مرزا غلام قادیانی کا حکم و عادل ہونے کا جھوٹا دعویٰ اورمرزائیوں کی دجالی تاویلات ۔
مصنف : مرتضیٰ مہر
جب بھی مسلمان مرزائیوں سے سوال کرتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی نے کس بنا پر احادیث کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا ۔ تو آگے سے جواب آتا ہے کہ وہ حکم تھا اور حکم کا مطلب ہی یہی ہے کہ جس حدیث کو چاہے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے خصوصاً وہ احادیث جو اُس کے شیطانی الہام یا دعویٰ کے مخالف ہیں ۔
مرزا غلام قادیانی کا حکم و عادل ہونے کا دعویٰ بالکل جھوٹ ہے ۔ اور اس میں رتی برابر بھی سچائی موجود نہیں ہے ۔ آئیں میں آپ کو دلائل کی بنا پر ثابت کر کے دکھاتا ہوں کہ کیوں جھوٹا ہے ۔
پہلے واضح ہو کہ حاکم کسے کہا جاتا ہے ۔ ’’حاکم وہ محدث ہوتا ہے جسے جملہ احادیث مرویہ مع متن و سند و جرح اور تعدیل کے ساتھ یاد ہوں اور وہ راویوں کے پورے حالات جانتا ہو ۔ ‘‘
مرزا غلام قادیانی کو تو احادیث کا ہی علم نہیں تھا ۔ اس کے علاوہ وہ احادیث کے اصول سے ہی ناواقف اور جاہل تھا ورنہ وہ نہ تو احادیث گھڑ گھڑ کر پیش کرتا نہ غلط حوالے دیتا اور نہ ہی تاریخی غلطیاں کرتا ۔ مزید یہ کہ اُس نے اصول حدیث کو اپنایا ہی نہیں نہ احادیث کا علم حاصل کیا اُس نے تو اپنے شیطانی کشف و الہام کو ردو قبول کا معیار بنا رکھا تھا پھر وہ حاکم ہونے کا مدعی کیونکر ہو ا صاف بات یہ ہے کہ جھوٹا شخص اپنے بیہودہ منہ سے جو مرضی کہہ سکتا ہے۔ مرزا کے جھوٹا ہونے کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔
1۔اگر حدیث کے بیان پر اعتماد ہے ۔تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے ۔ ۔۔۔جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی ۔ ’’ھذا خلیفۃ اللہ المہدی‘‘اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے ۔ جو ایسی کتاب میں درج ہے ۔ جو ’’اصح الکتب‘‘بعد کتاب اللہ ہے ۔(شہادت القرآن ص 41،خزائن ج 6ص337)۔ (بالکل جھوٹ بخاری شریف میں ایسی کوئی حدیث نہیں)
2۔فاخبر رسول اللہ ﷺ خیر الانام ان الشمس تنکسف عند ظہور المہدی فی النصف من ہذا الایام یعنی الثامن والعشرین قبل نصف النہا‘‘(نور الحق نمبر 2ص 19،خزائن ج 8ص209) (بالکل جھوٹ ایسی کوئی حدیث نہیں ہے اگر کسی کو دعویٰ ہے تو وہ عبارت بالا من و عن کتب احادیث سے نکال دکھائے اور مرزا کے منہ سے لعنت کی سیاہی صاف کر لے ۔)
3۔اور بعض احادیث میں بھی آ چکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہوگی کہ وہ ذوالقرنین ہوگا۔(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 91خزائن ج 21ص118)۔(بالکل جھوٹ )۔
4۔صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان سے اُتریں گے ۔ (ازالہ اوہام ص 81خزائن ج 3ص142)۔(بالکل جھوٹ مسلم میں آسمان کا لفظ نہیں ہے)
5۔حدیث آتی ہے ۔’’یاتی علی جہنم زمان لیس فیہا احد و نسیم الصبا تحرک ابوابہا‘‘۔(حقیقت الوحی ص 189حاشیہ ،خزائن ج 22ص196) ۔(بالکل جھوٹ حوالہ دو ۔)
6۔فارسی حدیث ’’ایں مشت خاک گر نہ بخشم چہ کنم‘‘(حاشیہ حقیقت الوحی ص 189خزائن ج 22ص196)۔(بالکل جھوٹ)۔
7۔حضرت مسیح کے لئے کسی حدیث میں رجوع کا لفظ نہیں آیا ۔ (انجام آتھم ص 151خزائن ج 11ص ایضاً) ۔(بالکل جھوٹ)۔
8۔سلف کے کلام میں مسیح کے لئے نزول من السماء کا لفظ نہیں آیا ۔ (انجام آتھم ص 148خزائن ج 11ص148)۔( بالکل جھوٹ)
صاف دل کو کثرت کاذب کی حاجت نہیں
اک جھوٹ ہی کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار
یہ چند نمونے اس بات کا ثبوت ہیں کہ مرزا غلام قادیانی اپنے حکم ہونے کے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے ۔کیونکہ احادیث پر جھوٹ بولتا ہے ۔
کہتا ہے ۔ ’’اس کا نام حکم رکھا گیا ہے ۔ اسی لئے آثار میں آیا ہے کہ اُس پر کفر کا فتویٰ دیا جاوے گا ۔ کیونکہ وہ جس فرقہ کی باتوں کو رد کرے گا وہی اس پر کفر کا فتویٰ دے گا ۔یہانتک کہا ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا ۔ ان ہذا الرجل غیر دیننا ۔اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے ۔‘‘ (ملفوظات جلد 5ص 32اوّلڈ ایڈیشن)
آثار کا لفظ کم از کم تین صحیح احادیث پر بولا جاتا ہے ۔ سب سے دلچسپ جھوٹ مرزا غلام قادیانی کا یہ ہے ۔ یہانتک کہا ہے کہ مسیح موعود کے نزول کے وقت ہر ایک شخص اُٹھ کھڑا ہوگا اور منبر پر چڑھ کر کہے گا ۔ ان ہذا الرجل غیر دیننا ۔اس شخص نے ہمارے دین کو بدل دیا ہے (کوئی قادیانی جو مرزا کو سچا سمجھتا ہو؟اُس کے منہ سے لعنت کی سیاہی صاف کرے میں جھوٹا سمجھتا ہوں میں نے مل دی ہے ۔ )
فرقوں کی باتیں رد کرنے پر کسی حکم پرآج تک کبھی کفر کا فتویٰ لگا ہے ؟جواب نفی میں آئے گا نفی میں ہونا بھی چاہیے کیونکہ مرزا نے یہاں بھی کذب بیانی اور دھوکا دہی سے کام لیا ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے ۔ دین کے مسائل دو طرح کے ہیں ایک وہ مسائل جن پر امت کا اتفاق ہے دوسری قسم کے مسائل وہ ہیں جن میں اُمت کا اختلاف ہے ۔ مرزا نے اول قسم کے مسائل کو رد کیا جو قطعی اور یقینی ہیں جن پر تمام امت محمدیہ متفق ہے اور ان مسائل میں کوئی اختلاف نہیں جب یہاں اختلاف نہیں تو پھر یہاں کسی حاکم کی ضرورت کیوں کر ہوئی ۔ ؟ یہاں دجال کی لغوی معنوں کے اعتبار سے دھوکا دیتے ہوئے نقشہ دوسری قسم کے مسائل کا کھینچا جو ناقابل قبول ہے اور دجالیت صریح ہے ۔
یہ بات تو معمولی عقل اور فہم والا انسان بھی سمجھتا اور جانتا ہے کہ فیصلہ اُن چیزوں کے بارے میں ہوتا ہے جن میں اختلاف ہو جن اتفاق ہو اُن کا فیصلہ کیونکر ہو سکتا ہے ؟
فرض کریں آپ چار بھائی ہو ۔ اور آپ کے پاس 40 اور 50 مرلے کے دو پلاٹ ہیں ۔ 40 مرلے والے پلاٹ پر آپ کو کوئی اختلاف نہیں ۔کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ چاروں کے حصے میں 10,10 مرلے ہی آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ چاروں کا اختلاف 50 مرلے کے پلاٹ پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ایک شخص کہتا ہے کہ میں حاکم ہوں ۔ اور حاکم وہ ہوتا ہے جو ثبوت و شواہد کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور میں فیصلہ کرتا ہوں۔وہ 50 مرلے کے پلاٹ کا فیصلہ نہیں کرتا ۔ بلکہ وہ 40 مرلے کے پلاٹ پر خود قابض ہو جاتا ہے اور باقی چاروں کو بے دخل کر دیتا ہے ۔ 50 مرلے کا پلاٹ جس پر اختلاف ہے وہ جوں کا توں ہے یعنی اختلاف جوں کا توں ہے ۔ وہ چاروں اُس کے دجل و فریب کو بھانپ لیتے ہیں اور اُسے دجال و کذاب گردانتے ہیں۔ وہ شخص دلیل دیتا ہے کہ ظاہر ہے جب حاکم فیصلہ کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر کوئی اُس سے خوش ہو عدالتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ۔ آپ ایسے حاکم کو کیا نام دیں گے ۔ ؟ دجال ، کذاب ، عیار ، مکار ؟ غرض جو بھی نام دیں یہ مرزا پر صادق آئے گا کیونکہ اُس کا ’’حکم‘‘ ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس مثال میں بیان کیا گیا ہے ۔وہ اُن باتوں میں حکم ہونے کا مدعی ہے جن میں جگھڑا نہیں اور جن میں جگھڑا ہے اُن کے بارے میں کہتا ہے میں ’’استنجے‘‘ کے مسائل سمجھانے نہیں آیا ۔تو پھر کیا تو آم لینے آیا ہے ۔؟
