شادی اور ہمارے معاشرتی و روایتی رسم و رواج !
مصنف : گھمنام
ایک محاورہ ہے کہ " اگر کسی لوفر لفنگے لڑکے کو قابو کرنا ہو تو اس کی شادی کروا دو " لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں عورت کی ہی مظلومیت کا ڈنڈورا پیٹا جاتا ہے . بہرحال ہمارے ہاں دو قسم کے مردوں کی شادیاں ہوتی ہیں ،ایک وہ جو نکمے اور ویلے ہوتےہیں. ،اوردوسرے وہ جو اپنی محنت کی کمائی سے شادی کرتے ہیں. دوسرے قسم کے مردوں کی شادی دیر سےہی ہوتی ہے ، جبکہ پہلے والی قسم کے مردوں سے گھر والے ہی تنگ آئے ہوتے ہے کام تو کرتا نہیں چلو شادی ہی کر دو ہو سکتا ہے شرم آ جائے. بس شادی ہونے کی دیر ہوتی ہے مسٹر لوفر نوکری پر لگ ہی جاتا ہے اور کچھ ڈھیٹ قسم کے ہوتے ہیں باپ کے مال کو مال غنیمت سمجھ کر اڑاتے رہتے ہیں . مزے کی بات تو یہ ہے کہ سکھ اس کی زندگی میں نہیں ہوتا ، بیوی ہر وقت یہی فرمائش کرتی رہتی ہے کہ اپنی کمائی سے کچھ تو مجھے تحفہ دو ، نوک جھوک پر جھٹ سے باپ کی کمائی کا طعنہ بیگم صاحبہ کی طرف ڈرون حملے سے کم نہیں ہوتا !
چونکہ ہمارا شمار محنت کی کمائی سے شادی کرنے والوں میں ہوتا ہے اسلئے ہم نے بھی سوچا کیوں نہ شادی بجٹ پیش کیا جائے یہی بات لے کر ہم وفاقی حکومت والدہ محترمہ کے پاس گئے جو آج کل ہماری شادی کو لئے کافی متحرک نظر آتی ہیں ، ساتھ میں وزراء ﴿بہن، بھائی﴾ اپنے مفت مشوروں سے گواہ چست کا کام سنبھالے ہوۓ تھے.چونکہ گھر میں ہم واحد چشم و چراغ رہتے ہیں جو شادی جیسی آئی ایم ایف کی پاپندیوں سے محفوظ ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان کے ہر فرد نے کان کھڑے کئے ہوۓ ہیں کہ کب شادی کا اعلان ہو گا اور مفت کا لنگڑ یعنی ولیمہ کھانے سے پہلے حاجمولہ سے معدہ کو پاک صاف کرنے کا موقعہ ملے گا!
بہرحال ابھی بجٹ کی بات شروع کی تھی تو سب سے پہلے جو کھپت بتائی گئی وہ تھا کم از کم دو سیٹ طلائی ﴿سونا﴾ کے زیوارت بمعہ وزن . سوچا پوچھ لو کتنے تولے ہو پھر دل میں خیال آیا نہیں رہنے دو کہیں ایسا نہ ہو شادی سے پہلے ہارٹ اٹیک آ جائے اور رشتہ ہی نہ ملے. ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ وزراء کی طرف سے آنے والی دلہن کے لیے عروسی اور دوسرے ملبوسات چوبیس یا تیس کپڑےجوڑے کا تذکرہ شروع ہوا . یہ سنتے ہی سر ہلایا اور تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ تو ظلم ہے پھر بارہ سے سولہ جوڑے جوتے اور جب جوتوں کا ذکر آیا سوچا یہی جوتے شادی کے بعد سر پر پڑنے ہیں یہ تو جتنے کم ہو گے اتنا اچھا ہے. ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھی کہ والدہ نے کہا ہمارا زمانہ اچھا تھا دو جوڑوں میں رخصتی ہو جاتی تھی آج کل تو یہ فیشن ہی ختم نہیں ہوتے. امی کی یہ بات کہنے کی دیر تھی میں نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوۓ کہا کیا فائدہ پچاس ساٹھ ہزار کے لہنگے کا ابھی یہ بات منہ میں ہی تھی تو جواب آیا کہ اگلے کے گھر رشتہ لے کر جانا وہ تجھے بتائے گے کہ لہنگا ہو گا کہ نہیں ! کہتے ہیں اگر لڑکا باہر کا ہو تو پھر ناک نامی مخلوق کا خیال رکھنا ہوتا ہے ایک ناک ہے اور کہاں کہاں پتا نہیں رکھنی ہوتی ہے. ہمارے ہاں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے بے شک پیچھے اونٹ گزر جائے !
