پاکستان کے ائیرپورٹ پر حملہ اور ہمارے حکمران
مصنف : گھمنام
پاکستان کے کراچی ائیرپورٹ پر حملہ ہوئے آج چار پانچ دن گزر گئے ، یہ حملہ بھی کوئی روایتی بم دھماکہ نہیں تھا جس کے ہم عوام عادی ہو چکے ہیں ، جب سے پاکستان امریکا کا خیر خواہ بنا ہے جیسے ہر روز نائن الیون ہوتا ہے ،کراچی پاکستان کا بہت ہی اہم شہر ہے جو پچھلے ١٠-١٥ سال سے غنڈہ گردی کی سیاست کی لپیٹ میں ہے ، کراچی پاکستان کا تجارتی مرکز ہے جہاں ملک بھر کے لوگ نوکریوں کی تلاش میں آتے ہیں ، ٹھیک ہے لاہور ،فیصل آباد، سیالکوٹ کا بھی پاکستان کی تجارت میں اپنا اشتراک ہے لیکن کراچی کا کردار کلیدی ہے. کراچی اتنے بحران میں گھیرے ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کی معیشیت کا ساٹھ فیصد ریونیو کراچی سے حاصل کیا جا رہا ہے . لیکن ہمارے اشرافی طبقے نے پاکستان کو الجھنوں میں الجھا رکھا ہے ، اس کی ٹوپی اس کے سر ، کوئی کسی کو ذمہ دار ٹھہرا رہا اور کوئی کسی کو ، پاکستان کی وفاقی حکومت ہو یا پھر صوبائی بس جملے بازی ، زنانہ لعن طعن ، قائد کی چاپلوسیاں ، اور اپنی پارٹی کی مہم جوئی کی سیاست میں مگن ہے .
فرض کرو یہ حملہ کسی اور ملک میں ہوتا تو کیا ہوتا ، اس ملک کا وزیراعظم اور صدر اگر کسی غیر ملکی دورے پر ہوتا وہ فوراََ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے واپس اپنی عوام کے ساتھ مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑا ہوتا ، قوم سے خطاب کرتا،اور قوم کو اعتماد میں لیتا. میڈیا اپنی ذمہ داری کے ساتھ قوم میں ایسا کوئی بیہودہ مفروضہ یا شوشہ نہ چھوڑتا اور عوام کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتا، متعلقہ وزیر اخلاقی طور پر نہ صرف قوم سے معافی مانگتا بلکہ مستعفی بھی ہو جاتا ، یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا ستون ہوتا ہے ، بہرحال عوام کسی بھی ملک کی عوام کیوں نہ ہو ہو بس ہوتی وہ عوام ہی ہے بگڑ جائے تو پھر لندن جیسا شہر بھی اس کے غضب سے نہیں بچ سکتا ، یاد تو ہوگا کہ لندن میں عوام نے کیا توڑ بھوڑ کی ،عوام کی مثال ان بھیڑوں کی طرح جو چھلانگ لگانے پر آئیں تو پورا کا پورا ریور چھلانگ ہی لگائے گا. ورنہ سب کی سب ایک ہی ریور میں مل کر چلے گی چاہے کالی ہو یا سفید. پاکستان کی عوام کو کسی بھی المیہ ذمہ دار ٹھہرانا سرا سر نہ انصافی ہو گی، عوام نے ووٹ دے کر اپنی ذمہ داری کا بوجھ لیڈر کے ہاتھ میں سونپ دیا ،اب لیڈر اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صوبائی ہو یا وفاقی اپنی ذمہ داری ایمان داری سے سر انجام دے۔
