Saturday, November 22, 2014

نظریہ ارتقا کیا ہے؟

نظریہ ارتقا کیا ہے؟


مصنف : گھمنام 


عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقا میں بندروں کو انسان کے اجداد بتایا گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ خیال بھی عام ہے کہ نظریہ ارتقا زمین پر زندگی کی ابتدا کے بارے میں آگاہی دیتا ہے۔ تاہم یہ دونوں باتیں اس نظریے کی تفہیم نہیں کرتیں۔
نظریہ ارتقا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ زمین پر زندگی کی شروعات کیسے ہوئی بلکہ یہ نظریہ اس تفہیم میں مدد دیتا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی آگے کیسے بڑھی، کیسے پھیلی اور اس میں اضافہ و ترقی کیونکر ممکن ہوئی۔ نظریہ ارتقا ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ موجودہ جاندار کیسے وجود میں آئے، ان میں تبدیلیاں کیسے رونما ہوئیں اور انہوں نے اپنے تسلسل اور نسل کو کیونکر برقرار رکھا۔
مشہور برطانوی ماہر فطرت چارلس ڈارون کو جدید نظریہ ارتقا کا بانی قرار دیا جاتا ہے، تاہم ان سے پہلے لامارک، مالتھس، بفن، ویلس، ارسموس ڈارون، لائیل، ہٹن اور کوویئر متعدد ارتقائی اصول دریافت کر چکے تھے جن کی روشنی میں چارلس ڈارون کو اپنی تحقیق میں بے حد مدد ملی۔ اٹھارویں صدی میں ڈارون اور ویلس نے جداگانہ طور دریافت کیا کہ ارتقا کے عمل کو کسی نگہبان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک طاقتور فطری عمل اسے کنٹرول کرتا ہے۔ اس عمل کو فطری چناؤ کہتے ہیں۔
نظریہ ارتقا کی رو سے کسی بھی نوع میں تمام جاندار ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ ان میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق رنگ، قد، وزن اور ساخت وغیرہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اسی بنیاد پر گڈریا اپنے ریوڑ کی تمام بھیڑوں کو علیحدہ علیحدہ پہچانتا ہے۔ یہ فرق ہر جاندار کے جینیاتی نظام کے فرق کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس نظریے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب بیرونی ماحول تبدیل ہوتا ہے تو تمام انواع کو اپنی بقا کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ہر نوع اپنے بچاؤ کے لیے خود کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ جس نوع میں بقا کی صلاحیّت زیادہ ہوتی ہے وہ بچ رہتی ہے اور باقی انواع معدوم ہو جاتی ہیں۔
نظریہ ارتقا کے مطابق فطرت بے حد طاقتور ہے۔ جانداروں اور انواع کی زندگی کا انحصار فطرت پر ہوتا ہے۔ جانداروں اور فطرت کے درمیان توازن ہی بقا کی ضمانت ہے۔ جو انواع فطرت سے مطابقت نہیں رکھ پاتیں فطرت انہیں فنا کر دیتی ہے۔ تبدیل شدہ ماحول میں جو انواع فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں وہ بچ جاتی ہیں۔ اس عمل کو فطری انتخاب کہتے ہیں. نظریہ ارتقا کی رو سے فطرت کا انتخاب ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ بہترین انواع وہی ہیں جو بقا کی جدوجہد میں فطری انتخاب کے نتیجے میں بچ جاتی ہیں۔ ایسی انواع میں انسان سرفہرست ہے۔
لارڈ کیلون (سر ولیم تھامسن ) جو سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی میں پچاس سال تک نیچرل فلاسفی پڑھاتے رہے . جنہوں نے طبعیات اور ریاضیات میں نئی دریافتیں کیں. کئی ایجادات و اختراعات آپ کے نام سے منسوب ہیں ،آپ نے اپریل ١٩٠٢ میں لندن کی یونیورسٹی کالج کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوۓ فرمایا " سائنس پختہ یقین اور کامل اعتبار کے ساتھ ایک خالق ارض و سما کی قائل ہے اور ہمیں اس قادر مطلق کے وجود پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرتی ہے. ہماری ہستی کا موجد اور اس سنبھالنے اور قائم رکھنے والا کوئی بے جان مادہ نہیں ہے بلکہ وہ قوت ہے جس سے موجودات خلق ہوتی اور ہدایت پاتی ہیں ، مشہور علم کیمیات ڈاکٹر لی بک نے کہاں ہے سائنس ہر گز مذہب کی دشمن نہیں بلکہ معاون .
ڈاکٹر الفریڈ اسل والس اقلیم سائنس کے پیر فرتوت کہلاتے ہیں ، اپ ١٨٢٢ میں پیدا ہوۓ .١٩١٣ میں آپ نے اپنی نہایت مشہور علمی کتاب " ورلڈ آف لائف شایع کر کےاپنے نصف صدی کے خیالات اور علمی تحقیقات کے نتائج دنیا کے سامنے رکھے .یہ کتاب بہت مقبول ہوئی اور نام پایا ، ڈاکٹر صاحب موصوف مسلہ ارتقاء بذریعہ انتخاب طبعی کے اکتشاف میں ڈارون کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں ڈاکٹر صاحب خود خدا پرست اور دیندار انسان تھے ، سائنس دانوں کی نظر میں آپ کا قول سند سمجھا جاتا ہے ، آپ اپنی تنصیف " نیچرل سلیکشن " یعنی انتخاب طبعی میں کہتے ہیں ، " انسان صرف عمل ارتقاء سے قادر مطلق کی قدرت و حکمت کے بے غیر پیدا نہیں ہوا ہے ، قوت نفس ناطقہ سے پیدا ہوتی ہے ،جتنی قسم کی قوت پائی جاتی ہے وہ قوت ارادہ ہے ، اگر ارادت کوئی چیز ہے تو وہ ایک طاقت ہے جو ان قوتوں کے عمل کی ہدایت کرتی ہے جو جسم کے اندر مجتمع ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ جسم کا کوئی حصہ قوت کا اثر قبول کئے بےغیر ہدایت کے تابع ہو ، اگر ہم یہ معلوم کر لیں کہ ادنے سے ادنے قوت بھی ارادت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے سوا ہمیں قوت کا کوئی اور ابتدائی وسیلہ اور سبب معلوم نہ ہو تو ہم یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہر قسم کی قوت قوت ارادی ہوتی ہے . اور اسی بنیاد پر یہ دعویٰ قائم ہو سکتا ہے کہ تمام عالم نہ صرف اعلی ذی عقل ہستیوں پر منحصر ہے بلکہ انہی کے وجود پر مشتمل ہے یا یوں کہو کہ وہ سب اعلی عقل و
حکمت ہے "

Darwin’s Unknowns
  •  Did not know where variations came from.
  •  Did not know how variations were passed on through generations.
  •  Genetics not invented until early 20th Century.
  •  Was unable to directly observe or measure natural selection


سائنس کو بدنام کرتے ہے یہ ملحد کیوں 
یہ تو ایک علم و حکمت ہے 
اپنی نفسی شیطانیت کی خاطر 
سائنس کو بروکار لاتے ہے یہ

No comments:

Post a Comment