Monday, January 19, 2015

حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی شان میں مرزا غلام قادیانی کی گستاخی اور تاویلات کا رد ۔

حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی شان میں مرزا غلام قادیانی کی گستاخی اور تاویلات کا رد ۔


مصنف : مرتضیٰ مہر


مرزا غلام قادیانی صرف انبیاء کرام کا ہی نہیں تمام انسانیت کا اور خصوصاً حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا گستاخ اور دشمن تھا ۔ چونکہ مرزا غلام قادیانی کی یہ تمام گستاخیاں اسلام کے نام پر ہیں اسلئے ہم اس کو ’’مقدس سلمان رشدی‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ اللہ کا حکم روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔

’’بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ، ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے ‘‘۔(الاحزاب:57)


مرزا غلام قادیانی اور اُس کے حواریوں کی یہ تاویلیں اہلِ علم میں فروغ نہیں پا سکتیں کہ مرزا نے جو توہین کی وہ عیسیٰ علیہ اسلام کی نہیں بلکہ یسوع کی کی جس کی خبر قرآن نے نہیں دی ۔ جب کہ علماء اسلام نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ انبیاء کے کفر کا جو ارتکاب کرے اُس کی کسی قسم کی کوئی تاویل قابلِ قبول ہی نہیں ہو گی ۔


چنانچہ وہ فرماتے ہیں ۔
’’اس سلسلہ میں تحقیق یہ ہے کہ جس لفظ کے متعدد معنی ہوں اس کے متعلق قائل یہ کہہ سکتا ہے کہ میری نیت کا فلاں گستاخانہ معنی نہیں تھا بلکہ فلاں معنی ہے لیکن جس لفظ کا ازروئے لغت یا عرف یا شرع کے اعتبار سے صرف ایک ہی معنی ہو اور وہ معنی خدانخواستہ گستاخانہ اور کفریہ ہو تو اب قائل کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس کی تکفیر کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہوگا ۔ دیکھئے’’انت طالق‘‘ (تم کو طلاق) کا لفظ عرف اور شرع میں طلاق کے لئے معین ہے ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ’’انت طالق‘‘ کہہ دے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی ۔ اب اگر وہ یہ کہے کہ طالق سے میری نیت لغوی معنی تھا یعنی وہ کھلی ہوئی ہے بندھی ہوئی نہیں ہے یا میں نے یہ کلمہ یونہی کہہ دیا تھا ۔میری نیت اس کلمہ سے طلاق دینا نہیں تھی تو اس کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا کیونکہ لفظ صریح میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا ۔تو اس طرح مرزا کا یہ کہنا کہ عیسیٰ سے مراد مسیح ہے جس کی قرآن نے کچھ خبر نہیں دی باطل ٹھہرا جب کہ ہم جانتے ہیں کہ عرف میں یسوع نام عیسیٰ علیہ اسلام کے لئے مشہور ہے اور یہ بات مرزا کو بھی مسلم ہے جس پر دلائل آگے آ رہے ہیں ۔


اسی طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی کو ولد الحرام یا حرام زادہ کہتا ہے تو اس پر تعزیز لگائی جائے گی اور اگر قائل یہ کہے کہ حرام سے میری نیت ناجائز اولاد نہیں ۔ بلکہ حرمت اور کرامت تھی یا میری نیت اس شخص کی اہانت نہیں تھی تو اس کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ کیونکہ عرف میں یہ الفاظ ناجائز اولاد کے لئے معین ہیں(اسی طرح عرف میں یسوع کے الفاظ عیسیٰ علیہ اسلام کے لئے معین ہیں) ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو غصہ میں کافر کہہ دے تو اس کو تعزیز لگائی جائے گی اور اگر قائل کہے کہ میری نیت کافر بالطاغوت تھی تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ عرف میں کافر،باللہ کے لئے معین ہے ۔ ان تصریحات کے پیش نظر جو شخص نبی ﷺ کی شان میں ایسا کلام کہتا ہے جو عرف میں توہین کے لئے متعین ہو تو اس کی تکفیر کی جائے گی خواہ اس نے توہین کی نیت نہ کی ہو ۔ علامہ شامی لکھتے ہیں :’’جو چیز توہین کی دلیل ہو اس پر تکفیر کی جائے گی خواہ اس نے توہین کی نیت نہ کی ہو‘‘۔(ردالمختار ج 3ص392)

