Tuesday, April 28, 2015

مرزائیوں کے خود غرض مہدی کے سیاسی داو پیج

مرزائیوں کے خود غرض مہدی کے سیاسی داو پیج

مصنف : مرتضیٰ مہر


سخاوت وہاں نہیں کی جاتی جہاں سے کچھ ملنے کا امکان ہو بلکہ سخاوت وہاں کی جاتی ہے جہاں کچھ بھی ملنے کا امکان نہ ہو ۔ لیکن اگر آپ اس اُمید کے ساتھ کسی سے سخاوت کرتے ہو کہ وہاں سے کچھ ملنے کا امکان موجود ہے تو پھر یہ سخاوت نہیں بلکہ کاروبار ہے ۔ اور یہ کاروبار آپ کو مرزا غلام قادیانی کی زندگی میں نظر آئے گا ۔ یہاں تک کے اگر آپ اپنی آنکھیں بند کر لو گے تب بھی ۔ لیکن اگر کوئی جان کر انجان بنے تو پھر وہاں صم،بکم،عم کا مفہوم بھی اطلاق پائے گا ۔ملاحظہ ہو مرزا غلام قادیانی کے کچھ قول و عمل کے متضاد نمونے ۔

1 ۔ بعض آدمیوں کی عادت ہے کہ سائل کو دیکھ کرچِڑ جاتے ہیں اور کچھ مولویت کی رگ ہو، تو اس کی بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں ۔افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے ،جو ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے ۔ اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے ۔ اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا ،بلکہ حدیث شریف میں ’’لو اتاک راکبا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔یعنی خواہ سائل سوار ہو کر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیے اور قرآن شریف میں ’’واما السائل فلا تنھر ‘‘۔(الضحیٰ:۱۱) کا ارشاد آیاہے ۔ کہ سائل کو مت جھڑک ۔اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک ۔پس یاد رکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے ۔ اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلدی ناراض نہ ہو ۔ یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنا دے ۔ (ملفوظات دس جلدوں والا ص 353)

اس تحریر میں سائل کے بارے میں مندرجہ ذیل احکامات موجود ہیں ۔

1۔ سائل کو دیکھ کر چڑ جانا مولویت کی رگ ہے اورسائل کو دیکھ کر مسائل سمجھانے شروع کرنا مولویت ہے ایسے لوگ عقل اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے ۔

2۔ اگر سائل اپنی نیت میں مخلص نہیں ہے تو وہ گناہ کرتا ہے اور اس کا گناہ سائل پر ہے دینے والے پر نہیں ۔

3۔ قرآن و حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ سائل کو جھڑکنا نہیں چاہیے ۔

4۔ اور اس میں صراحت بھی نہیں کہ اس قسم کے سائل کو جھڑکو اُس قسم کے سائل کو مت جھڑکو بس ثابت ہے کہ سائل کسی بھی قسم کا ہو اُسے مت جھڑکو ۔

5۔ یہ بداخلاقی ہے اور شیطان کی خواہش پر چلنے کے مترادف ہے ۔


یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے اب ملاحظہ فرمائیں تصویر کا دوسرا رخ ۔

ایک شخص نے خط لکھا تھا کہ حضور (مرزا قادیانی) مجھے کرایہ بھیجا جاوے ۔ میں حاضر خدمت ہوں گا ۔ فرمایا:۔
من جرب المجرب حلت بہ الندامۃ ۔ہم نے بار بار ایسے لوگوں کا تجربہ کر لیا ہے کہ ان میں اخلاص اور نیک نیتی نہیں ہوتی تو کیا ضرورت ہے کہ اس طرح میرا روپیہ ضائع کیا جائے ۔ وہی روپیہ دینی کام میں خرچ ہوگا ۔ کیا ایسا شخص جو معزز ہے وہ ہمارے حافظ معین الدین سے بھی گیا گذرا ہے؟ یہ بھی ہمیں قریباً پندرہ یا بیس روپے دے چکا ہے کبھی دو آنے اور کبھی ایک آنہ ماہوار دیتا ہے تو ایسے بے کس شخص جب لنگر اور دیگر اخراجات کے واسطے کچھ دے سکتے ہیں تو وہ شخص کیوں اپنا بوجھ نہیں سنبھال سکتا ؟ اور شریعت نے تو بوجھ بھی نہیں ڈالا ۔ حج کی توفیق نہ ہو تو حج ساقط ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اس جگہ بھی گھر بیٹھے بٹھائے بعیت ہو سکتی ہے صرف ایک پیسہ کا کارڈ صرف ہوتا ہے ۔
(ملفوظات جلد 5ص138)


