Friday, October 3, 2014

چاند اور سورج گرہن کا فراڈ

چاند اور سورج گرہن کا فراڈ


تحقیق:جا ء الحق
چاند اور سورج گرہن کے نشان والی روایت کی اصل حقیقت:
محترم دوستو ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار سنن دارقطنی کی ایک روایت بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور پھر اپنی عادت کے مطابق اس کے ترجمہ میں تحریف اور تاویل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی مہدی ہے۔ میں آج اس روایت کے بارے میں چند حقائق پیش کر رہا ہوں تمام قادیانی حضرات سے مطالبہ کرتا ہوں جو باتیں میں لکھ رہا ہوں اگر ان کے پاس کوئی معقول جواب ہے تو پیش کریں۔
قادیانی حضرات دعوی کرتے ہیں کہ(سنن دار قطنی میں حدیث ہے کہ امام مہدی کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس کے زمانے میں رمضان کی 13 تاریخ کو چاند گرہن اور اسی رمضان کی اٹھائیس تاریخ کو سورج گرہن ہو گا، اور یہ نشانی مرزا قادیانی کی زندگی میں سنہ 1894ء کو پوری ہوئی، لہٰذا مرزا قادیانی ہی مہدی ہے) یہ ہے وہ دعوی جو مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کرتی ہے، آئیں دیکھتے ہیں اصل حقیقت کیا ہے؟

کیا یہ روایت حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے؟

قادیانی حضرات سب سے پہلا دھوکہ اس روایت کے بارے میں یہ دیتے ہیں کہ یہ (حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے) جبکہ یہ بالکل سفید جھوٹ ہے۔ میں آپ کے سامنے دارقطنی سے پوری یہ روایت بمعہ سند کے پیش کرتا ہوں۔
’’حدثنا ابو سعید الاصطحری حدثنا محمد بن عبداللہ نودل حدثنا عبید بن یعیش حدثنا یونس بن بکیرعن عمر و بن شمر عن جابر عن محمد بن علی قال ان لمھدینا آیتین لم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض تنکسف القمر لاول لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ ولم تکونا منذ خلق اﷲ السموات والارض ‘‘(سنن دارقطنی روایت نمبر 1816)
ترجمہ: ابو سعید اصطخری محمد بن عبداللہ بن نوفل سے، وہ عبید بن یعیش سے، وہ یونس بن بکیر سے، وہ عمرہ بن شمر سے، وہ جابر سے اور وہ محمد بن علی سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے مہدی کی دو ایسی نشانیاں ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں وہ نہیں دیکھی گئیں، (پہلی نشانی یہ کہ) رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن ہو گا (اور دوسری یہ کہ) اسی رمضان کے درمیان میں سورج گرہن ہو گا۔


قارئین! اس روایت میں میں نے نیلے Blueکلر سے جو نام ہائی لائٹ کیا ہے وہ محمد بن علی جو کہ امام باقر کے نام سے مشہور ہیں یہ ان کا قول ہے نہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا۔ لہٰذا یہ روایت حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالکل نہیں اور نہ ہی امام باقر نے یہ فرمایا ہے کہ وہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کر رہے ہیں، لہٰذا ایک بات تو صاف ہو گئی کہ یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں جیسا کہ قادیانی حضرات دھوکہ دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام باقر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے 47 سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ تو ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خود سنی ہو۔(واضح رہے مرزا قادیانی نے بھی اس روایت کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لکھا ہے۔ دیکھیں نور الحق، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ253۔ نور الحق، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 209))



کیا یہ روایت صحیح ہے

اب آتے ہیں کہ یہ روایت اصول حدیث کی رو سے صحیح بھی ہے یا نہیں؟ تو ناظرین میں نے روایت کے راویوں میں دو نام سرخ Red کلر میں ہائی لائٹ کیے ہیں ایک ہے عمرو بن شمر اور دوسرا جابر۔ یہ دونوں حضرات معروف شیعہ ہیں اور مزے کی بات یہ کہ اہل سنت اور شیعہ دونوں کے نزدیک ضعیف ہیں۔ پہلے ان دونوں کے بارے میں اہل سنت کے علماء حدیث کی آراء ملاحظہ ہو۔(مرزا قادیانی نے اس روایت کو صحیح بتایا ہے دیکھیں:تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 136)


عمرہ بن شمر

امام سلیمانی کہتے ہیں (عمرو بن شمر رافضیوں کے لیے حدیثیں گھڑا کرتا تھا)، امام جوز جانی کہتے ہیں (عمرو بن شمر جھوٹا ہے)، امام حاکم کہتے ہیں (عمرو بن شمر نے جابر جعفی سے بہت سی موضوع اور جعلی روایتیں روایت کی ہیں)، ابن حبان کہتے ہیں (عمرو بن شمر رافضی تھا جو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو گالیاں دیا کرتا تھا اور جعلی حدیثیں روایت کیا کرتا تھا)، ابو خاتم کہتے ہیں (عمرو بن شمر حدیث میں ضعیف تھا اور منکر الحدیث تھا)، حتی کہ امام دارقطنی کہتے ہیں (عمرو بن شمر اور جابر جعفی دونوں ضعیف ہیں)۔



