Wednesday, September 24, 2014

مرزا کی غیرت ، اور بیوی کا پردہ نہ کرنا

مرزا کی غیرت ، اور بیوی کا پردہ نہ کرنا

مصنف :مرتضیٰ مہر
 

مرزا پردے پر دلیل دیتے ہوۓ :

آج کل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اِسلَامِی پَردَہ سے مُراد زِندان نہیں ۔ بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے ۔ جب پردہ ہوگا ۔ ٹھوکر سے بچیں گے ۔ ایک مُنصف مزاج کہہ سکتا ہے ۔ کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلاتامل اور بے محابامل سکیں ۔سیریں کریں ۔ کیونکر جذبات نفس میں اضطرارًا ٹھوکر نہ کھائیں گے ۔ بسا اوقات سننے او ر دیکھنے میں آیا ہے ۔ کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہا رہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو ۔ کوئی عیب نہیں سمجھتیں ۔ (تو آپ کون سا سمجھتے ہیں: راقم ) یہ گویا تہذیب ہے (اُن کی تہذیب ہے اور آپ کا انگریزی اسلام ہے ورنہ بھانوسے خدمت چہ معنی: راقم ) انہی بد نتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی(پھر آپ کونسے شارع کی تعلیم پر عمل کرتے تھے جب غیر محرم عورتوں کو تبرک دیتے تھے: راقم ) جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں ۔ ایسے موقعہ پر یہ کہدیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد و عورت ہر دو جمع ہوں ۔ تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے (تو ٹھیک کہا تھا آپ کے ساتھ تیسرا شیطان تھا: راقم  ) ۔اُن ناپاک نتائج پر غور کرو ۔جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے ۔ بعض جگہ بالکل قابلِ شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جا رہی ہے ۔ یہ انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔ اگر کسی چیز کو خیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو ۔ لیکن اگر حفاظت نہ کرو ۔ اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں (جیسے کہ مرزائی کہیں گے لیکن کیا فائدہ جب مردود نے خود ہی تردید کر دی ایسی تاویل کی: راقم ) تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہوگی ۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مرد و عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا ۔ (تو پھر آپ نے کس اسلام کی تعلیم پر عمل کیا: راقم  ) اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی ۔ (ملفوظات جلد 1ص34)

مرزا اپنی اوپر دی گئی  دلیل  اور قرآن و حدیث کی ا س تعلیم کے برخلاف مرزا کا عمل کچھ یوں ہے ۔

 
بیان کیا نورالدین خلیفہ اول نے کہا کہ ایک دفعہ مرزا قادیانی کسی سفر میں تھے اسٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی مرزا قادیانی بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگ گئے ۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی ۔میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں ۔ آپ مرزا قادیانی سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔ مولوی صاحب نے کہا میں تو نہیں کہتا (کیونکہ میں مرزا کی بے حیائی سے خوب واقف ہوں:راقم) آپ کہہ کر دیکھ لیں(آپ کو بھی پتہ چل جائے گا:راقم) ناچار مولوی عبد الکریم خود مرزا قادیانی کے پاس گیا اور کہا کہ اے مرزا قادیانی لوگ بہت ہیں بیوی کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں ۔ مرزا قادیانی نے کہا کہ جاؤ جی میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبد الکریم سر نیچے ڈالے میری طرف آئے ۔ میں نے کہا مولوی صاحب جواب لے آئے ۔ ؟ (سیرت المہدی حصہ اول،صفحہ63)

قابلِ غور بات ۔ کوئی بھی غیرت مند اپنی بیوی کے لئے بڑی غیرت کا جذبہ رکھتا ہے ۔

یہاں ایک تاریخی واقعہ بیان کر رہا ہوں جس سے غیرت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ حضرت سیدنا ابو عبداللہ محمد بن احمد بن موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے ۔ ایک مرتبہ میں ’’رے‘‘ (ایران کے دارالخلافہ موجودہ نام تہران) کے قاضی موسیٰ بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ کی محفل میں تھا ۔ قاضی صاحب لوگوں کے مسائل حل کر رہے تھے اتنے میں ایک عورت ان کے پاس لائی گئی اس کے سرپرستوں کا دعویٰ تھا کہ اس عورت کے شوہر نے اس کا پانچ سو دینار مہر ادا نہیں کیا جب اس کے شوہر سے پوچھا گیا تو اس نے انکار کر دیا اور کہا :’’ مجھ پر مہر کا دعویٰ بے بنیاد ہے ‘‘ شوہر کے انکار پر قاضی صاحب نے عورت سے گواہ طلب کئے گواہ حاضر کئے گئے تو ان میں سے ایک نے کہا :’’ میں اس عورت کو دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ اسے پہچان کر گواہی دوں۔‘‘ چنانچہ وہ عورت کی طرف بڑھا اور کہا :‘‘ تم اپنا نقاب ہٹاؤ تاکہ تمہاری پہچان ہو سکے ۔ ‘‘ چنانچہ وہ عورت کی طرف بڑھا اور کہا:’’ یہ شخص میری زوجہ کے پاس کیوں آیا ہے۔؟‘‘ وکیل نے کہا:’’ یہ گواہ تمہاری زوجہ کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہے تاکہ پہچان ہو جائے‘‘ ۔ یہ سن کر غیرت مند شوہر پکار اُٹھا؛’’ اس شخص کو روک دو۔میں قاضی صاحب کے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ جو دعویٰ میری زوجہ نے میرے پر کیا ہے وہ مجھ پر لازم ہے میں پانچ سو دینار ادا کرنے کو تیار ہوں ۔ خدارا! میری زوجہ کا چہرہ کسی غیر مرد پر ظاہر نہ کیا جائے ۔ ‘‘ چنانچہ گواہ کو روک دیا گیا جب عورت نے اپنے غیرت مند شوہر کا یہ جذبہ دیکھا تو کہا سب گواہ ہو جاؤ میں نے اپنا مہر معاف کر دیا ۔ میں دنیا و آخرت میں اس مہر کا مطالبہ نہ کرونگی یہ مہر میرے غیرت مند شوہر کو مبارک ہو ۔ ‘‘(عیون الحکایات)

