" اگر ہندوستان میں اسلام نہ ہوتا "
مصنف : گھمنام
آج کل راجہ داہر کی اولادیں جو خود کو لبرل بھی کہتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں " کھوٹے سکے " یہ شور مچا رہے ہیں کہ کاش کہ عربوں نے ہم پر حملہ نہ کیا ہوتا اور آج ہم عرب کلچر کا شکار نہ ہوتے ، عرب کلچرکا یلغار شاید ان کو پاکستان کو الباکستانی کی حد تک نظر آتا ہے اس کے علاوہ باقی جو کلچر کی بیلے پاکستان پر چڑھی ہوئی ہیں وہ تو انہوں نے ہڑپہ اورموہنجوداڑو کے کھنڈرات سے حاصل کی ہیں، جس عورت نے برقعہ پہنا ہوا ہے وہ تو ان کو عرب کلچر کا شکار نظر آتی ہے ، اور یہ خود سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بیچاری عورت کو کپڑے میں ڈھانپ دیا گیا ، لیکن اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ جا کر اس عورت سے پوچھ ہی لے کہ باجی آپ نے خود کو کپڑے میں ڈھانپا ہوا کیوں ہے ،کتنا اچھا ہوتا اگر آپ نے جینس یا سکرٹ پہنی ہوتی، آپ مجھے دیکھتی اور میں آپ کو ،،.خیر 1930 تک تو انڈیا میں عورتیں گھونگٹ میں ہوا کرتی تھیں پھر آہستہ آہستہ پلو اور دوپٹے تک ہی محدود ہو گی، ، شاید انگریز کے نوآبادیاتی نظام کو اپناتے ہوئے خود کو گھونگٹ سے آزاد کر لیا . اور پھر پتا نہیں جینس اور سکرٹ کس کلچر کی سوغات ہے جس کو آج تک شگان سمجھا ہوا ہے . بہرحال کپڑے کوئی بھی ہو اگرچہ عورت نے اپنا جسم ڈھانپا ہوا ہو تو اچھا لگتا ہے .یہ بات بتاتا چلوں کہ آج بھی انڈیا اور پاکستان کے کچھ دیہی علاقوں میں عورتیں گھونگٹ میں ہی ہوتی ہیں لیکن اس ثقافتی گھونگھٹ پر لبرل کے زبان سے آہ تک نہیں نکلتی . خیر موضوع سخن ہے " اگر ہندوستان میں اسلام نہ ہوتا "
لبرل ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات دیکھ کر رشک کرتا ہے کہ یہ اس کی تہذیب ہے،( حالانکہ ان کھوٹے سکوں کا ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ) اکثر نے تو صرف اس قدیم تہذیب کا نام ہی سنا ہو گا ، البتہ الله کی بنائی ہوئی زمین میں کتنے ہڑپہ اور کتنے موہنجوداڑو دفن ہیں یہ تو کسی کو بھی نہیں پتا ، کتنی قومیں آئیں اور کتنی گئیں . لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ لبرل ماہرین کو تکلیف کس بات کی ہے ، مسلمان ہونے پر شرمندگی ہے یا لبرل ہونے پر فخر ،اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے لوگ آج زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی یہ ذہنی مریض شرمندگی کا بحث بنتے، کیوں یہ لبرل تو زبردستی ان کی تہذیب میں گھسنے کے کوشاں ہیں ، بہرحال ان لوگوں کے رہن سہن کے طریقے صرف ماہرین آثار قدیمہ کے ہی تصورات پر ہی منحصر ہیں ، یہ بات تو واضح ہے کہ عرب نے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو فتح نہیں کیا ،کیوں یہ تو قدیم شہر ہیں ،اگر مفروضے ہی لے کر کڑی سے کڑی ملائی جائے تو ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیب ، ثقافت ، مذہب وغیرہ سب کچھ جا کر راجہ داہر سے ہی انٹر لنک ہوتا ہے یعنی مذہبی لحاظ سے ہندو مت سے، تو ثابت تو یہی ہوتا یہ کلچر اور ثقافت کی آڑ میں اس لبرل ﴿نام نہاد مسلمان﴾ کو اصل مسئلہ اسلام سے ہے ، مسلمان ہونے سے ہے. نہ کہ ثقافت سے ، کیوں عرب کی ثقافت برصغیر پاک و ہند میں دور دور تک نظر نہیں آتی ، آج آئے دن یہ کھوٹے سکے مسلمان شخصیات کی تضحیک کرتے نظر آتے ہیں ،اور خود سے مفروضے ایسے تیار کیے ہوئے جیسے یہ اکیسوی صدی میں نہیں پانچ ہزار قبل مسیح پیدا ہوۓ تھے ، اگر فرض یہ کیا جائے کہ ہندوستان میں اسلام نہ آتا تو یہ لبرل کیسا ہوتا .