مسلمانوں کے تمام مسلک اس بات پر متفق ہیں کہ محمد ﷺ آخری نبی ہیں ۔ تمام مسلک اس بات پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ اسلام آسمان پر زندہ ہیں اور آخری زمانہ میں آسمان سے تشریف لائیں گے ۔اسلئے جن باتوں میں اختلاف نہیں وہاں اپنے شیطان کو راضی کرنے کے لئے زبردستی خود کو حاکم بنانا اور احادیث کو رد کرنا جب انسان کو مسلمان ثابت نہیں کر سکتا تو حاکم کیسے ثابت کر سکتا ہے جب کہ مرزا کا خود قول موجود ہے کہ اجماع کا منکر لعنتی ہے ۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات اس کو بہت ناگوار گزری ہے
اب ہم مرزا کے دوسرے دعوے یعنی عادل ہونے کے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں ۔
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت نے انہیں (پہلی بیوی کو) کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھوں گا ۔ تو میں گناہگار ہوں گا ۔ اسلئے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو اور میں تم کو خرچ دئیے جاؤں گا انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے ۔میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں ۔ (سیرت المہدی جلد 1ص30)
یاد رہے مرزا کا قول ہے کہ خدا نے اُسے پچاس مردوں کے برابر (مردانہ) قوت دی تھی ۔ لیکن حیرت ہے کہ دو عورتوں کے حقوق پورے نہ کر سکا ۔ اب صاف نتیجہ اوپر والی تحریر کو دیکھ کر نکلا کہ مرزا پچاس مردوں کی طاقت والے دعوے میں بالکل جھوٹا ہے ۔ (اور جھوٹ بولنا گوہ کھانے کے برابر ہے مرزائی شریعت میں) ثبوت کے طور پر ملاحظہ ہو حوالہ ۔
’’ایک ابتلاء مجھ کو اس شادی کے وقت یہ پیش آیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری حالت مردمی کالعدم تھی اور پیرانہ سالی کے رنگ میں میری زندگی تھی اسلئے میری اس شادی پر میرے بعض دوستوں نے افسوس کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک فرشتہ وہ دوائیں میرے منہ میں ڈال رہا ہے ،چنانچہ وہ دوا میں نے تیار کی اور اس میں خدا نے اس قدر برکت ڈال دی کہ میں نے دلی یقین سے معلوم کر لیا کہ وہ پر صحت طاقت جو ایک پورے تندرست انسان کو دنیا میں مل سکتی ہے وہ مجھے دی گئی ۔۔۔۔ اس زمانہ میں اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک بچہ کی طرف تھا ۔پھر اپنے تئیں خداداد طاقت میں پچاس مرد کے قائم مقام دیکھا ۔ (تریاق القلوب ص 35-36خزائن ج 15ص203-204)
ویسے حیرت کی بات ہے کہ کیا مرزا نے پچاس مردوں کا سارا جوش نصرت جہاں بیگم پر ہی آزمانہ تھا ۔ ؟ چلو 49 کا آزما لیتا ایک کا تو اپنی سابقہ بیگم کے لئے رکھ لیتا لیکن خود کو جھوٹا جو ثابت کرنا تھا اسلئے ایسا نہ ہوا ۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر مرزا صرف ایک بیوی کے حقوق ادا کر سکتا تھا تو اُس نے دوسری شادی کیوں کی ۔ ؟ یہ عمل مرزا کا قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے ۔ ’’جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو،دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر سکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفاء کرو ۔ (النساء:3) ‘‘ اب سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ عدل نہیں کر سکا ۔ اُس نے کسی اور کے ساتھ کیا عدل کیا ہوگا ۔ میں بھی سوچتا ہوں اور آپ بھی سوچو ۔ !!!
No comments:
Post a Comment