سازش کا پھندا
مصنف : گھمنام
پاکستان میں آئی ایم ایف نے پہلی بار اپنا جال ١٩٦٨ میں بچھایا تھا ، تب ہم نے قرضے صرف ڈیم بنانے کے لئے تھے. پھر آئی ایم ایف نے ایسے پاؤ جمائے کہ آج تک ہم سود ہی دیتے جا رہے ، پہلی قسط سے دوسری ، دوسری سے تیسری ،،،، پھر آئی ایم ایف سے قرضہ پھر واپسی کے لئے ٹیکس ،، نہ ڈیم بنے نہ قرضہ اترا ، اب ہم آئی ایم ایف سے ملک چلانے کے لئے قرضے لیتے ہے ، اور آئی ایم ایف ہی ہم کو بتاتا ہے کہ کیسے عوام سے وصولی کرنی ہے . ٹماٹر، آلو کے نرخوں سے بھی آئی ایم ایف اپنے دیے ہوۓ قرضے کی قسطیں وصول کر رہا ہے ،
ہمارے اشرافی طبقہ نہ ٹیکس دیتا ہے نہ پاکستان میں انویسٹ کرتا ہے ، ہر کالی بھیڑ کا بزنس پاکستان سے باہر ، پیسا سوئس بنکوں میں ، دبئی میں پراپرٹیز ، لندن میں گھر. امریکا میں انویسٹمنٹ ....اور یہی لوگ آئی ایم ایف سے ملک کے نام پر قرضہ لے کر ہم کو لیپ ٹاپ اور پیلی ٹیکسی کا پھودوں لگایا ہوا . پاکستان کا پیسا اور ٹیکس لوٹ کر انکم سپورٹ ،اور وطن کارڈ بنائے ہوے ہے ، اور ہم عوام ایک آٹے کا تھیلا ملنے پر ان کے قدموں کی خاک بھی اپنے ماتھے پر برکت کے طور پر لگا لیتے ہے ، فوج آئے تو ڈکٹیٹر شپ کے نعرے بھی ہم عوام ہی لگاتے ہے ، سرحد پر کوئی فوجی شہید ہو جائے تو رشک بھی ہم ہی کرتے ہے ، پولیس والا چالان کاٹے تو ہم ہی کہتے ہے مک مکا کر لو ، پولیس والا بھی خوش ہم بھی خوش .لیکن عوام کرے بھی تو کیا کرے ، ایسا ہی چلنا پڑتا ہے ، نہ چلے تو چل نہیں سکتا ، کیوں کہ ہماری جموریت ہی ٹہری ہے ، تو عوام کیا کرے ،
اگر پارلیمنٹ کی کنٹین میں اک گداگر بھیک مانگ کر بھی کھانا کھائے تو پھر بھی اس کو بچت ہے ،لیکن پارلیمنٹ کے گداگر تو اس فقیر سے بھی فقیر ہے جو ٹریفک سگنل پر گندے اور میلے کپڑوں میں دعائیں دے کر مانگ رہا ہوتا ہے ، خدا ترس عوام پھر اس کو ١٠٠ پچاس دے دیتی ہے . لیکن یہ پارلیمنٹی گداگر تو سوٹ بوٹ میں اپنا ایمان کو نیلام کر کے مانگتے ہے . ملک کو ایک طوائف بنا رکھا ہے جموریت کی چولی اور لہنگا پہنا کر کہتے بسنتی ان کتوں کے سامنے مت ناچنا . بسنتی کرے بھی تو کیا کرے رقص تو کرنا پڑتا ہے ، جب ڈور خود کسی اور کے ہاتھ میں دی ہو اور مجرے کے شوقین بھی خود ہو تو بسنتی کیا کرے ، کوئی حق اور سچ کی بات کرے تو یہی لوگ اس کے ہاتھ کاٹ دیتے ہے اور کہتے ہاں جی ٹھاکر صاحب کرتے میں بنا ہاتھ کے کیسے لگ رہے ہو ،
ہمارا میڈیا اس ریس میں جہاں جاکی سے زیادہ گھوڑا سیانا ہے ، PEMRA وہ جاکی جو لگام دینا بھی چاہتا ہے اور دے بھی نہیں سکتا ، اگر لگام دے گا تو گھوڑا اس جاکی کو ہی گرا دیتا ہے ، اور خود ہی آزادی صحافت کی ریس میں دوڑ لگا لیتا ہے. پھر ٹاک شو پر ایک سے ایک فلسفہ نگار ، تجزیہ نگار،لفافے کا پیروکار ہم عوام کو فردوس لان اور کیمرے والا موبائل دے کر ہماری ہی نفسیات کا جنازہ پڑھا دیتا ہے . اور پھر ہم محروم کے لئے امین کہ کر گھروں گھر کو نکل جاتے ہے ، شام کے وقت میرا سلطان اور صبح کے وقت مورننگ شو بھی UPS میں بچائی ہوئی بجلی سے دیکھتے ہے اور دوپہر کو واپڈا کو قراری گالی دے کر سو جاتے ہے . اس امید سے کہ ہو سکتا کل ان کو شرم آ جائے ، لیکن اس اشرافی طبقے کو نہ احساس ہوتا ہے اور نہ میڈیا کو عوام کی بے بسی کا غم ہوتا ہے ، ایک کو TRP چاہئے تو دوسرے کو ووٹ .
جموریت کی چولی سے نہ امید بہار رکھ
موبائل میں نیٹ ورک کی سمیں دو چار رکھ
جلوسوں اور دھرنوں میں جھنڈے اٹھا رکھ
عوام یہی تیری اوقات ہے
چنگ چی رکشے سے ادھار رکھ
No comments:
Post a Comment