لیکن مرزا والے معاملے میں چھوٹے چیلوں کی غیرت نے تو جوش کھایا لیکن مرزا جسے غیرت آنی چاہیے تھی نہ آئی غیرت ہوتی تو آتی ۔ نہ کبھی اسے اپنی عورتوں کے لئے غیرت نصیب ہوئی اور نہ دوسری عورتوں کے لئے ۔ایک اور مزے کی بات مرزا کی بات ساری مرزائی اُمت جسے ماما جان کہہ کر پکارتی ہے ۔حکیم نورالدین اُسے بیوی صاحبہ کہہ کر بات کرتا ہے ۔ (عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے)۔

 
نیچے والی عبارت کو بھی اوپر بیان کردہ واقعہ کے ساتھ ملاؤ اور مرزا کی غیرت کو ناپ لو ۔

  ’’بیوی صاحبہ مرزا جی کے مریدوں کو ساتھ لے کر لاہور وغیرہ سے کپڑے بھی خود ہی خرید لایا کرتی تھیں ۔‘‘(کشف الظنون مرتبہ ڈاکٹر بشارت احمد صفحہ 88)۔

سچا نبی اُمت میں غیرت پیدا کرتا ہے لیکن قادیانی نبی کے گھر میں ہی بے غیرتی کے کئی جھنڈے لہرا رہے ہیں 

’’راوی ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ (مرزائی اُمت کی ماما اور حکیم نورالدین کی بیوی صاحبہ) نصرت جہاں بیگم نے ایک دن سنایا کہ حضرت مرزا قادیانی(لعنت اللہ علیہ) کے ہاں ایک بوڑھی عورت ملازمہ مسماۃ بھانو تھی ۔ وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑ رہی تھی ۔ مرزا قادیانی کو دبانے بیٹھی چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی ۔ اسلئے اسے یہ پتا نہ لگا کہ جس چیز کو میں دبا رہی ہوں ۔ وہ حضور کی ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت (لعنت اللہ علیہ) صاحب نے فرمایا ، بھانو آج بڑی سردی ہے ۔ بھانو کہنے لگی ۔ ہاں جی تدے تے تہاڈی لتاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں ایں۔ یعنی جی ہاں اسی لئے تو آج آپ کی ٹانگیں لکڑی کی طرح سخت لگ رہی ہی ہیں ۔(سیرت المہدی ، جلد دوئم، صفحہ 210)۔ 

کوئی بھی غیرت مند ور قرآن و سنت کو ماننے والا غیرمحرم عورت کے ساتھ رات نہیں گُزارتا ۔اور اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اُس کی بیوی نصرت جہاں ، بیٹا بشیر ، بھانو یہ سب بے غیرت ، بے حیا ، بے شرم ہیں کیونکہ کوئی بھی غیرت مند عورت ، غیر عورت کو خلوت میں اپنے خاوند کے ساتھ پسند نہیں کرتی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خدمت کا وقت بھی خاص رات کا ، خادمہ بھی خاص بھانو ، جسم کا حصہ بھی خاص نیچے والا ۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی کا گھر بے حیائی اور بے غیرتی کا کا مرکز ہی نہیں بلکہ کنجروں کا کوٹھا تھا ۔ اسلام توکہتا ہے کہ بوڑھے لوگوں کی خدمت کرنی چاہیے ایسے بے شمار واقعات اسلامی تاریخ سے مل جائیں گے ۔ لیکن مرزا قادیانی وہ بے رحم بے غیرت اور بے ضمیر شخص تھا جو بوڑھی عورت سے رات کو ٹانگیں دبوایا کرتا تھا ۔ جب کہ گھر میں جوان لڑکے موجود ،بیوی موجود ، نوکر موجود ، پھر غیر محرم عورت سے وہ بھی بوڑھی عورت سے وہ بھی رات کو خدمت کروانا کسی چھوٹے موٹے بے غیرت کا کام نہیں ہو سکتا پھر رات کی تنہائی میں یہ کہنا کہ بھانو آج تیری حس کمزور ہو رہی ہے ۔ ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ یہ جملہ ’’تیری حس کمزور ہو رہی ہے‘‘ مرزا کی بے حیائی اور گندی ذہنیت پر دلالت کرتا ہے ۔ اب ان سب باتوں سے قطعہ نظر میں ایک سوال اُمت قادیانی سے کرتا ہوں کہ مرزا نے خود اپنی ہی تعلیم پر عمل کیوں نہیں کیا ۔ ؟

 

No comments:

Post a Comment