حدیث معراج پر اعتراضات
ترتیب : جانی اعوان
معراج کا واقعہ اور اس موقعہ پر نماز فرض ہونے کا ذکر اس قدر مشہور ہے کہ اسے درج کرنے کی بھی ضرورت نہیں حدیث کا حوالہ یہ ہے
صحیح بخاری ۔کتاب الصلوٰ۔ باب: اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟ ۔حدیث نمبر : 349
۔اس حدیث پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث کسی یہودی کی گھڑی ہوئی ہے جس نے حضرت موسیؑ کی شان کونبیﷺ سے بنلد کر کے دکھایا ہے کیونکہ موسیؑ سے نبیﷺ نے نمازیں کم کرنے کے بارے میں استفادہ کیا ہے۔
جواب:اگر حدیث کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ اعتراض آتا ہے تو قرآن کی یہ ایت پڑھئے۔۔
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ (سورہ البقرہ:٢٥٣)
ترجمہ: یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے ۔
تو پھر اس ایت کے معتلق کیا خیال ہے کہ یہ بھی معاذاللہ کسی یہودی یا عیسائی کی یا ان دونوں کی مشترکہ وضع کردہ ہے۔
اس ایت میں کلیم اللہ موسیؑ ہے جو اس لحاظ سے نبیﷺ سے افضل ہوئے۔
عیسیؑ کو جو بالخصوص بینات دینے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے یہ بینات ان بینات سے الگ ہے جو ہر پیغمبر کو دی جا تی ہے۔ اور وہ مردوں کو زندہ کرنا۔مٹی کی مورتوں میں پھونک کر انہیں زندہ جانور بنا دینا وغیرہ ہے۔اور یہ معجزات ھمارے پیغمبر کو نہیں دئے گئے تھے لہزا اس لحاظ سے افضل ہوئے۔
غالباً اس طرح کی آیات پیش کر کے کرسچن مشنریز قرآن سے ثابت کرنے کو کوشش بھی کرتے ہے کہ ان کے پیغمبر زیادہ افضل ہے۔
آپﷺ کا ارشاد ہے کہ "انا سید ولد آدم ولا فخر" میں تمام بنی آدم کا سردار ہو مگر اس پر فخر نہیں کرتا۔لیکن اس کے باوجود آپ نےبعض مقامات پر امبیاء کے بارے میں اس طرح بھی فرمایا "لا تفضلونی علی یونس بن متی" مجھے یونس ؑ بن متی پر بھی فضیلت نا دو۔
اللہ تعالی نے بعض امبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے مگر کلی فضیلت نبیﷺ کو حاصل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پیغمبر پر جزوی فضیلت حاصل نہیں ۔
ظاہری معنی لے کرئی کوئی بھی اعتراض کر سکتا ہے اور اس طرح کے اعتراضات سے قرآن بھی نہیں بچ تا پھر۔
دوسرا اعتراض اس حدیث پر یہ ہے پہلے اللہ نے پچاس نمازیں فرض کر دی نا اللہ کو علم ہوا اور نا اللہ کے رسولﷺ کو کہ اتنا بڑا بوج امت برداشت نہیں کر سکتی۔اگر موسیٰؑ پیج میں نا پڑتے تو امت پر پچاس نمازیں فرض ہو جاتئ اور یہ امت صبح سے لے کر شام تک صرف نماز ہی پڑھتی رہتی۔ نا کما سکتی نا کھاسکتی یہ تو موسیؑ کی عقل کی داد دی جئے۔۔۔۔۔
در حقیقت یہی وہ اعتراض ہے جس پر منکرین حدیث کے اعتراض کی عمارت کھڑی ہے زرا ملا حظہ کی جئے کہ اس عمارت کی بنیاد مضبوظ بھی ہے یا نہیں۔۔۔
جواب: بات در حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کو تو پتا تھا کہ پچاس وقت کی نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔مگر احسان وکرم کرنامقصود تھا بوج ڈال کر پھر اس کو کم کر دینے میں جو لطف وکرم ہے اسے کچھ وہی لوگ محسوس کر سکتے ہے جن کو اس کا کچھ تجربہ ہو یا جو علم نفسیات میں ماہر ہو قصور کو معاف کرنا دل کو خوش کرتا ہے۔۔اس میں معاف کرنے والے کا تحمل اور اس کی شان عالیہ کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی بھی قصور معاف کر کے خوش ہوتا ہے۔اور بندوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے قصور معاف کروائیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (سورہ الذمر:53)
ترجمہ: (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے۔
ایک ور جگہ فرمان باری تعالی ہے۔
يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(سورہ البقرہ:185)
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے وہ تم سے سختی نہیں کرنا چاہتا۔
اس طرح بوج ہلکا کرنا بھی اللہ کو پسندیدہ ہے لیکن بندو سے کہتا ہے تم کہو۔اے اللہ ھم پر زیادہ بوجھ نا ڈالنا مثلاً
ارشاد باری تعالی ہے۔
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ(سورہ البقرہ :286)
اے ہمارے رب ہم پر ایسابوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو۔
بات صاف ہے کہ اللہ تعالی خد ہی ایسا فیصلہ نہیں دینا چاھتا جو دشوار ہو بلکہ وہ تو آسانی چاھتا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی چاھتا ہے کہ بندے التجا کریں اور میں تخفیف کرو اور اسی لئے اس نے ھمیں یہ دعا سکھائی۔نمازوں میں تخفیف بھی اسی بنا پر بندے کی التجا پر واقع ہوئی۔
چلتے چلتے اس اعتراض کا جواب قرآن سے بھی سنتے جائے۔ موسیؑ کو نبی بنایا جاتا ہے وہ درخواست کرتے ہے۔
وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ 29ۙهٰرُوْنَ اَخِي 30ۙاشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ 31ۙوَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ 32ۙسورہ الطہٰ
