مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں سے چور کون اور کیا ہے
مصنف : گھمنام
"وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے . وہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا " روحانی خزائن جلد ٢٠ صفہ ٣٩٦ ( کتاب : تجلیات الہیہ )
جب بھی مرزا کی یہ تحریر پیش کی جاتی تو مرزائی طرح طرح تاویل کر کے مرزا کا خدا کی ذات کو چوروں سے تشبیہ دینے کا جواز پیش کرتے ہے ، میں نے بہت سی مثالیں دی جیسا کہ
مرزا مسرور چوروں کی طرح پوشیدہ لندن سے امریکا آتا ہے .
مرزا کی ماں چوروں کی طرح پوشیدہ گھر میں رہتی تھی
تو کیا یہ اچھی مثالیں ہے ، یہاں قابل اعتراض ?، ایسی اور بھی بہت سے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ، میں پہلے بھی اس موضوع پر لکھ چکا ہوں ، لیکن اس تحریر میں مرزا کی کتب سے چوروں کے متعلق کچھ خیالات پیش کیے جائے گے .
چور کی نیت نقب زنی :
جیسا کہ رات کے وقت چوکیدار گھروں کا طواف کرتا ہے ویساہی چور بھی کرتا ہے لیکن چوکیدار کی نیّت گھر کی حفاظت اور چوروں کا گرفتار کرنا ہوتا ہے ایسا ہی چور کی نیت نقب زنی اور نقصان رسانی ہوتی ہے۔( روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- اَیَّامُ الصُّلح: صفحہ 275)
شیطانی الہام اور چور :
سچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے اور قوت اور رعبناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے۔ مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور مخنثوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے کیونکہ شیطان چور اور مخنث اور عورت ہے۔( روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 489)
چور کی صفت سے چور ہی نکلے گا :
اکثر چوروں اورڈاکوؤں کے بچے چور اور ڈاکو ہی نکلتے ہیں اور راستبازوں کے راستباز: روحانی خزائن ۔( کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 58)
چور کا باب فکر منفی ہی ہوتا ہے :
صالح آدمی نیک راہ میں فکر کرکے نیک باتیں نکالتا ہے اور چور نقب زنی کے باب میں فکر کرکے کوئی عمدہ طریق نقب زنی کا ایجاد کرتا ہے۔( روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 236).
مرزا غلام احمد قادیانی اور چوروں کا خطرہ :
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے وقت ہم مع اپنے تمام اہل عیال کے باغ میں چلے گئے تھے اور ایک میدان ہماری زمین کا جس میں پانچ ہزار آدمی کی گنجائش ہو سکتی تھی ہم نے سونے کے لئے پسند کیا اور اس میں دو خیمے لگائے اور اردگرد قناتوں سے پردہ کرا دیا مگر پھر بھی چوروں کا خطرہ تھا کیونکہ جنگل تھا اِس کے قریب ہی بعض دیہات میں نامی چور رہتے ہیں جو کئی مرتبہ سزا پا چکے ہیں ایک مرتبہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پہرہ کے لئے پھرتا ہوں جب میں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا کہ آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 315)
مرزا غلام احمد قادیانی کا باغ ، چور اور زہریلا سانپ :
ایک گاؤں کا باشندہ جو نامی چورتھا چوری کے ارادہ سےؔ ہمارے باغ میں آیا اور اس کا نام بشن سنگھ تھا۔ رات کا پچھلا حصہ تھا۔ جب وہ اس ارادہ سے باغ میں داخل ہوا مگر موقع نہ ملنے سے ایک پیاز کے کھیت میں بیٹھ گیا۔ اور بہت سی پیاز اُس نے توڑی اور ایک ڈھیر لگا دیا اور پھر کسی نے دیکھ لیا تب وہاں سے دوڑا اور وہ اس قدر قوی ہیکل تھا کہ اُس کو دس ۱۰آدمی بھی پکڑ نہ سکتے۔ اگر خدا کی پیشگوئی نے پہلے سے اُس کو پکڑا ہوا نہ ہوتا دوڑنے کے وقت ایک گڑھے میں پیر اُس کا جاپڑا پھر بھی وہ سنبھل کر اُٹھامگر آگے پیچھے سے لوگ پہنچ گئے اور اس طرح پر سردار بشن سنگھ باوجود اپنی سخت کوشش کے پکڑے گئے اور عدالت میں جاتے ہی سزا یاب ہو گئے بعد اس کے ہمارے سکونتی مکان میں سے جو باغ میں ہے جس میں ہم دن کے وقت رہتے تھے ایک بڑا سانپ نکلا جو ایک زہریلہ سانپ تھا اور بڑا لمبا تھا وہ بھی اس چور کی طرح اپنی سزاکو پہنچا اور اس طرح پر فرشتوں کی حفاظت کا ثبوت ہمیں دست بدست مل گیا۔*(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 316)
کذاب اور چور :
پھر بعد اس کے وہ کذاب پیدا ہوئے جو اسم محمد کا جلال ظاہر کرنے والے نہیں تھے بلکہ اکثر ان کے چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح تھے. ( روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 445)
چوروں کی طرح اعتراض کرنے والے :
اس بات کاکیا سبب ہے کہ یہ لوگ چوروں کی طرح دور دور سے اعتراض کرتے ہیں اور صاف باطن لوگوں کی طرح بالمقابل آکر اعتراض نہیں کرتے اور نہ جواب سننا چاہتے ہیں۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- حقیقت المہدی: صفحہ 441)
دجال کا چوروں کی طرح طواف:
پس جیسا کہ ہمار ے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عالمِ کشف میں دجّال کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور وہ طواف چوروں کی طرح اس نیّت سے تھا کہ تا موقعہ پا کر خانہ کعبہ کو منہدم کرے. (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- اَیَّامُ الصُّلح: صفحہ 275)