اس تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو وہ سائل تھا لیکن مرزا کی نظر میں وہ سائل مخلص نہیں تھا اور اس کی نیت بھی نیک نہیں تھی لیکن یہ قول مرزا کی اس تحریر سے متصاد م ہے (اگر سائل اپنی نیت میں مخلص نہیں ہے تو وہ گناہ کرتا ہے اور اس کا گناہ سائل پر ہے دینے والے پر نہیں ۔)اس کے بعد جو مرزا کی تحریر ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ کیا یہ شخص حافظ معین سے بھی گیا گُزرا ہے یعنی مسائل سمجھائے گئے ہیں جو کہ اس قول کے خلاف ہیں ۔ (سائل کو دیکھ کر چڑ جانا مولویت کی رگ ہے اورسائل کو دیکھ کر مسائل سمجھانے شروع کرنا مولویت ہے ایسے لوگ عقل اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے ۔ )تیسری اور اہم بات جو مرزا کی دوسری تحریر میں بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر توفیق نہ ہو تو حج ساقط ہو جاتا ہے ۔ لیکن مجھے مرزا کے اس قول پر بھی اعتراض ہے اور یہ قول بھی (حوالہ نمبر دو) کے زمرے میں آتا ہے لیکن مزید میں اس پرکچھ کہناچاہتا ہوں کہ اگر بعض مجبوریوں کے باعث حج ساقط ہو جاتا ہے تو مرزا کا چندہ کون سا موت کا بلاوا ہے جو کسی مجبوری کے باعث بھی اُس کے مریدوں کے لئے ساقط نہیں ہوتا ۔ ؟

ملاحظہ ہو تصویر کا تیسرا رخ ۔


’’یہ اشتہار کوئی معمولی تحریر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ساتھ جو مرید کہلاتے ہیں ، یہ آخری فیصلہ کرتا ہوں ۔ مجھے خدا نے بتلایا ہے کہ میرا انہیں سے پیوند ہے یعنی وہی خدا کے دفتر میں مرید ہیں جو اعانت اور نصرت(چندہ دینے) میں مشغول ہیں ۔ مگر بہتیرے ایسے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔سو ہر ایک شخص کو چاہیے کہ اس نئے انتظام کے بعد نئے سر سے عہد کر کے اپنی خاص تحریر سے اطلاع دے کہ وہ ایک فرض حتمی کے طور پر اس قدر چندہ ماہواری بھیج سکتا ہے ۔ مگر چاہیے کہ اس میں لاف گزاف نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔اب چاہیے کہ ہر ایک شخص سوچ سمجھ کر اس قدر ماہواری چندہ کا اقرار کے جس کو وہ دے سکتا ہے گو ایک پیسہ ماہواری ہو ۔۔۔۔ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کا چاہیے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ جو شخص کچھ بھی مقرر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلہ کے لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے ، وہ منافق ہے ۔ اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں رہ نہیں سکے گا ۔ اس اشہتار کے شائع ہونے سے تین ماہ تک ہر ایک بیعت کرنے والے کے جواب کا انتظار کیا جائے گا کہ وہ کیا کچھ ماہواری چندہ اس سلسلہ کی مدد کے لئے قبول کرتا ہے ۔ اور اگر تین ماہ تک کسی کا جواب نہ آیا تو سلسلہ بیعت سے اُس کا نام کاٹ دیا جائے گا اور مشتہر کر دیا جائے گا ۔اگر کسی نے ماہواری چندہ کا عہد کر کے تین ماہ تک چندہ کے بھیجنے سے لاپرواہی کی اس کا نام بھی کاٹ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی مغرور اور لاپرواہ جو انصاف میں داخل نہیں اس سلسلہ میں ہرگز نہ رہے گا ۔ ‘‘(مجموعہ اشہتارات ج 3ص468-469)

’’یاد رہے کہ مدرسہ کا قیام اور بقا بھی چونکہ بہت سے مصالح پر مبنی ہے ۔ لہٰذا از بس ضروری ہے کہ حسبِ استطاعت ہر شخص اس کے لئے بھی ایک ماہوار رقم اپنے اوپر لازم کر لے ۔ اور یہ بات میں پھر دوبارہ یاد دلا دیتا ہوں کہ ہر شخص اپنی حالت اور استطاعت کو دیکھ کر چندہ مقرر کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ تھوڑی دیر کے بعد اسے فوق الطاقت بوجھ سمجھ کر ملول ہو جائے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گنہگار ٹھہرے گا ۔ اور اس تجدید اور تعیین چندہ کی سب درخواستیں اخویم مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس آنی چاہیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ صدقات اور زکوۃ اور اس طرح کی ہر ماہ کا روپیہ بھی یہاں آنا چاہیے ۔ (مجموعہ اشتہارات ج 3ص470)

یہاں ایک اہم نوٹ:۔

انبیا ئے کرام علیہم السلام دین کی ترویج و اشاعت اور عوام الناس کی خدمت کرتے ہوئے لوگوں پر بوجھ نہیں بنتے بلکہ سیلف میڈ(Self-Made)ہوا کرتے تھے ۔ وہ تمام کوشش اور کاوش کے بدلے لوگوں سے ایک کوڑی کے بھی روادار نہیں تھے ۔ وہ تو برملا فرمائے جاتے تھے کہ ہم اس دینی اور عوامی خدمت کے صلہ میں آپ سے ایک کوڑی کے بھی طلبگار نہیں سورہ الشعراء میں حضرت نوح،ہود،صالح،لوط اور حضرت شعیب علیہم اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے ہر پیغمبر کی زبان اطہر سے ان الفاظ کا تذکرہ موجود ہے ۔ ’’میں آپ سے اس خدمت کا کوئی بدلہ نہیں چاہتا ۔ بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اجر کا طلب گار ہوں ۔‘‘(الشعراء:109)وہ تو اپنی ذات اور عیال پر صدقہ و زکوٰۃ اور ہر قسم کے معاوضے کو حرام تصور کرتے تھے ۔لیکن مرزا غلام قادیانی کے اس قول پر بھی نظر چاہیے’’ یہ بھی واضح رہے کہ صدقات اور زکوۃ اور اس طرح کی ہر ماہ کا روپیہ بھی یہاں آنا چاہیے‘‘۔


واپس اصل موضوع پر بات کرتے ہیں ۔

مرزا کے اس عمل کو صحیح بخاری کی اس حدیث کے ساتھ ملا کر دیکھو تاکہ حق و باطل میں فیصلہ آسان ہو جائے ۔ ’’(جب عیسیٰ نازل ہوں گے)اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ہوگا ۔ غور کریں کہ یہاں لینے والے موجود ہیں لیکن مسیح خود بھکاری بن کے راستے میں پورے خاندان سمیت بیٹھے ہوئے ہیں ۔


تصویر کا چوتھا رخ بھی ملاحظہ فرما لیں
۔

’’حضرت مسیح موعود(مرزا غلام قادیانی) کے زمانہ میں ایک عرب سوالی یہاں آیا ۔ آپ نے اسے ایک معقول رقم دے دی ۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا (کہ یہ بندہ تو اچھا بھلا تھا اور بھیک کا مستحق نہیں تھا)تو فرمایا یہ شخص جہاں کہیں بھی جائے گا ۔ہمارا ذکر کرے گا خواہ دوسروں سے زیادہ وصول کرنے ہی کے لئے کرے ۔ مگر دور دراز مقامات پر ہمارا نام پہنچا دے گا ۔‘‘(اخبار الفضل قادیان مورخہ 26فروری 1935 ؁ء)

اب سوچ رہا ہوں مرزا اگر سچا انسان  تھا تو اپنی ہی تعلیم پر عمل کیوں نہیں کیا اور جہاں بھی کیا صرف اپنے فائدے کو ہی دیکھ کر کیوں کیا اور ہمیشہ مکروفریب کیوں کیا ۔ ؟ کوئی مرزائی ساتھی ہی رہنمائی فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment