گلو بٹ ،،،،ڈائریکٹر کون ، پروڈیوسر کون
مصنف : گھمنام
گلو بٹ کا تعارف تو مجھے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے. آپ سب ہی جانتے ہے کہ سانحہ لاہور میں جو کردار گلو بٹ نے ادا کیا وہ ایک الگ ہی نوعیت کا تھا ، گلو بٹ تو ایک کردار تھا ، اس کردار کے پیچھے اصل ڈائریکٹر کوئی اور ہی تھا، اکثر ہم پوری فلم دیکھ لیتےہے. لیکن ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کا نام تک پتا نہیں ہوتا ، ظاہری کردار ادا کرنے والے فنکاروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہے. کسی کو سپرسٹار کی سیٹ پر بیٹھا دیا جاتا ہے تو کسی کے سر پر سٹرگلر کا سہرہ سجا دیا جاتا ہے. اور کبھی تو پوری کی پوری کہانی پردہ پر دیکھ لینے کے با وجود سمجھ نہیں آتی کون ہیرو تھا اور کون ولن ، کچھ کہانیوں کا ولن ہی اتنا دبنگ ہوتا ہے کہ منی ویسے ہی بدنام ہو جاتی ہے ، لاہور پولیس کا کردار گلو بٹ کے سامنے ایک منی سے زیادہ کچھ نہیں تھا.جو ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے دباؤ میں خواہ مخواہ ناچنے پر مجبور ہو گئی.
بہرحال آج کل فیس بک پر یہ تاثر دیا جانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ہر شہری میں گلو بٹ کی طرح ایک وحشی ولن چپھا ہوا ہے ، بس اس کو موقع ملنے کا انتظار ہے ، ایسے ایسے مفروضے پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے ، اور ذہن میں عجیب سی کوفت ہوتی ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا حقیت میں بحیثیت ہم پاکستانی ایسے ہیں؟ اور تو اور کچھ کالم نگاروں نے بھی اپنے اپنے افسانے لکھ ڈالے. ہمارا میڈیا بھی ایسی ہی کہانیاں سنا رہا ہے ، کیا ہمارے ذہنوں کو واش کیا جا رہا ہے ، یا پھر کوئی مائنڈ سیٹ پروپیگنڈا ہے ؟ یا پھر اصل سانحہ سے عوام کی توجه پهیرنا ہے ؟ اگرچہ حقیقی معنی میں دیکھا جائے تو پاکستان کی عوام گلو بٹ نہیں بن سکتی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ہماری سر پرستی کرنے والا کوئی ڈائریکٹرہے نہ ہی کوئی پروڈیوسر ہے اور نہ کوئی منی ہمارے سامنے ناچنے کو تیار ہے ، گلو بٹ وہی بن سکتا ہے جس کو کوئی ڈائریکٹ کر سکے.ورنہ عوام کو تو ہمیشہ حکومت کی طرف سے مہنگائی کے گلو بٹ نے ہی توڑ دیا ہوتا ہے. یہ سچ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں نے ایسے بہت سے گلو بٹ مختلف کہانیوں کے لئے بطور ٹرم کارڈ ہیرو یا ولن چھپا کر رکھے ہوتے ہے اور وقت آنے پر پردے پر یہ کردار اپنی فنکارانہ صلاحیت کی وجہ سے داد وصول کرنے کے بعد منظرِعام سے غائب ہوجاتے ہیں، لیکن ڈائریکٹر کے بارے میں وہی لوگ آگاہ ہوتے ہے جو اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے ہو. ورنہ فلمیں تو سب دیکھتے ہیں ، اگر کوئی فلاپ فلم یا متنازعہ کہانی ہو تو ہمیشہ کیریئر تباہ کردار پلے کرنے والوں کا ہی ہوتا بس ایسا ہی کردار تھا گلو بٹ کا جس کو عدالت لے جاتے وقت اپنے ہیرو یا ولن ہونے کی اوقات یاد آ گئی ہو گی ،
اب اصل بات کی طرف چلتے ہے. پاکستان کی عوام نہ ہی گلو بٹ اور نہ کوئی بننا چاہتا ہے ، ہاں اگر یہی حالات رہے تو پھر ہو سکتا ہے سیاسیوں گھماشتوں کے لئے یہ عوام گلو بٹ بن جائے. لیکن ابھی تک ہمارے اداروں نے موجودہ گلو بٹ کے اصل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا، ہماری عدالتیں آزاد تو ہے لیکن آنکھوں پر کسی گلو بٹ کے ڈائریکٹر کی طرف سے دی گئی کالی پٹی کو آنکھوں پر پہنے ہوۓ ہے ، اور جو منیاں تھی وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہی .اور جن کو انصاف ملنا تھا ان کو بھی خاموش کرا دیا گیا ، انصاف فائلوں میں کاغذ کے ٹکڑے میں رہ گیا ہے. اور الٹا عوام پر ہی مفروضے کسے جا رہے کہ پاکستان ہر شہری میں گلو بٹ بستا ہے ، گلو بٹ نہ کسی نا انصافی کا شکار تھا ، اور نہ کسی کی نفرت کا ، وہ تو ایک پالتو تھا جس نے آقا کا حکم بجا لایا اور اس کو پتا ہے کہ جلد ہی وہ آزاد ہو جائے گا،
ایک انتباہ میں کر دیتا ہوں ان سیاسی چڑوں سے جنہوں نے جس بے حسی سے آئی ڈی پیز کو نظر انداز کیا ہوا ہے بلکل ایک دن ایسے ہی الله کی عدالت میں تم لوگوں کو نظر انداز کر دیاجاؤ گے .اور جس طرح تم لوگ عوام میں گلو بٹ کا کردار ابھارنے کی کوشش میں ہو تاکہ اصل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو بچایا جا سکے ، الله نہ کرے کہ گلو بٹ کا کردار ان سات لاکھ آئی ڈی پی میں ابھر آئے . پھرنہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری. الله ہم سب کو ہدایت دے اور متحد ہو کر پاکستان کے بقا کے لئے ثابت قدم رہنے توفیق عطا فرمائیں . امین !
