمارے مسلمان حکمران ، ولی عہد ، شہزادے ، وزیر، وزیر مملکت ، آرمی ، سپاہ سالار ، آرمی چیف. سب کے سب اپنی غیرت کو مادیت،غلامی ،خوف، پاپندیوں ، عیش و عشرت ،دنیا پرستی ،ڈالر کی چمک ، میں دفن کر چکے ہوتے ہیں اور اُن کی محبت رسمی ہوگی اور بس ۔
اور وہ مسلمان جو اس قانون کی شق پڑھے بنا کالا قانون که رہے ان کے لئے میں یہ شق لکھ دیتا ، اور سوال کرتا اس میں کالا قانون ہے ؟
تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 سی (295-c)کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے۔
اس کے تحت "پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا انکے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے انکے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو، یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو، یا انکے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا ، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔
جو حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے لئے کھڑا نہیں ہو سکتا ، وہ ہمارا حاکم نہیں بن سکتا. آج ہم سیاست پرستی، شخصیت پرستی ، پارٹی پرستی کا شکار ہیں لیکن اسلام پرست نہیں . آج ہمارا ایک بھی حکمران اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر یہ نہیں که سکتا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو ٹھیس پہنچائے گا وہ ہمارا کھلا دشمن ہے. لیکن جب کوئی جوشیلا نوجوان جوش میں خود سے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کو آج موجودہ ٹرم ٹیررازم ، انتہاپسندی ، مذہبی جنونی، بنیاد پرست کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہیں .
No comments:
Post a Comment