اگرچہ پرانوں میں لکھا ہے کہ وہ بندہ جو دھرم بھاؤ والا ہو ، جس کے کھانے پینے اور پہننے میں اصول اور ضوابط ہوں ، جو پربو ( خدا) کی عبادت میں مگن رہتا ہو ،اس کو معاشرے کا معزز ترین بندہ تسلیم کیا جانا چاہئے ۔اس کو برہمن کا نام دیا گیا ۔ فرض کرے یہ ذہنی مریض لبرل برہمن ہوتا تو دلت ﴿اچھوت﴾ کی اوقات کیا ہوتی ، کیا دلت ﴿اچھوت﴾ اس کے قریب بھی کھڑا ہو پاتا ؟ آج بھی برہمن کا بیٹے سے برہمن ہی کی طرح سلوک کیا جاتا ہے ، چاہے کہ اس کی عادات نیچوں جیسی ہی کیوں نہ ہو.اور اگر یہ لبرل جو خود کو ہمیشہ اونچی ذات والا ہی درجہ دیتا ہے اگر یہ دلت ہوتا تو اس کی اوقات کیا ہوتی .آج بھی دلت جس کو اچھوت تصور کیا جاتا ہے اس کے ساتھ انڈیا میں مظالم عروج پر ہیں، اس طرح دوسری جاتیوں جیسا کہ کھشتری ، ویش ،وغیرہ ، ایک دوسرے کے درمیان درجہ بندی کی ہوئی ہے وہ اگر آج تک اسی سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے تو آج دوسری دنیا ہندوستان پر شرمندہ ہوتی اور یہ لبرل آج اگنی پرکیشہ دے رہے ہوتے کسی نہ کسی جرم کی . جن بیرونی حملہ آوروں نے “ اسلام “ متعارف کروایا انہوں نے ہی پہلی بار ہند کے لوگوں کو انسانوں کی برابری کا علم بھی دیا اور اسی بنا پر ہی ہند کے لوگوں نے اسلام قبول کیا ، آج بھی جو مسلمانوں میں ذات پات میں امتیاز برتنے کی ثقافت پائی جاتی یہ بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کی ثقافت میں سے ہی ایک ثقافت ہے جو اس خطے کے مسلمان بھی اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں لیکن اس سختی کے ساتھ نہیں جس کے ساتھ ہندو مت میں آج بھی چل رہا ہے ، اسلام میں نسلی امتیاز کا کوئی تصور نہیں ہے ،گورا ، کالا عربی ،عجمی سب برابر ہیں ،جو آج تھوڑی بہت ہندو مت میں نسلی برداشت کی لبریشن آئی ہے وہ بھی اسلام کے ہندوستان میں متعارف ہونے کے بعد ہی آئی ہے .
18th صدی میں انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے ہندوستان کو خوب لوٹا ، مورخین لکھتے ہیں کہ انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان دنیا کی اکانومی ( جی ڈی پی ) میں 32 فیصد حصص رکھتا تھا ،جبکہ اس وقت پورے یورپ کی شرح حصص 23 فیصد تھی . اور جب برطانیہ انڈیا کو چھوڑ کر گیا تو انڈیا کی شراکت صرف 3 فیصد رہ گئی تھی . انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے اس وقت ایک سروے کروایا تھا تو پتا چلا کہ انڈیا میں پچاس فیصد غربت ان علاقوں میں بلند شرح پر بھی تھی جہاں برطانیہ کا براہ راست کنٹرول تھا ، یاد رہے برطانیہ نے ساٹھ فیصد انڈیا پر براہ راست حکومت کی اور چالیس فیصد بالواسطہ طور پر ان شہزادوں اور مہاراجوں کے ذریعے جو برطانوی پالیسیوں کی پیروی کرنے والے تھے . William Digby اور دوسرے برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ انڈیا سے لوٹی ہوئی دولت جس کو Venture Capital کہتے ہے اس کے بغیر(Industrial Revolution) صنعتی انقلاب ہو ہی نہیں سکتا تھا . مورخین کے اندازے کے مطابق 200 سالہ برطانوی حکومت نے ایک کھرب ڈالر کی رقم انڈیا سے لوٹ کر لے گئے تھے .، 1769 سے لے کر 1944 تک انڈیا کے ہر دوسرے علاقے میں 4-5 سال کے وقفے میں قحط پڑتا تھا، اس قحط کی وجہ سے 85 ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےلیکن یہ غیرت مند لبرلز نے منہ سے اف تک نہیں کی. انگریز نے ہی نفرت کی بیچ بوئے جو آج تک چل رہے ہیں . اور ہندو اس وقت بھی غدار وطن ہی نکلا اور انگریزوں کے چرنوں میں بیٹھ گیا اور ایسے ہی آباؤ اجداد رکھنے والے ماڈرن مسلمان آج خود لبرل کا ٹیگ لگائے بیٹھے ہیں . انگریز کو ہندوستان میں اگر خطرہ رہا تو مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے ، یہی جذبہ جہاد لے کر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی بھی لڑی گئی تھی .
عرب میں اسلام سے پہلے بھی ہندوازم جیسا ہی حال تھا ، عرب کے pagan زندہ بیٹیاں دفن کیا کرتے تھے ،لیکن قرآن کی اس آیت نے عربوں جھنجھوڑا ،الله تعالیٰ قرآن کی سورة التكوير میں فرماتا ہے "اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پرماری گئی" تو عربوں کی حالت غیر ہوگی، اسی آیت نے کایا پلٹ دی ،اور آج عربوں میں ایسی رسومات ہمیشہ کے لئے دفن ہو گی ،لیکن ہندوازم میں اب بھی یہی حال ہے لیکن طریقہ بدل گیا ،لبرل کے آباؤ اجداد کی یہ ثقافت آج بھی زندہ ہے ، اسی ثقافت کے اثرات ہندو مت سے مسلمان ہونے والے کچھ مسلمانوں میں ابھی بھی موجود ہیں لیکن شرح فیصد بہت کم ہے،1934 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کچھ گاؤں ایسے ہیں جہاں ایک بھی نوزائیدہ لڑکی نہیں تھی ، 2007 میں یونیسیف کے مطابق بھارت میں خواتین برانن قتل( aborting female foetuses) کی شرح highest لیول پر تھی . 1984 ء میں ممبئی کی ایک رپورٹ میں صرف ممبئی میں 8000 اسقاط حمل میں 7999 اسقاط حمل لڑکیوں کی جنین (foetuses) تھے . یہ ثقافت بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کی کڑی ہے اس پر تو کوئی لبرل فخر محسوس نہیں کرتا . ٹیکنالوجی تو اب آئی اس پہلے کیا کیا ہوتا رہا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ،بھارت میں پچھلے 20 سالوں میں دس ملین لڑکیوں کو ان کے والدین نے قتل کیا گیا ہے یعنی اسقاط حمل کروایا . اور اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے لوگ اتنے تہذیب یافتہ تھے کہ یہ کلچر ان کا نہیں تھا ،تو پھر کس کا ہے ؟،،،
اگر اسلام ہندوستان میں نہ ہوتا تو تم لبرل لوگ ذات پات کے نسلی تعصب اور لڑکیوں کے قتل کرتے ہوۓ لبرل بنے ہوتے ، آج جو ہندوستان میں لبریشن کی ہوا کے جھونکے ہیں تو اسلام کی وجہ سے . اگر آج پاکستان کے مسلمانوں میں ایسی ثقافتوں کی صفات پائی جاتی ہیں تو وہ صرف اس کھنڈرات کی ثقافت کی وجہ سے نہ کہ اسلام کی وجہ سے۔ جس نے بھی اسلام کو پورے کا پورا قبول کیا اس میں ایسی صفات نہیں، یہی وجہ مسلمانوں میں اسقاط حمل اور ریشل discrimination کی شرح دنیا کے چارٹ میں نیچے ہے .اور تم لبرل کے ویسٹرن آباؤ اجداد کے کلچر سے لے کر تمہاری کھنڈراتی آباؤ اجداد کے کلچر تک نسلی تعصب اور اسقاط حمل کی شرح دنیا کے چارٹ میں سب سے اوپر کی سطح پر ہے ،،،یاد رہے راجہ داہر نے اپنی بہن مائی رانی سے شادی کی تھی ،تو اب یہ لبرل پارٹی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوری طور پر اپنے لبرل پارٹی ہونے کا پختہ ثبوت مہیا کرے اور اپنی اپنی بہنوں سے شادی کر کے دکھائے تاکہ ہم ان کی دعوت پر سنجیدگی سے غور کر سکیں اور ہمیں عرب ثقافت چھوڑنے میں عملی نمونہ اس دور میں میسر آسکے.اور شرط یہ ہے کہ ان شادیوں میں ہمیں بھی مدعو کیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے.
لبرل ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات دیکھ کر رشک کرتا ہے کہ یہ اس کی تہذیب ہے،( حالانکہ ان کھوٹے سکوں کا ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ) اکثر نے تو صرف اس قدیم تہذیب کا نام ہی سنا ہو گا ، البتہ الله کی بنائی ہوئی زمین میں کتنے ہڑپہ اور کتنے موہنجوداڑو دفن ہیں یہ تو کسی کو بھی نہیں پتا ، کتنی قومیں آئیں اور کتنی گئیں . لیکن یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ لبرل ماہرین کو تکلیف کس بات کی ہے ، مسلمان ہونے پر شرمندگی ہے یا لبرل ہونے پر فخر ،اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے لوگ آج زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی یہ ذہنی مریض شرمندگی کا بحث بنتے، کیوں یہ لبرل تو زبردستی ان کی تہذیب میں گھسنے کے کوشاں ہیں ، بہرحال ان لوگوں کے رہن سہن کے طریقے صرف ماہرین آثار قدیمہ کے ہی تصورات پر ہی منحصر ہیں ، یہ بات تو واضح ہے کہ عرب نے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو فتح نہیں کیا ،کیوں یہ تو قدیم شہر ہیں ،اگر مفروضے ہی لے کر کڑی سے کڑی ملائی جائے تو ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیب ، ثقافت ، مذہب وغیرہ سب کچھ جا کر راجہ داہر سے ہی انٹر لنک ہوتا ہے یعنی مذہبی لحاظ سے ہندو مت سے، تو ثابت تو یہی ہوتا یہ کلچر اور ثقافت کی آڑ میں اس لبرل ﴿نام نہاد مسلمان﴾ کو اصل مسئلہ اسلام سے ہے ، مسلمان ہونے سے ہے. نہ کہ ثقافت سے ، کیوں عرب کی ثقافت برصغیر پاک و ہند میں دور دور تک نظر نہیں آتی ، آج آئے دن یہ کھوٹے سکے مسلمان شخصیات کی تضحیک کرتے نظر آتے ہیں ،اور خود سے مفروضے ایسے تیار کیے ہوئے جیسے یہ اکیسوی صدی میں نہیں پانچ ہزار قبل مسیح پیدا ہوۓ تھے ، اگر فرض یہ کیا جائے کہ ہندوستان میں اسلام نہ آتا تو یہ لبرل کیسا ہوتا .