اب پاکستان میں کیا ہوتاہے، لیڈر جلسے کرتا ہے ، وہاں اپنی ہی ٹٹووٴ سے جیوے جیوے کے نعرے لگواتا ہے ،جھوٹے وعدے کر کے عوام کو چونا لگا کر پارلیمنٹ میں مزے اڑاتا ہے، نہ صرف خود بلکہ خاندان ،دوست احباب ، اور وہ سفارشی کیڑے جن سے مہم کے دوران نعرے لگواتا ہے ،ڈسٹرکٹ لیول کے نظم سے لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھے وزیروں ، مشیروں ، اور دوسرے چمچوں کا صرف ایک کام ہوتا ہے، اس کی سفارش اس کی سفارش ، ساتھ میں لکھ 2 لاکھ خرچ پانی ، کوئی سرکاری ٹینڈر ہو اس میں کمیشن ، کوئی تعمیراتی کام ہو اس میں 2 نمبری ، کوئی بھی شعبہ لے لو اس میں یہی کچھ ہوتا ہے ، پھر اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک نعرہ ہر جگہ لگایا جاتا ہے وہ ہے ڈیموکریسی .بے نظیر کا دور ، یا نواز کا ، الله نے ایک عذاب زرادی کی صورت میں بھی ہم پر نازل کیا لیکن ہم نے صبر سے کام لیا ،مارشل لاء بھی برداشت تو اتنے کیے جتنی ہماری ہمت بھی نہیں تھی ، بات ہو رہی ڈیموکریسی کی جس میں عوام کے نمائندوں کا کیا کردار ہے ، جب جب ڈیموکریسی آئی ، پچھلی حکومت نے یہ کیا وہ کیا اس نے کھایا اس نے ڈھکار مارا وغیرہ ، ، ہر وقت پچھلی حکومت کی رٹ ہوتی ہے ، یہی حال ابھی بھی ہے زرداری کی حکومت پانچ سال پورے کر کے گئی ، اور ابھی تک رونا مشرف کا رویا جا رہا ہے ، اور ہمارے میڈیا نے عوام کے مورال گرانے کی قسم اٹھا رکھی ہے.کوئی بھی خبر پورا دن بریکنگ نیوز بنی رہتی ہے. سب کا خود کے لئے ایک موٹو ہے ، "مجھے نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے " اور پاکستان کے لئے ، کنڈی نہ کھڑکا سیدھا اندر آ ، یہ دو سلوگن ہمارے اداروں کے نصب العین ہے.بس انہی شگوفوں سے ملک چلایا جا رہا ہے ،اور عوام کو برداشت اور صبر تلقین ایسے کرتے ہے جیسے مسجد کے امام یہی ہیں ۔
ائیرپورٹ پر اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے باوجود کسی بھی لیڈر کو نہ غیرت آئی نہ شرم . الٹا عوام کو لاوارث چھوڑا ہوا ،ہر کسی کے بیان میں تضاد ، ایسا لگتا لیڈرنہیں کوئی اسٹیج ڈرامے کا جگت باز ہو . اب تک سیکورٹی کے لئے کیا کیا، بس بیان بازی سے کام چلایا جا رہا ہے، ہم دہشت گردوں کی کمر توڑ دے گے، ہم فلاں کو یہ کر دیں گے ، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ، مذمت کرتا ہوں ، مرنے والوں کے لواحقین سے اظہار افسوس ،یار بس کرو یہ بیان ایسے جیسے موبائل فون میں کریڈٹ ختم ہو جانے پر ٹیپ ریکارڈر چل پڑتا ہے ، کوئی واقعہ ہو دہشت گردی کا ہو یا پھر کوئی حادثہ ، بس نوٹس اور یہ ٹیپ ریکارڈر کے رٹے رٹائے بیان خبروں کی سرخی بن جاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ انکوائری کمیٹیاں بیٹھے گیں ، بینچ بن جائے گا ،کوئی انکوائری کمیشن ، جسکا نہ کوئی سر نہ پیر ،کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا ،آئندہ اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے تو اس کے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ، اگر خدانخواستہ ابھی پاکستان میں کوئی حادثہ یا واقعہ رونما ہو جائے تو سب کے سب لیڈر اس پر بھی یہی بیان دے رہے ہو گے اور پچھلا واقعہ بھول جائیں گے. اگر یہ ڈیموکریسی ہوتی ہے تو لعنت بھجتا ہوں میں اس پر وہ بھی کھڑے ہو کر.