جابر جعفی

قارئین! عمرو بن شمر یہ روایت کرتا ہے جابر جعفی سے، اب ذرا نظر ڈالتے ہیں یہ جابر جعفی کون ہے؟ امام ابن معین، امام ابو حنیفہ، امام لیث بن سعد، امام جوز جانی، امام ابن عیینہ، ابن خراش، امام سعید بن جبیر سب کہتے ہیں کہ (جابر جعفی کذاب یعنی جھوٹا تھا)، امام ذہبی کہتے ہیں(جابر جعفی متروک الحدیث ہے)، امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں (جابر جعفی ضعیف اور رافضی ہے)، امام بخاری اپنی کتابوں تاریخ صغیر اور تاریخ کبیر میں جابر جعفی کو منکر الحدیث لکھتے ہیں۔
یہ حال ہے اس روایت کے دو مرکزی راویوں کا جو امام باقر سے یہ روایت بیان کرتے ہیں اور جسے قادیانی حضرات حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام دے کر پیش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک بھی عمرو بن شمر اور جابر جعفی جھوٹے اور ضعیف ہیں جیسا کہ شیعہ علماء حدیث شیخ علی، نجاشی، ابن الغضایری وغیرہ نے لکھا ہے۔



کیا قادیانی حضرات اس روایت کا ترجمہ ٹھیک کرتے ہیں؟

قارئین یہ تو ثابت ہو گیا کہ یہ بات حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں ہے بلکہ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے روایت کی جاتی ہے اور اس کو روایت کرنے والے دو راوی جھوٹے اور ضعیف ہیں۔ آئیے اب آپ کو یہ حقیقت بھی بتا دوں کہ خود قادیانی حضرات اس روایت کے ترجمہ میں تحریف اور کمی و بیشی کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ روایت کے الفاظ ہیں(تنکسف القمر چاند گرہن ہو گا لاول لیلۃ من رمضان رمضان کی پہلی رات کو) (وتنکسف الشمس اور سورج گرہن ہو گا فی النصف منہ رمضان کے نصف میں) اس روایت میں صاف الفاظ ہیں کہ چاند گرہن رمضان کی پہلی رات کو اور سورج گرہن رمضان کے نصف یعنی 15 کو ہو گا۔ لیکن قربان جائیے مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں پر وہ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں(چاند رمضان کی 13 تاریخ کو اور سورج رمضان کی 28 تاریخ کو گرہن ہو گا) جبکہ یہ 13 اور 28 تاریخ کے الفاظ اس روایت میں موجود ہی نہیں۔


کیا مرزا قادیانی سے پہلے بھی مذکورہ واقع رونما ہوا؟

قارئین ملاحظہ فرمائیں سنہ 125 ہجری میں ایک شخص صالح بن طریف البر غواطی نے مہدی ہونے کا دعوی کیا اور اسکی زندگی میں ایک نہیں کئی بار رمضان میں چاند اور سورج گرہن ہوا۔ سنہ 268 ہجری میں ابو منصور عیسی نامی شخص نے مہدی ہونے کا دعوی کیا اور اسکی زندگی میں بھی یہ واقعہ رونما ہوا۔ سنہ 1260 ہجری میں میرزا علی محمد الباب نے مہدی ہونے کا دعوی کی اور اسکی زندگی میں بھی یہ واقعہ کئی بار رونما ہوا۔


نتیجہ

دارقطنی کی یہ روایت حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں ہے۔
یہ روایت اصول حدیث کے علماء کے نزدیک موضوع اور جھوٹی ہے کیونکہ اس کے راویوں میں عمرو بن شمر اور جابر جعفی جیسے جھوٹے اور حدیثیں گھڑنے راوی ہیں۔
بالفرض محال اگر اس روایت کو ایک لمحہ کے لیے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کی 15 تاریخ کو سورج گرہن ہونا ثابت ہوتا ہے، جبکہ مرزا قادیانی کے زمانے میں چاند رمضان کی 13 اور سورج 28 تاریخ کو گرہن ہوا اور قادیانی حضرات اس روایت کے ترجمہ میں تبدیلی اور تحریف کرتے ہیں۔
مرزا قادیانی کے علاوہ کئی دوسرے لوگ جنہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا انکی زندگی میں بھی یہ نشان کئی مرتبہ ظاہر ہو چکا ہے۔
قادیانی حضرات اس ضعیف اور جھوٹی روایت کو تو پیش کرتے ہیں لیکن جو احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہیں جس میں ذکر ہے کہ امام مہدی کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا یعنی (محمد) اور امام مہدی کے والد کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد کے نام جیسا یعنی (عبداللہ) ہو گا۔ مزید یہ کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل اور حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنھا کی ذریت سے ہو گا یعنی (سید) ہو گا۔ مزید یہ کہ امام مہدی کے پیچھے حضرت عیسی ابن مریم سلام اللہ علیہ نماز ادا فرمائے گے اور مزید یہ کہ امام مہدی سات سال تک حکومت بھی کریں گے۔ یہ تمام صحیح احادیث قادیانی حضرات کو کیوں نظر نہیں آتیں؟؟



نوٹ۔ قادیانی حضرات ایک شوشہ یہ چھوڑتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ نشان دوسرے لوگوں کے زمانے میں بھی ظاہر ہوا لیکن مرزا قادیانی کے علاوہ کسی نے بھی اپنے مہدی ہونے کے دعوی پر اس نشان کو پیش نہیں کیا....تو عرض ہے امام باقر کی روایت میں یہ کہیں نہیں کہ اس نشان کے بارے میں مہدی دعوی بھی کرے گا بلکہ صرف اتنا ہے کہ مہدی کے زمانے میں یہ نشان ظاہر ہو گا۔

اللہ ہم سب کو سچ بولنے اور سچ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے سے بچائے۔

1 comment: