Tuesday, July 22, 2014

مرزا غلام احمد قادیانی اور اللہ کے وصف

مرزا غلام احمد قادیانی اور اللہ کے وصف:

مصنف :گھمنام

مرزا غلام احمد قادیانی کی اکثر تحریروں كو ديكها جائے تو معلوم هوتا هےكہ وه خود اپنی ذات کے مرکز میں ہی گھومتا رہا ، بہت سے پہلؤوں پر یہ ایسی بات لکھ جاتا تھا جس کا شاید اس کو خود بھی علم نہ ہوتا تھا ، جب آپ اس ذات باری تعالیٰ کا وصف بیان کر رہے ہوں جو ہر چیز کا خالق اور اس پر غالب ہے . تو سب سے اہم ہوتا ہے لفظوں کا انتخاب کرنا ، ادب احترام وتقدس كا خاص خيال کا خاص خیال رکھا جاتا ہے. مرزا کی کتابیں الله کی کتاب نہیں ہیں. لیکن پھر بھی بہت سی جگہ پر مرزا اپنی تحریر کو الله سےمنسوب کر دیتا تھا. مرزا کی ہر کتاب میں بہت سے ایسے مکالمے پیش کیے گئے ہیں ، جیسے الله کی ذات مرزا سے مخاطب ہو رہی ہو. بلکل اسی طرح مرزا نے کچھ مکالمے اپنی کتاب تجلیات الہیہ میں لکھے ہیں.

 ،روحانی خزائن جلد ٢٠ کے پہلے ہی صفہ کا ٹائٹل کچھ اس طرح ہے .

 " پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا کی پیشگوئی . جس کے الفاظ یہ ہیں چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کے پانچ بار"

 اب کیا اس کے ٹائٹل سے لگ رہا کہ یہ کتاب الله کی نازل کردہ ہے ؟ جس میں الله نے اپنی پیشگوئی لکھوائی ہو ؟ اللہ کی ذات پیشگوئیاں کرتی ہے، یا خبر دیتی ہے ؟ خیر اس کتاب پر تفصیلی بحث بہت جلد لکھی جائے گی ،اور ان پانچ زلزلوں کی پیشگوئیوں کا جائزہ بھی لیا جائے گا ، لیکن اسی کتاب سے ہمارا آج کا موضوع سخن ہے ،

 الله کے اوصاف : روحانی خزائن جلد ٢٠ صفہ ٣٩٦ ( کتاب : تجلیات الہیہ ) مرزا لکھتا ہے :

"وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے . وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا "


سب سے پہلے اس پورے جملے میں غور کیا جائے تو ٢ باتیں سامنے آتی ہیں .

١. وہ فرماتا ہے ، یعنی الله کا فرمان ( تو کیا مرزائیوں کے نزدیک یہ فرمان حدیث قدسی ہے ؟)

 ٢ چوروں کی طرح پوشیدہ : یعنی الله کا وصف ، صفت ، چوروں سے تشبیہ دی گئی ہے .

 اب ان دوباتوں میں فرمانے والا بھی الله ہے اور اپنی صفت چور سے تشبیہ دینے والا بھی الله ،( نقل کفر کفر نہ باشد ) مرزا نے اپنی سیدھی سیدھی بات الله پر ڈال دی ( استغفراللہ) . یاد رہے چور اسم صفت ہے . دنیا کے کسی بھی معاشرے میں چور کو چور صاحب نہیں کہا جاتا. چوری اسم فعل میں آتا ہے ، چور کا فعل چوری ہے. اور نہ ہی چوری کوئی قابل احترام فعل ہے