بدترین لوگ ہے وہ جو چوروں سے تشبیہ دیتے ہیں :
عیسائی قوم جیسے لوگ جن کا تہذیب کا دعویٰ تھا گالیاں دیتے اور اس بزرگ نبی کا نام نعوذ باللہ زانی اور ڈاکو اور چور رکھتے اور دنیا کے سب بدتروں سے بدتر ٹھہراتے۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- کِتابُ البَریَّۃ: صفحہ 319)
دجال کا گروہ چوروں کی طرح اسلام کو نقصان دے گا :
آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا جس کا نام دجّال ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہوگا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اُس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دے . (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 323)
آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجّال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے:
یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی۔ چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگاوے اور گھروالوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اُس کو سخت عقوبت کے زندان میں داخل کراوے تا اس کی بدی سے لوگ امن میں آجاویں۔ پس اِس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجّال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ناخنوں تک زور لگائے گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے . (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 323)
چوری فطرت کا مقتضا ہے .
مثلاً جو شخص بوجہ غلبہ قوائے شہویہ یا غضبیہ چوری کرتا ہے یا خون کرتا ہے یا حرامکاری میں مبتلا ہوتا ہے تو اگرچہ یہ فعل اس کی فطرت کا مقتضا ہے لیکن بمقابلہ اُس کے نورؔ صلاحیت جو اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اس کو اسی وقت جب اس سے کوئی حرکت بے جا صادر ہوجائے ملزم کرتا ہے (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 186)
چوری کا فعل عقل ضعیف اور نفس طالب ہے :
جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام برا کیا اچھا نہیں کیا۔ لیکن وہ ایسے القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 186)
چوروں کو بری تدبیریں اور نیکوں کو نیک حکمتیں سوجھتی ہیں :
خلاصہ یہ کہ جو کچھ نیکوں کو نیک حکمتیں یا چوروں اور ڈاکوؤں اور خونیوں اور زانیوں اور جعلسازوں کو فکر اور نظر کے بعد بری تدبیریں سوجھتی ہیں وہ فطرتی آثار اور خواص ہیں . (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ سوم: صفحہ 236)
چور کی ناکامی اور اس ٹھیکانہ :
ایک چور جو چوری کے لئے جاتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ وہ چوری میں کامیاب ہو یا ماخوذ ہو کر جیل خانہ میں جائے۔ (روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 48)
برٹش سرکار اور ١٨٥٧ کی جنگ آزادی :
اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے۔جب ہم ۱۸۵۷ کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے۔ جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ اؔ نصاف۔ ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا.(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 490)
اب مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں سے پیش کیے حوالے جات دیکھے اور چور کو کس صفت میں بار بار پیش کیا گیا ، اور پھر مرزا کا خدا کو چوروں کو تشبیہ دینا دیکھے اور خود فیصلہ کر لے ، اگر اب بھی کوئی مرزائی کوئی تاویل پیش کرنا چاہتا ہے تو ہم سے رابطہ کرے .
سورة العنكبوت:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ ﴿٦٨﴾
اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھُٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آ چکا ہو؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم ہی نہیں ہے؟ (68)
سورة البقرة:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٦﴾ خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٧﴾ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ ﴿٨﴾ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ ﴿٩﴾ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ﴿١٠﴾
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے (6) خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب (تیار) ہے (7) اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے (8) یہ (اپنے پندار میں) خدا کو اور مومنوں کو چکما دیتے ہیں مگر (حقیقت میں) اپنے سوا کسی کو چکما نہیں دیتے اور اس سے بے خبر ہیں (9) ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا (10)
حصہ اول پڑھنے کے لئے کلک کریں :
سھی گل بای نیں، اللھ تئساں کی اجر دیوے
ReplyDelete