Tuesday, May 13, 2014

ہمارا تعلیمی نظام اور غلامانہ ذہنیت

مصنف:Razi Ullah Khan  

برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی آمد نے سیاست کے ساتھ ساتھ مذہب اور تعلیم کو بھی متاثر کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی میدان میں ایسٹ اینڈیا کمپنی، مذہبی حوالے سے دین اکبری، نام نہاد تصوف اور صوفی ازم کے ذریئعے اور تعلیمی میدان میں لارڈ میکالے اینڈ کمپنی کے ذریئعے نقصان پونہچایا گیا ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ یہاں لارڈ میکالے کے ساتھ لفظ کمپنی لگانے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ لارڈ کے آگے پیچھے اوہ مائی لارڈ اوہ مائی لارڈ کرنے والے اور اسے کمپنی دینے والوں میں اپنے ہی بڑے بڑے نام شامل تھے۔

گورا سامراج نے بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی جس کی اپنی باقاعدہ فوج تھی کے ذریعے سولہویں صدی میں ملکہ ازبتھ اول کے دور میں قدم رکھا اور مصنوعی غذائی قلت پیدا کرکہ خوب نفع کمایا درآمدات اور برآمدات کو کنٹرول کرکہ یہاں کی معیشت کو جکڑ لیا۔ اور رفتہ رفتہ پورے ملک پر قابض ہوگیا۔

موجودہ دور میں بہترین حمکت عملی وہی تصور کی جاتی ہے جس میں جنگ کیئے بغیر ہی مقاصد حاصل کرلیئے جائیں اور اس مقصد کے لیئے تعلیم سے بہتر اور کون سا میدان ہوسکتا ہے۔ لہذاٰ گوارا سامراج نے خطے میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے یہ ذمہ داری لارڈ میکالے کو سونپی جس نے چار سال کے قلیل عرصے میں ہندوستان کے کونے کونے کا دورہ کیا اور پھر 2 مئی 1835 کو ہاؤس آف لارڈز میں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے '' میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو انکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شئے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں''

تاہم وائیسرائے ہند لارڈ مینٹو نے مذہبی تعلیم سے دوری کے لیئے ایک کمیٹی قائیم کی جس کی سفارش پر تعلیم کے لیئے اس وقت کے ایک لاکھ ہندوستانی روپے سالانہ کی منظوری دی گئی۔ اس قانون کا سب سے زیادہ فائیدہ عیسائی مبلغین کو ہوا۔ جو انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دیتے رہے۔ کلکتہ کا اینگلو انڈئین کالج بنارس کا جے نرائین کالج اور آگرہ کالج وغیرہ ان میں سر فہرست رہے۔ جب کے آج بھی پاکستان میں انگریزی کے نصاب میں وہ اسباق شامل ہیں جن میں باقاعہ عیسائیت کی تبلیغ کی گئی ہے۔ ان اسباق میں ''روڈ ڑو دا ایسٹ''، ''مسٹر چپس''، ''اولڈ مین اینڈ دا سٹی(بی اے)''، شامل ہیں۔ اسی طرح ''ریڈ شوز'' نامی سبق میں گرجا گھر کی عظمت بیان کی گئی ہے۔

گورا سامراج یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ انگریزوں نے چونکہ اقتدار مسلمانوں سے ہی چھینا ہے اس لیئے بغاوت کا اندیشہ بھی مسلمانوں کی ہی جانب سے تھا۔ ہندوؤں کے لیئے تو یہ محض آقا اور زبان کی تبدیلی ہے، ہندو پہلے فارسی اور سنسکرت سیکھ کر ملازمتیں حاصل کرتے تھے اب انگریزی سیکھ کر کرنے لگے۔ اس بات کا اعتراف خود انگریز تاریخ دان بھی کرتے ہیں۔ ''ولیم ولسن ہنٹر'' لکھتا ہے ''حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوم میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیئے، مسلمانوں کی روایات کے بلکل خلاف اور ان کی ضروریات کے غیر مطابق ہے بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے'' (از ولیم ولسن ہنٹر، آئی سی ایس آفیسر بنگال، مترجم ڈاکٹر صادق حسین، صفحہ نمبر 334)۔

اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک طبقہ فکر نے اس نطام کو قبول کرنے میں زرا بھی دیر نہی لگائی اور نہ صرف نظام کو قبول کیا بلکہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری میں نظام کی وکالت بھی کی۔ اس نظام کے حق میں سرسید نے جو تمہیدی کلمات باندھے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ سرسید کہتے ہیں '' ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی ترقی کے علوم میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے بلکہ دھوکے میں ڈالنا ہے'' سرسید نے صرف اس پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ وہ لارڈ کے سحر میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اللہ تعالی کے واضح احکامات کو پس پشت ڈال کر کہتے ہیں ؛؛ہم لارڈ میکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھا دیا تھا''

زبان علوم فنون سیکھنے اور اس کے ابلاغ کا ذریئعہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے اپنی قوم کو اسی ہی کی زبان میں تعلیم دی اور احکامات الہیٰ کی تبلیغ کی۔ یہ ایک آفاقی خدائی اور پیغمبری اصول ہے کہ تعلیم و تدریس لوگوں کی مقامی زبان میں ہی کی جائے اور جب اس آفاقی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو لارڈ میکالے کے مقاصد کی تکمیل شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ہندوستان میں ہوا جہاں لارڈ میکالے کے نظام نے جلد ہی رنگ دکھانے شروع کردیئے اور نتیجتا سرسید کے وہ رفقاء جنہوں نے علی گڑھ میں ان کے ساتھ کام کیا تھا وہ بھی اس نظام سے بدظن ہوگئے۔






علامہ شبلی، مولوی محمد سمیع کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں ''معلوم ہوا کہ انگریزی خواں فرقہ نہایت مہمل فرقہ ہے، مذہب کو جانے دو خیالات کی آزادی، بلند ہمتی، ترقی کا جوش برائے نام نہیں آتا، بس خالی کوٹ پتلونوں کی نمائیش گاہ ہے''

مولوی عبدلاحق بلوچستان ٹیچرز ایسوسی ایشن سے خطاب میں کہتے ہیں ''اہل حکومت صاف کہتے تھے کہ ایک قوم کو بزور شمشیر فتح تو کیا جاسکتا ہے لیکن ایسے میں نفرت کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہے اس خطرے سے بچنے کے لیئے ایک ہی تدبیر ہوسکتی ہے کہ اہل ہند کو فاتح تہذیب و تمدن میں ڈھال لیا جائے۔ اور یہ تہذیبی فتح انگریزی زبان کی تعلیم کے ذریئعے ہی ممکن ہے''

بقول مشہور ماہر تعلیم اشتیاق حسین قریشی ''ہمیں اس سے قطعا کوئی تعلق نہیں کہ ہماری اولاد کافر اٹھے گی، بےدین اٹھے گی یا کیا اٹھا گی، ہمیں محض اس چیز سے تعلق ہے کہ جب ہمارا بیٹا کسی انٹرویو میں جائے گا تو انگریزی اس طرح بولے گا کہ انگریز کا وہ جانشین جو کرسی پر موجود ہو اس سے مرعوب ہوجائے گا''

''مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مغربی علوم کے ساتھ اسلامیات یا دینیات کی پیوندکاری کو مضر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ایک طرف آپ ایک طالب علم کو تمام دنیوی علوم اس طریقے سے پڑھاتے ہیں کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ بے خدا ہے اور خدا کے بغیر چل رہا ہے اور خوب کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ جو علم بھی وہ پڑھتا ہے، اس میں اسے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتاکہ اس کارخانہ دنیا میں یا کارخانہ زندگی میں کہیں خدا کا کوئی مقام ہے، کہیں رسول کامقام ہے، کہیں وحی کی حاجت ہے! سارے کے سارے نظامِ زندگی کو وہ اسی نکتہ نظر سے دیکھتا ہے!!

اس کے بعد یکایک آپ اسے دینیات کی کلاس میں لے جاکر اس کو بتاتے ہیں کہ خدا بھی ہے، رسول بھی ہے، وحی بھی آتی ہے اور کتابیں بھی آتی ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ دنیا کے مجموعی تصور سے الگ اور بالکل بے تعلق کرکے یہ اطلاق جو آپ اس کو دے رہے ہیں، اس کو اس مجموعے میں آخر کہاں نصب کرے گا؟ کس طرح آپ کو طالب علم سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ کائنات اور زندگی کے بے خدا تصور کے ساتھ، دینیات کی یہ پوٹلی جو آپ الگ سے اس کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں، اسے وہ کھول کر روز کے روز اپنے دوسرے اجزاے علم کے ساتھ ترکیب دیتا رہے گا اور خود بخود اپنے ذہن میں ایک باخدا تصور مرتب کرتا رہے گا؟"

پھر اس نظامِ تعلیم کے بارے میں خود قائداعظم نے یہ بات کہی تھی کہ

"ہمارے نظامِ تعلیم میں عرفانِ خدا کا تصور نہیں، منزلِ مقصود متعین نہیں اور معنوی بصیرت کا سرے سے فقدان ہے۔" (ہمارا نظامِ تعلیم از پروفیسر سعید اختر: صفحہ ۱۱۴،۱۱۵)

آخر کیا وجہ ہے کہ آج بھی ملک عزیز میں وہ طبقہ فکر نظر آتا ہے جسے خود کومسلمان کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، جسے تاریخ اسلام میں فقط صحابہ کرام کے اختلافات اور جنگ و جدل نظر آتا ہے، اسلامی قوانین ظلم و جبر معلوم ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وہ امریکہ کہ جس نے محض تین دن میں ڈھائی لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اپنا ہیرو گردانتے ہیں، تارخ انسانی کے سب سے مہلک ہتھیاروں کے موجد انہیں اپنے محسن دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خود فریبی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کا آغاز اس خطے میں سرسید نے کیا تھا۔ یہ ذہنی غلامی کا تحفہ بلاشبہ لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام ہی کی دین ہے۔ وہ اس قوم کو جو دینا چاہتا تھا وہ دے کے جا چکا۔ اور ہمارے دانشور آج بھی میکالے کی قبر پر اگر بتیاں لیئے بیٹھے ہیں اور اپنے محسن کی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا

No comments:

Post a Comment