 مرزائیوں کی تاویلیں : مرزائی جہاں بھی پھنس جاتا تو استعارہ کا سہارا لیتا ہے ، مجازی مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں . لیکن استعارہ کوئی معمولی شے نہیں. استعارہ میں لفظ اور معنی میں کا رشتہ ہونا ضروری ہوتا ہے. بہرحال مرزائی مربیان کی تاویل ہے. چور چونکہ چھپ کر آتا ہے، یہاں مراد خدا کا پوشیدہ اور چھپ کر آنا ہے .کچھ مربی تاویل میں کہتے ہیں , یہ تو محض با محاورہ (idiomatic) ہے ، کچھ کہتے مرزا صرف چھپ کر آنے کے احساس کی گہرائی کی وضاحت کر رہا ہے. "جتنے مربی اتنی تاویلیں" ، ایک نے کہا ، اس سے مراد جیسے چور چھپ کر آتا ہے ویسے ہی الله کی ذات چھپ کر آئے گی نہ که ظاہری طور پر یا کھلے عام.، اسی طرح ایک مربی نے جواز پیش کیا کہ آپ کا اعتراض صرف لفظ کے انتخاب پر ہے .ورنہ کوئی اعتراض نہیں بنتا .(یہ سب سے جاہلانا جواب تھا ) لیکن ان سب تاویلوں کے بعد مرزائی تھک ہار جاتا ہے تو قرآن کی آیات پر اعتراض کرتا ہے اسلئے کہ وہ مرزا کے اس کلام کا جواز پیش کر سکے .

 مرزائیوں کی قرانی تاویل و دلیل : سورة الأنفال

 وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ ۚ وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ ﴿٣٠﴾

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر لیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے.

عربی مبین پر مشتمل آیات میں وارد ( وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ) کو سیاق و سباق کے درمیان سے اٹھا کر مرزائی پنجابی اور اردو کا مطلب نکالتے ہیں. وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ کا مرزائیوں کے نزدیک مطلب ہےکہ کیا الله مکر کرتا ہے؟ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے اردو اور پنجابی کی سمجھ کے مطابق ، اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ جس طرح اس آیت کا مطلب قرآن میں سیاق و سباق سے لیا جاتا ہے اسی طرح مرزا کے قول "خدا کا چوروں کی طرح پوشیدہ آنا" کا مفہوم لیا جانا چاہئے . لیکن مرزائی مربی یہ بھول جاتے ہیں کہ عربی اور اردو میں کیا فرق ہے .

 اس سے پہلے کہ میں قرآن کی آیات کا جواب دوں ، پہلے یہ سمجھ لیں کہ چور کس زبان کا لفظ ہے .

چورہ، چور: سنسکرت زبان کے لفظ چورہ سے ماخوذ چور اردو میں بطور اسم مستعمل ہے گاہے بطور صفت بھی استعمال ہوتا ہے۔ 1392ء کو "بحرالفضائل (مقالات شیرانی)" میں مستعمل ملتا ہے۔

 انگریزی ترجمہ: a thief, a robber

 اسم نکرہ :مذکر ہے ،اور چورنی مؤنث

صفت ذاتی میں معانی : جی چرانے والا، احتراز کرنے والا۔ خطاوار، مجرم؛ شرمندہ وغیرہ وغیرہ ،

مترادفات:  اُچَکّا، خُفْیَہ، فَریبی، اُچَکّی، لُٹیرا، سارِق، ٹھَگ،( عربی میں چور کو سارق کہتے ہیں اور سارق کہتے ہیں چھپی ہوئی چیز کو بن بتائے لے جانے والا)

اب چور کی تشبیہات کو جیسے بھی لیا جائے لیکن الله کا وصف کبھی نہیں ہو سکتا ، نہ حقیقی طور پر نہ مجازی طور پر. کیوں کہ الله کو چوروں کی طرح، چھپ کر ہونے کی صفت کی ضرورت نہیں ہے ،

 الله قرآن میں سورة الشمس میں فرماتا ہے :

وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ﴿١٥﴾،

اور اسے (اپنے ا س فعل کے) کسی برے نتیجے کا کوئی خوف نہیں ہے (15)،

تو الله کو کسی کیا خوف جو پوشیدہ اور چھپ کر چوروں کی طرح پوشیدہ آئے گا ؟ (جبکہ چور خوف ہی کے سبب پوشیدہ آتا ہے)


سورة الأنفال کی آیت کا جواب اور سیاق و سباق :


 آئیے پہلے اس آیت کا صحیح ترجمہ کرلیتے ہیں

 الله تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

ترجمہ: اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور الله نے بھی خفیہ تدبیر کی ، اور الله سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے.(القرآن ٣/٥٤)