بہرحال خرچوں کی لسٹ کے ساتھ ساتھ خاندانی و علاقائی رسمیں بھی پڑھتی جا رہی تھی ، مجھے ایک یہ سمجھ نہیں آتی کہ کسی کے مرنے پر بھی خاندان والوں کو کپڑے دو اور شادی پر بھی ، بدلے میں خاندان والے جو کپڑے لے کر آتے قسم اٹھا لو کسی کام کے نہیں ہوتے. لہذا میں نے امی کو کہا جو بھائی کی شادی پر خاندان والوں نے جو پٹولے ہمیں کپڑے سمجھ کر دیے تھے وہ وہی ردل بدل کر کے دے دینا کم از کم ان کو بھی شرم آئے لیکن پھر وہی ناک آ گئی. یہی باتیں چل ہی رہی تھی تو دل سے دعا نکلی سالیہ نہ ہی ہو تو اچھا ہے ورنہ تو پہلے دن ہی جوتا چپھائی ، دودھ پلائی جیسی فضولیات کے نام سے مفت میں لُٹ جانا ہے ، مجھے یاد ہے بھائی کی شادی پر جب بھائی صاحب رخصتی سے پہلے اپنی بیگم صاحبہ کے پاس بیٹھنے لگے تو دولہا میاں کی سالیوں نے خود صوفہ سے اٹھنے کے لئے خرچہ مانگ لیا. یہ تو شکر ماننا چاہیے بھائی صاحب کومیرا کہ میری شرط نے اس کو دو دو بار جیب خالی ہونے سے بچا لیا تھا.
خیر بجٹ کے بعد ہم نے بھی انشاء الله کہتے ہوۓ کہا کہ اگلے سال ہی شادی کرے گے، اس سال رہنے ہی دو. لیکن گھر والوں کا اصرار ہے کہ اسی سال ہو جائے تو ہماری جان چھوٹ جائے اور اس کی جان پھنس جائے. سادگی کا مطالبہ کیا تو جواب آیا ہم تو کہتے ہیں سادگی سے ہو لیکن اہل محلہ ، اہل خاندان اور جن کے ہاں رشتہ ہو گا وہ کیا کہیں گے،بات وہی آ کر ختم ہوتی کہ ہم اپنی رسوم و رواج سے بغاوت نہیں کر سکتے آج کل جہیز کے خلاف تو سلوگن ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے لیکن دولہا کے ان اخراجات پر کوئی بات نہیں کرتا
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں لیکن لاکھوں نہیں تو کم از کم ہزاروں کی تعداد میں لڑکے بھی ایسے ہیں جو شادی کے اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہر سال اپنی شادی کی خواہش کو اگلے سال حالات بہتر ہونے کی امید میں ملتوی کر دیتے ہیں ۔کتنی دلہنیں ہیں جو بیوٹی پارلر کے مہنگے کاسمیٹکس مہنگے لہگنوں ، طلائی زیورات ،کے خلاف مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہونے کو تیار ہیں. جہیز کی لعنت کے خلاف تو بہت سے نوجوان کھڑے ہو رہے ہیں ، لیکن یہ حقوق نسواں کی چیمپئن کب ان فضول رسموں کے خلاف کھڑی ہو گی جن کے اخراجات مرد کو برداشت کرنے پڑتے ہیں .
نوٹ : یہ کہانی ہمارےمعاشرے کے دوسرے رخ کی عکاسی کرتی ہے ، لہذا لعن طن سے گریز کریں ، میں نے سوچا دوسروں کی مثال دینے کے بجائے خود پر ہی لکھ لیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا . ابھی میری ساس کی تلاش جاری ہے. اگر کوئی انٹی اپنی زندگی میں ساس بننے کی آرزو پورا کرنا چاہتی ہو تو رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسسوس نہ کریں شکریہ
No comments:
Post a Comment