ایک التجا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے کم از کم پاکستان کے حفاظتی اداروں جیسا کہ پولیس ، ASF ، اور دوسرے قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو اس پروٹوکول کے پھندے سے آزاد کر دو،یہ استثنیٰ کا کلچر ختم کرو. ہر ادارے کو میرٹ پر کام کرنے دو . غیر قانونی اور سفارشی مداخلت ان اداروں میں تو نہ کرو. یاد رکھو اس ذات کی عدالت میں پھر جو پروٹوکول ملنا وہ برداشت نہیں کر پاؤ گے ، اور اس سے پہلے اگر عوام نے پروٹوکول دیا تو وہ بلکل برداشت نہیں کر پاؤ گے ، کیوں کہ خدا کی ذات رحمان و رحیم ہے لیکن عوام خاموش ہے لیکن نرم دل نہیں .
فرض کرو یہ حملہ کسی اور ملک میں ہوتا تو کیا ہوتا ، اس ملک کا وزیراعظم اور صدر اگر کسی غیر ملکی دورے پر ہوتا وہ فوراََ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے واپس اپنی عوام کے ساتھ مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑا ہوتا ، قوم سے خطاب کرتا،اور قوم کو اعتماد میں لیتا. میڈیا اپنی ذمہ داری کے ساتھ قوم میں ایسا کوئی بیہودہ مفروضہ یا شوشہ نہ چھوڑتا اور عوام کا مورال بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرتا، متعلقہ وزیر اخلاقی طور پر نہ صرف قوم سے معافی مانگتا بلکہ مستعفی بھی ہو جاتا ، یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا ستون ہوتا ہے ، بہرحال عوام کسی بھی ملک کی عوام کیوں نہ ہو ہو بس ہوتی وہ عوام ہی ہے بگڑ جائے تو پھر لندن جیسا شہر بھی اس کے غضب سے نہیں بچ سکتا ، یاد تو ہوگا کہ لندن میں عوام نے کیا توڑ بھوڑ کی ،عوام کی مثال ان بھیڑوں کی طرح جو چھلانگ لگانے پر آئیں تو پورا کا پورا ریور چھلانگ ہی لگائے گا. ورنہ سب کی سب ایک ہی ریور میں مل کر چلے گی چاہے کالی ہو یا سفید. پاکستان کی عوام کو کسی بھی المیہ ذمہ دار ٹھہرانا سرا سر نہ انصافی ہو گی، عوام نے ووٹ دے کر اپنی ذمہ داری کا بوجھ لیڈر کے ہاتھ میں سونپ دیا ،اب لیڈر اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صوبائی ہو یا وفاقی اپنی ذمہ داری ایمان داری سے سر انجام دے۔
اب پاکستان میں کیا ہوتاہے، لیڈر جلسے کرتا ہے ، وہاں اپنی ہی ٹٹووٴ سے جیوے جیوے کے نعرے لگواتا ہے ،جھوٹے وعدے کر کے عوام کو چونا لگا کر پارلیمنٹ میں مزے اڑاتا ہے، نہ صرف خود بلکہ خاندان ،دوست احباب ، اور وہ سفارشی کیڑے جن سے مہم کے دوران نعرے لگواتا ہے ،ڈسٹرکٹ لیول کے نظم سے لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھے وزیروں ، مشیروں ، اور دوسرے چمچوں کا صرف ایک کام ہوتا ہے، اس کی سفارش اس کی سفارش ، ساتھ میں لکھ 2 لاکھ خرچ پانی ، کوئی سرکاری ٹینڈر ہو اس میں کمیشن ، کوئی تعمیراتی کام ہو اس میں 2 نمبری ، کوئی بھی شعبہ لے لو اس میں یہی کچھ ہوتا ہے ، پھر اپنی منافقت پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک نعرہ ہر جگہ لگایا جاتا ہے وہ ہے ڈیموکریسی .