بہرحال آج کل فیس بک پر یہ تاثر دیا جانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ہر شہری میں گلو بٹ کی طرح ایک وحشی ولن چپھا ہوا ہے ، بس اس کو موقع ملنے کا انتظار ہے ، ایسے ایسے مفروضے پڑھنے کو مل رہے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے ، اور ذہن میں عجیب سی کوفت ہوتی ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا حقیت میں بحیثیت ہم پاکستانی ایسے ہیں؟ اور تو اور کچھ کالم نگاروں نے بھی اپنے اپنے افسانے لکھ ڈالے. ہمارا میڈیا بھی ایسی ہی کہانیاں سنا رہا ہے ، کیا ہمارے ذہنوں کو واش کیا جا رہا ہے ، یا پھر کوئی مائنڈ سیٹ پروپیگنڈا ہے ؟ یا پھر اصل سانحہ سے عوام کی توجه پهیرنا ہے ؟ اگرچہ حقیقی معنی میں دیکھا جائے تو پاکستان کی عوام گلو بٹ نہیں بن سکتی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ ہماری سر پرستی کرنے والا کوئی ڈائریکٹرہے نہ ہی کوئی پروڈیوسر ہے اور نہ کوئی منی ہمارے سامنے ناچنے کو تیار ہے ، گلو بٹ وہی بن سکتا ہے جس کو کوئی ڈائریکٹ کر سکے.ورنہ عوام کو تو ہمیشہ حکومت کی طرف سے مہنگائی کے گلو بٹ نے ہی توڑ دیا ہوتا ہے. یہ سچ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں نے ایسے بہت سے گلو بٹ مختلف کہانیوں کے لئے بطور ٹرم کارڈ ہیرو یا ولن چھپا کر رکھے ہوتے ہے اور وقت آنے پر پردے پر یہ کردار اپنی فنکارانہ صلاحیت کی وجہ سے داد وصول کرنے کے بعد منظرِعام سے غائب ہوجاتے ہیں، لیکن ڈائریکٹر کے بارے میں وہی لوگ آگاہ ہوتے ہے جو اس انڈسٹری کے ساتھ جڑے ہو. ورنہ فلمیں تو سب دیکھتے ہیں ، اگر کوئی فلاپ فلم یا متنازعہ کہانی ہو تو ہمیشہ کیریئر تباہ کردار پلے کرنے والوں کا ہی ہوتا بس ایسا ہی کردار تھا گلو بٹ کا جس کو عدالت لے جاتے وقت اپنے ہیرو یا ولن ہونے کی اوقات یاد آ گئی ہو گی ،
اب اصل بات کی طرف چلتے ہے. پاکستان کی عوام نہ ہی گلو بٹ اور نہ کوئی بننا چاہتا ہے ، ہاں اگر یہی حالات رہے تو پھر ہو سکتا ہے سیاسیوں گھماشتوں کے لئے یہ عوام گلو بٹ بن جائے. لیکن ابھی تک ہمارے اداروں نے موجودہ گلو بٹ کے اصل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا، ہماری عدالتیں آزاد تو ہے لیکن آنکھوں پر کسی گلو بٹ کے ڈائریکٹر کی طرف سے دی گئی کالی پٹی کو آنکھوں پر پہنے ہوۓ ہے ، اور جو منیاں تھی وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہی .اور جن کو انصاف ملنا تھا ان کو بھی خاموش کرا دیا گیا ، انصاف فائلوں میں کاغذ کے ٹکڑے میں رہ گیا ہے. اور الٹا عوام پر ہی مفروضے کسے جا رہے کہ پاکستان ہر شہری میں گلو بٹ بستا ہے ، گلو بٹ نہ کسی نا انصافی کا شکار تھا ، اور نہ کسی کی نفرت کا ، وہ تو ایک پالتو تھا جس نے آقا کا حکم بجا لایا اور اس کو پتا ہے کہ جلد ہی وہ آزاد ہو جائے گا،
ایک انتباہ میں کر دیتا ہوں ان سیاسی چڑوں سے جنہوں نے جس بے حسی سے آئی ڈی پیز کو نظر انداز کیا ہوا ہے بلکل ایک دن ایسے ہی الله کی عدالت میں تم لوگوں کو نظر انداز کر دیاجاؤ گے .اور جس طرح تم لوگ عوام میں گلو بٹ کا کردار ابھارنے کی کوشش میں ہو تاکہ اصل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو بچایا جا سکے ، الله نہ کرے کہ گلو بٹ کا کردار ان سات لاکھ آئی ڈی پی میں ابھر آئے . پھرنہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری. الله ہم سب کو ہدایت دے اور متحد ہو کر پاکستان کے بقا کے لئے ثابت قدم رہنے توفیق عطا فرمائیں . امین !
!
No comments:
Post a Comment