ترجمہ:اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے۔ یعنی میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) کو۔تو اس سے میری کمر کس دے۔ اور اسے میرا شریک کار کر دے۔
بلکہ صاف صاف اس طرح دعا کرتے ہے۔
وَيَضِيْقُ صَدْرِيْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِيْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ (سورہ الشعراء:13)
ترجمہ: اور میرا دل تنگ ہوتا ہے اور میری زبان رکتی ہے تو ہارون کو حکم بھیج کے میرے ساتھ چلیں۔
کیا آپ کہ سکتے ہے موسیؑ اس کام کو انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اور یہ بات اللہ تعالی کو پہلے سے معلوم نہیں تھی ۔جب موسیؑ نے توجہ دلائ تب اللہ تعالی کو بھی پوش آیا نعوذباللہ کہ واقعی یہ کام اکیلے ان کے بس کی بات نہیں۔ لہزا ہارونؑ کو بھی رسول بنا دیا ۔ارشادی باری ہے۔
قَالَ قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى (سورہ طہٰ:36)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: موسیٰ! جو کچھ تم نے مانگا وہ تمیہں دیا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں اس طرح کی متعدد مثالیں دی جا سکتی اور جب اس قسم کی باتوں سے قرآن پر بھی اعراض آسکتا ہے ۔۔ تو حدیث پر اعتراض کیو ؟
ایک اور مثال ملاحظہ کی جئے۔۔۔
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ (سورہ النفال :65)
ترجمہ: اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر والے ہونگے، تو وہ سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم ایک سو ہونگے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گےاس واسطے کہ وہ بےسمجھ لوگ ہیں۔
اس آیت میں ایمان کی پختگی کا معیار یہ بیان کیا ہے کہ ایک مسلمان کو 10 کافروں پر غالب آنا چاھئے لیکن اگلی ہی آیت میں فرمایا
اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ
ترجمہ: اب تخفیف فرمادی اللہ نے تم سے، اور اس نے دیکھ لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو ہوں گے صبر والے، تو وہ غالب آجائیں گے دو سو پر، اور تم میں سے ایک ہزار ہوں گے (اسی شان کے) تو وہ غالب آجائیں گے دو ہزار پر، اللہ کے اذن (وحکم) سے، اور اللہ بہرحال ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے۔
اب دیکھئے یہ دونوں آیتے سورہ النفال کی ہے اور متصل ہے۔ پہلی میں معیار نسبت 10:1 ہے۔ پھر ساتھ ہی اس میں تخفیف کر دی کہ یہ نسبت 2:1 رہ گئی اب اعتراض تو قرآن پر بھی آگیا کیا اللہ کو پہلے سے نہیں پتا تھا کہ کہ ایک مسلمان کتنے کفار کا مقابلہ کر سکے گا بعد میں نعوذباللہ اسے مشاہدہ سے پتا چلا؟ کہ ایک مسلمان 10 کا نہیں بلکہ 2 کا مقابلہ کر سکے گا۔سوال یہ ہے کہ پہلے ایسا حکم دیا ہی کیو گیا تھا ؟ دو الگ الگ معیار اس طرح کے اعتراض کر کے کوئی کہ دے کہ یہ کوئی سازش ہوئی ہے قرآن مین ؟ اس کا پھرکیا کیا جا سکتا ہے۔
بات یہاں بھی وہی ہے۔ یہاں بھی اصول لطف و کرم جلوہ فرما ہے۔ یعنی زیادہ بوجھ ڈال کر ہلکا کر دینا اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ اس طرح وہ اپنے بندوں پرحم خردانہ کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔کیا ان آیات پر اعتراض کیا جا سکتا ہے اگر نہیں تو پھر حدیث کا کیا قصور ہے ؟
تیسرا اعتراض اس حدیث پر یہ ہے کہ جب آخر میں پانچ نمازیں رہ گئی تو اللہ تعالی نے فرمایا "ما یبدل القول لدی" میرے ہان بات نہیں بدلا کرتی حالنکہ بات کہی بار بدلی۔پہلے پچاس فرض ہوئی پھر چالیس کم ہوتے پوتے پانچ رہ گئی۔ پھر بات تو کہی بار بدلی۔ در اصل یہاں القول سے مراد نہ نمازوں کی تعداد ہے اور نا احکام شریعت بلکہ یہاں القول سے مراد حسنات کا وہ اٹل قانون ہے جسے اللہ نے یوں خد فرمادیا۔
مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا(سورہ النعام:160)
ترجمہ:جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے۔
چنانچہ اس روایت میں "ما یبدل القول لدی" کی وضاحت بھی ان الفاظ میں موجود ہے" وھی خمسن وھی خمسون" یعنی ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاز نمازوں کے برابر ہی ملے گا۔
قارئین کرام ان تمام گزارشات سے یہ بات ثابت ہے کہ حدیث پر کوئی اعتراض ثابت نہیں ۔ پھر اس ثابت شدہ حدیث پر تنقید لکھ کر صفحے کالے کرنا سوائے عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ کیا ہے۔ کچھ منکرین حدیث کو ھم نے دیکھا وہ صرف چند اعتراض لکھتے ہے اور باقی فضول میں اپنے مضمونوں کو طول دیتے ہے کہ دنیا کے ثامنے ان کی جھوٹی علمیت ثابت ہو جائے۔۔ جبکہ حدیث ہر ایک اعتراض سے پاک ہے الحمداللہ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ھمیں صحیح معنوں میں سنت نبویﷺ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطاء کرے آمین۔
استفادہِ جواب :دفاع حدیث پر لکھی جانی والی مختلف کتب
جزاک اللہ خیرا۔
ReplyDelete