ہم کہاں چُوک گئے
مصنف : گھمنام
کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایم بی اے کرنے کا رجحان کافی زیادہ تھا ،جب ایم بی اے کا رجحان شروع ہوا تو ہر لڑکے اور لڑکیوں نے ایم بی اے کرنا لازم سمجھا. چاہے وہ ذہنی طور پر ایم بی اے کرنا چاہتا تھے یا نہیں لیکن پھر بھی رٹے لگا لگا کر ایم بی اے کرتے رہے ، آج پاکستان میں پڑھے لکھوں میں اگر سب سے زیادہ کوئی بے روزگار ہے تو وہ ایم بی اے پاس . رٹے سے پاس ہونے والے سٹوڈنٹ پیشہ وارانہ مہارت حاصل نہ کر سکے کیونکہ کتابیں تو کسی بھی شعبے کا صرف تسلسل سیکھاتی ہیں نہ کہ تجربہ. بلکل اسی طرح مسلمان گھرانوں میں ہر کوئی اپنے بچے کو حافظ قرآن بنانا چاہتا تھا اور ہے بھی ، لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کے حافظ قرآن بچے کو قرآن کی سمجھ ہونا کتنی ضروری ہے ، پاکستان میں ہر آدھے کلومیٹر پر مسجد ہے ،وہاں امام کی بھی ضرورت ہوتی ہے . چونکہ مساجد کا نظام زیادہ تر اہلِ محلہ کے ریٹائرڈ افسران کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو کہ نہ ہی دین کا کامل علم رکھتے ہیں اور نہ امام کے کردار کی اہمیت سمجھتے ہیں.اور یہی لوگ مسجد کا امام مقرر کرتے ہیں جو اہلِ محلہ کے بچوں کو دین کی تعلیم دیتا ہے. ہر کوئی مسجد کے اس امام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا کوئی مولوی صاحب کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی مولانا صاحب . بس یہاں پر آ کر ہم چوک جاتے ہیں کیونکہ نہ ہی ہم اس حافظ کا کردار دیکھتے ہیں اور نہ اس کے علم کو، پھر وہی امام اپنے نفس کا شکار ہو کر ایسی حرکت کر جاتا ہےجس سے اسلام اور مسجد کی بدنامی ہوتی ہے، ہر کوئی پھر اسلام اور مسجد کو کوستا ہے. پھر اس کابُرا اثر عام فہم رکھنے والے مسلمان پر پڑتا ہے اور وہ دین سے بے زار ہو جاتا یا دین سے بھاگنے لگتا ہے، اور رہی سہی کثر ہمارا میڈیا اور آج کل اینٹی اسلامک ویب سائٹ پورا کر دیتی ہیں، پس اسی طرح ہمارے پاکستان میں بہت سے حافظ قرآن ایسے بھی جنہوں نے حفظ تو کیا ہوا لیکن وہ قرآن کا مطلب نہیں سمجهتے، اور روزگار کے طور پر کسی بھی مسجد میں امام کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں .
لیکن اگر آپ کسی ایسے ایم بی اے کرنے والے سے ملے جو ایم بی اے کی اہمیت کتابوں کے تسلسل کے علاوہ اس کے عمل درآمد کو بھی سمجھتا ہو یقینا آپ متاثر ہو گے اور کوئی بھی کمپنی اس کو نوکری کی پیشکش کرے گی ،بلکل اسی طرح آپ ایسے ہی حافظ قرآن سے ملے جو قرآن کی آیات کو اچھی طرح سمجھتا ہو گا اور وہ اپنی گفتگوں میں آیات سے اقتباس بھی لے گا اور اس کا عملی مطلب بھی بیان کرے گا.جو دین کو بھی سمجھتا ہو گا. اسلئے ہم اپنے بچوں کو حافظ قرآن تو ضرور بنائے لیکن قرآن کے مطلب سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بھی تلقین کریں.
No comments:
Post a Comment