 مکروا کا اسم فاعل یہود ہیں. یہود کے اکابر اور سرداروں نے مخالفت اور ایذاء کے بہت سے درجہ طے کرنے کے بعد بلآخر یہ طے کیا کے حضرت عیسی عالیہ السلام کو ختم ہی کردینا چاہیے.......... یہود کی اس گہری اسکیم کی جانب اشارہ قرآن مجید کے لفظ مکروا میں ہے. وَمَكَرَ اللَّهُ یعنی الله نے مخالفین و معاندین کی ساری تدبیریں ، ساری سازشیں الٹ دیں.. عربی زبان میں ایک قاعدہ مشاکلت کا ہے یعنی کسی فعل کی سزا یا جواب کو بھی بجنسه اسی فعل کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے اور اس طرز ادا میں مطلق کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا . مثلا کسی نے زید پر حملہ کیا ، اور زید نے اس کا جواب دیا. تو عربی محاورہ ميں یوں کہیں گے کہ اس نے زید پر حملہ کیا اور زید نے اس پر حملہ کیا حالانکہ زید کا "حملہ" مطلق نہ ہوگا. بلکہ صرف سزاے حملہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ "جوابی حملہ"

قرآن مجید کی اس قسم کی آیتوں سے کہ
:-

 (١)وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ   "انہوں نے مکر کیا اور الله نے بھی "مکر" کیا.


(٢)إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ، وَأَكِيدُ كَيْدًا  وہ "کید" سے کام لیتے ہیں اور می بھی "کید" سے کام لیتا ہوں.


(٣)وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا  "برائی" کی سزا ویسی ہی ایک "برائی" ہے.


(٤)إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ، اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ   " وہ کہتے ہیں کے ہم تو محض "ہنسی" کرتے ہیں الله انسے ہنسی کرتا ہے


(٥)فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ  "جو تم پر زیادتی کرتا ہے تم اس پر زیادتی کرو.

 جو اشکال محض ترجمہ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے وہ از خود ساقط ہوجاتا ہے. ان تمام مثالوں میں جوابی اور سزائ "مکر" نہ مکر ہے، نہ "کید" کید ہے . نہ "سيئه" سيئہ ہے ، نہ استہزاء استہزاء ، نہ زیادتی زیادتی ہے. بلکہ ہر موقع پر مراد صرف سزاۓ مکر، سزاۓ کید، سزاۓ سيئہ ، سزاۓ استہزاء اور سزاۓ اعتداء ہے. تو اس جوابی و تعزیری مکر سے الله پر کوئی سوال ہی نہیں عائد ہوتا. لیکن اسکے علاوہ عربی میں مکر میں کوئی ذم کا پہلو لازمی طور پر ہے بھی نہیں. مکر محمود بھی ہوسکتا ہے اور مکر مذموم بھی. اصل معنی صرف خفیہ تدبیر، گہری تدبیر یا انگریزی میں plan کے ہیں. پس جس کسی ہندی نے اردو کے مکر و فریب پر قیاس کر کے الله پر حرف گیری کی ہے ، اسنے خود اپنی جہالت کا پردہ فاش کیا ہے. اور یہی جہالت آج مرزائیوں میں پائی جاتی ہے ،

خلاصہ:


مرزا نے الله کی ذات سے ایک گھٹیا جھوٹ منسوب کیا کہ ، الله فرماتا ہے کہ وہ چوروں کی طرح پوشیدہ آئے گا یہ مرزا کا گھڑا ہوا جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے
،
مرزا کی کتاب الله کا فرمان نہیں ہے اور نہ الله کی کتاب ہے ، قرآن کے بعد الله کی کوئی کتاب نہیں ہے

مرزا کا لفظوں کا انتخاب انتہائی گرا ہوا تھا ، اس سے ثابت ہوا کہ مرزا کی عقل بھی سلیم نہیں تھی۔۔ یا ایک جاہل سے بد تر تھی

 کسی بھی مرزائی کا اردو کے مکروفریب پر قیاس کر کے الله پر حرف گیری کرنا اس کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے.

چاہے حقیقی معنی ہوں یا مجازی یا شاعرانہ ، الله پاک کی ذات کے لئے لفظ "چور" کسی طور پر بھی استعمال نہیں ہوسکتا  یہ سراسر گستاخی ہے
.
مرزائیت اور دھریت میں کوئی فرق نہیں ، کیوں قرآن کی آیات کو جس طرح توڑ کر مرزا کا دفاع کرنے کوشش کی گئی ہے ویسے ہی ملحد بھی اس آیات پر اعتراض کرتے ہے

No comments:

Post a Comment