اگرچہ پرانوں میں لکھا ہے کہ وہ بندہ جو دھرم بھاؤ والا ہو ، جس کے کھانے پینے اور پہننے میں اصول اور ضوابط ہوں ، جو پربو ( خدا) کی عبادت میں مگن رہتا ہو ،اس کو معاشرے کا معزز ترین بندہ تسلیم کیا جانا چاہئے ۔اس کو برہمن کا نام دیا گیا ۔ فرض کرے یہ ذہنی مریض لبرل برہمن ہوتا تو دلت ﴿اچھوت﴾ کی اوقات کیا ہوتی ، کیا دلت ﴿اچھوت﴾ اس کے قریب بھی کھڑا ہو پاتا ؟ آج بھی برہمن کا بیٹے سے برہمن ہی کی طرح سلوک کیا جاتا ہے ، چاہے کہ اس کی عادات نیچوں جیسی ہی کیوں نہ ہو.اور اگر یہ لبرل جو خود کو ہمیشہ اونچی ذات والا ہی درجہ دیتا ہے اگر یہ دلت ہوتا تو اس کی اوقات کیا ہوتی .آج بھی دلت جس کو اچھوت تصور کیا جاتا ہے اس کے ساتھ انڈیا میں مظالم عروج پر ہیں، اس طرح دوسری جاتیوں جیسا کہ کھشتری ، ویش ،وغیرہ ، ایک دوسرے کے درمیان درجہ بندی کی ہوئی ہے وہ اگر آج تک اسی سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوتے تو آج دوسری دنیا ہندوستان پر شرمندہ ہوتی اور یہ لبرل آج اگنی پرکیشہ دے رہے ہوتے کسی نہ کسی جرم کی . جن بیرونی حملہ آوروں نے “ اسلام “ متعارف کروایا انہوں نے ہی پہلی بار ہند کے لوگوں کو انسانوں کی برابری کا علم بھی دیا اور اسی بنا پر ہی ہند کے لوگوں نے اسلام قبول کیا ، آج بھی جو مسلمانوں میں ذات پات میں امتیاز برتنے کی ثقافت پائی جاتی یہ بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کی ثقافت میں سے ہی ایک ثقافت ہے جو اس خطے کے مسلمان بھی اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہیں لیکن اس سختی کے ساتھ نہیں جس کے ساتھ ہندو مت میں آج بھی چل رہا ہے ، اسلام میں نسلی امتیاز کا کوئی تصور نہیں ہے ،گورا ، کالا عربی ،عجمی سب برابر ہیں ،جو آج تھوڑی بہت ہندو مت میں نسلی برداشت کی لبریشن آئی ہے وہ بھی اسلام کے ہندوستان میں متعارف ہونے کے بعد ہی آئی ہے .
18th صدی میں انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو اس نے ہندوستان کو خوب لوٹا ، مورخین لکھتے ہیں کہ انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان دنیا کی اکانومی ( جی ڈی پی ) میں 32 فیصد حصص رکھتا تھا ،جبکہ اس وقت پورے یورپ کی شرح حصص 23 فیصد تھی . اور جب برطانیہ انڈیا کو چھوڑ کر گیا تو انڈیا کی شراکت صرف 3 فیصد رہ گئی تھی . انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے اس وقت ایک سروے کروایا تھا تو پتا چلا کہ انڈیا میں پچاس فیصد غربت ان علاقوں میں بلند شرح پر بھی تھی جہاں برطانیہ کا براہ راست کنٹرول تھا ، یاد رہے برطانیہ نے ساٹھ فیصد انڈیا پر براہ راست حکومت کی اور چالیس فیصد بالواسطہ طور پر ان شہزادوں اور مہاراجوں کے ذریعے جو برطانوی پالیسیوں کی پیروی کرنے والے تھے . William Digby اور دوسرے برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ انڈیا سے لوٹی ہوئی دولت جس کو Venture Capital کہتے ہے اس کے بغیر(Industrial Revolution) صنعتی انقلاب ہو ہی نہیں سکتا تھا . مورخین کے اندازے کے مطابق 200 سالہ برطانوی حکومت نے ایک کھرب ڈالر کی رقم انڈیا سے لوٹ کر لے گئے تھے .، 1769 سے لے کر 1944 تک انڈیا کے ہر دوسرے علاقے میں 4-5 سال کے وقفے میں قحط پڑتا تھا، اس قحط کی وجہ سے 85 ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھےلیکن یہ غیرت مند لبرلز نے منہ سے اف تک نہیں کی. انگریز نے ہی نفرت کی بیچ بوئے جو آج تک چل رہے ہیں . اور ہندو اس وقت بھی غدار وطن ہی نکلا اور انگریزوں کے چرنوں میں بیٹھ گیا اور ایسے ہی آباؤ اجداد رکھنے والے ماڈرن مسلمان آج خود لبرل کا ٹیگ لگائے بیٹھے ہیں . انگریز کو ہندوستان میں اگر خطرہ رہا تو مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے ، یہی جذبہ جہاد لے کر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی بھی لڑی گئی تھی .
عرب میں اسلام سے پہلے بھی ہندوازم جیسا ہی حال تھا ، عرب کے pagan زندہ بیٹیاں دفن کیا کرتے تھے ،لیکن قرآن کی اس آیت نے عربوں جھنجھوڑا ،الله تعالیٰ قرآن کی سورة التكوير میں فرماتا ہے "اور جب لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پرماری گئی" تو عربوں کی حالت غیر ہوگی، اسی آیت نے کایا پلٹ دی ،اور آج عربوں میں ایسی رسومات ہمیشہ کے لئے دفن ہو گی ،لیکن ہندوازم میں اب بھی یہی حال ہے لیکن طریقہ بدل گیا ،لبرل کے آباؤ اجداد کی یہ ثقافت آج بھی زندہ ہے ، اسی ثقافت کے اثرات ہندو مت سے مسلمان ہونے والے کچھ مسلمانوں میں ابھی بھی موجود ہیں لیکن شرح فیصد بہت کم ہے،1934 کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کچھ گاؤں ایسے ہیں جہاں ایک بھی نوزائیدہ لڑکی نہیں تھی ، 2007 میں یونیسیف کے مطابق بھارت میں خواتین برانن قتل( aborting female foetuses) کی شرح highest لیول پر تھی . 1984 ء میں ممبئی کی ایک رپورٹ میں صرف ممبئی میں 8000 اسقاط حمل میں 7999 اسقاط حمل لڑکیوں کی جنین (foetuses) تھے . یہ ثقافت بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کی کڑی ہے اس پر تو کوئی لبرل فخر محسوس نہیں کرتا . ٹیکنالوجی تو اب آئی اس پہلے کیا کیا ہوتا رہا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ،بھارت میں پچھلے 20 سالوں میں دس ملین لڑکیوں کو ان کے والدین نے قتل کیا گیا ہے یعنی اسقاط حمل کروایا . اور اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے لوگ اتنے تہذیب یافتہ تھے کہ یہ کلچر ان کا نہیں تھا ،تو پھر کس کا ہے ؟،،،
اگر اسلام ہندوستان میں نہ ہوتا تو تم لبرل لوگ ذات پات کے نسلی تعصب اور لڑکیوں کے قتل کرتے ہوۓ لبرل بنے ہوتے ، آج جو ہندوستان میں لبریشن کی ہوا کے جھونکے ہیں تو اسلام کی وجہ سے . اگر آج پاکستان کے مسلمانوں میں ایسی ثقافتوں کی صفات پائی جاتی ہیں تو وہ صرف اس کھنڈرات کی ثقافت کی وجہ سے نہ کہ اسلام کی وجہ سے۔ جس نے بھی اسلام کو پورے کا پورا قبول کیا اس میں ایسی صفات نہیں، یہی وجہ مسلمانوں میں اسقاط حمل اور ریشل discrimination کی شرح دنیا کے چارٹ میں نیچے ہے .اور تم لبرل کے ویسٹرن آباؤ اجداد کے کلچر سے لے کر تمہاری کھنڈراتی آباؤ اجداد کے کلچر تک نسلی تعصب اور اسقاط حمل کی شرح دنیا کے چارٹ میں سب سے اوپر کی سطح پر ہے ،،،یاد رہے راجہ داہر نے اپنی بہن مائی رانی سے شادی کی تھی ،تو اب یہ لبرل پارٹی بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوری طور پر اپنے لبرل پارٹی ہونے کا پختہ ثبوت مہیا کرے اور اپنی اپنی بہنوں سے شادی کر کے دکھائے تاکہ ہم ان کی دعوت پر سنجیدگی سے غور کر سکیں اور ہمیں عرب ثقافت چھوڑنے میں عملی نمونہ اس دور میں میسر آسکے.اور شرط یہ ہے کہ ان شادیوں میں ہمیں بھی مدعو کیا جائے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے.
No comments:
Post a Comment