بے نظیر کا دور ، یا نواز کا ، الله نے ایک عذاب زرادی کی صورت میں بھی ہم پر نازل کیا لیکن ہم نے صبر سے کام لیا ،مارشل لاء بھی برداشت تو اتنے کیے جتنی ہماری ہمت بھی نہیں تھی ، بات ہو رہی ڈیموکریسی کی جس میں عوام کے نمائندوں کا کیا کردار ہے ، جب جب ڈیموکریسی آئی ، پچھلی حکومت نے یہ کیا وہ کیا اس نے کھایا اس نے ڈھکار مارا وغیرہ ، ، ہر وقت پچھلی حکومت کی رٹ ہوتی ہے ، یہی حال ابھی بھی ہے زرداری کی حکومت پانچ سال پورے کر کے گئی ، اور ابھی تک رونا مشرف کا رویا جا رہا ہے ، اور ہمارے میڈیا نے عوام کے مورال گرانے کی قسم اٹھا رکھی ہے.کوئی بھی خبر پورا دن بریکنگ نیوز بنی رہتی ہے. سب کا خود کے لئے ایک موٹو ہے ، "مجھے نوٹ ویکھا میرا موڈ بنے " اور پاکستان کے لئے ، کنڈی نہ کھڑکا سیدھا اندر آ ، یہ دو سلوگن ہمارے اداروں کے نصب العین ہے.بس انہی شگوفوں سے ملک چلایا جا رہا ہے ،اور عوام کو برداشت اور صبر تلقین ایسے کرتے ہے جیسے مسجد کے امام یہی ہیں ۔
ائیرپورٹ پر اتنا بڑا واقعہ ہو جانے کے باوجود کسی بھی لیڈر کو نہ غیرت آئی نہ شرم . الٹا عوام کو لاوارث چھوڑا ہوا ،ہر کسی کے بیان میں تضاد ، ایسا لگتا لیڈرنہیں کوئی اسٹیج ڈرامے کا جگت باز ہو . اب تک سیکورٹی کے لئے کیا کیا، بس بیان بازی سے کام چلایا جا رہا ہے، ہم دہشت گردوں کی کمر توڑ دے گے، ہم فلاں کو یہ کر دیں گے ، ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے ، مذمت کرتا ہوں ، مرنے والوں کے لواحقین سے اظہار افسوس ،یار بس کرو یہ بیان ایسے جیسے موبائل فون میں کریڈٹ ختم ہو جانے پر ٹیپ ریکارڈر چل پڑتا ہے ، کوئی واقعہ ہو دہشت گردی کا ہو یا پھر کوئی حادثہ ، بس نوٹس اور یہ ٹیپ ریکارڈر کے رٹے رٹائے بیان خبروں کی سرخی بن جاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ انکوائری کمیٹیاں بیٹھے گیں ، بینچ بن جائے گا ،کوئی انکوائری کمیشن ، جسکا نہ کوئی سر نہ پیر ،کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں ہوتا ،آئندہ اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے تو اس کے متعلق کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ، اگر خدانخواستہ ابھی پاکستان میں کوئی حادثہ یا واقعہ رونما ہو جائے تو سب کے سب لیڈر اس پر بھی یہی بیان دے رہے ہو گے اور پچھلا واقعہ بھول جائیں گے. اگر یہ ڈیموکریسی ہوتی ہے تو لعنت بھجتا ہوں میں اس پر وہ بھی کھڑے ہو کر.
ایک التجا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے کم از کم پاکستان کے حفاظتی اداروں جیسا کہ پولیس ، ASF ، اور دوسرے قانون نفاذ کرنے والے اداروں کو اس پروٹوکول کے پھندے سے آزاد کر دو،یہ استثنیٰ کا کلچر ختم کرو. ہر ادارے کو میرٹ پر کام کرنے دو . غیر قانونی اور سفارشی مداخلت ان اداروں میں تو نہ کرو. یاد رکھو اس ذات کی عدالت میں پھر جو پروٹوکول ملنا وہ برداشت نہیں کر پاؤ گے ، اور اس سے پہلے اگر عوام نے پروٹوکول دیا تو وہ بلکل برداشت نہیں کر پاؤ گے ، کیوں کہ خدا کی ذات رحمان و رحیم ہے لیکن عوام خاموش ہے لیکن نرم دل نہیں .
No comments:
Post a Comment