علماء اور فقہاء کرام کی اس وضاحت سے بہت کچھ واضح ہو گیا ۔ لیکن ہم مرزائیوں پر حجت قائم کرنے کے لئے مرزا غلام قادیانی کی ہی تحریروں سے ثابت کرینگے کہ مرزا کی نظر میں یسوع اور عیسیٰ علیہ اسلام ایک ہی تھے فرضی اور اصلی کا کوئی چکر نہیں ۔مرزا غلام قادیانی ایک جگہ لکھتا ہے ۔ ’’آپ (عیسیٰ علیہ اسلام) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں ۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی ۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے ۔ ورنہ کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ۔سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہو سکتا ہے ۔ بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کوئی غرض نہ تھی ۔ اُنہوں نے ناحق ہمارے نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔ ‘‘(ضمیمہ انجام آتھم ص 7-8،خزائن ج 11ص291-292)


یہ غلیظ کلمات و کفریاتِ میں نے بحالت مجبوری نقل کئے ہیں لیکن قادیانیوں کی دینی حس چونکہ مر چکی ہے ۔ اسلئے چاہا کہ حجت تمام ہو جائے ۔ مرزا نے اپنے کفر کو چھپانے کی کوشش یوں کی ہے کہ پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے ہمیں کوئی غرض نہ تھی ۔ اُنہوں نے ناحق ہمارے نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں ۔ اس طویل جملے میں انہوں نے دو باتیں کیں ۔


1۔یہ جو کچھ کہا گیا عیسائیوں کے یسوع کے بارے میں کہا گیا ۔


2۔ یہ سب کچھ اس لئے کہا گیا کہ عیسائیوں نے ہمارے آقاﷺ کو گالیاں دیں اور ہم حضور ﷺ کے دفاع کی خاطر اس حرکت پر مجبور ہوئے ۔


مرزا غلام قادیانی کا یہ قول کہ اُس نے جو کچھ کہا ہے عیسائیوں کے یسوع کے بارے میں کہا انہتائی غلیظ اور پلید جھوٹ ہے ۔ کیونکہ اب جو حوالہ پیش کرنے جا رہا ہوں مرزائیت کی شہ رگ کاٹ کے رکھ دے گا کیونکہ اس حوالے میں یہ وضاحت ہے کہ جو تہمتیں مرزا غلام قادیانی نے یسوع پر لگائی ہیں بعینہ وہی تہمتیں مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پر اُن کا نام لے کر لگائی ہیں ۔ ملاحظہ ہو ’’حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اپنے زمانہ کے بہت لوگوں کی نسبت اچھے تھے ۔یہ ہمارا بیان محض نیک ظنی کے طور پر ہے ۔ ورنہ ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے وقت میں خدا تعالیٰ کی زمین پر بعض راست باز اپنی راست بازی اور تعلق باللہ میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے بھی افضل اور اعلیٰ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی نسبت جو موسیٰ علیہ اسلام سے کمتر اور اس کی شریعت کے پیرو تھے ۔اور خود کوئی کامل شریعت نہ لائے تھے ۔کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ بالاطلاق اپنے وقت کے تمام راست بازوں سے بڑھ کر تھے ۔ جن لوگوں نے ان کو خدا بنایا ہے ۔ جیسے عیسائی یا وہ جنہوں نے خدانخواستہ خدائی صفات انہیں دی ہیں ۔ جیسا کہ ہمارے اور خدا کے مخالف نام نہاد مسلمان وہ اگر ان کو اوپر اُٹھاتے اُٹھاتے آسمان پر چڑھا دیں یا خدا کی طرح پرندوں کا پیدا کرنے والا قرار دیں تو اختیار ہے ۔ انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کرے ۔ لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی ۔ بلکہ یحیٰی نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے ۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا ۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا ۔ مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا ۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے ۔‘‘(دافع البلاء ص3-4،خزائن ج 18ص219-220حاشیہ)


آپ نے ملاحظہ فرمایا پہلے حوالے میں جو باتیں مرزا غلام قادیانی ’’یسوع‘‘ کی جانب منسوب کرتے ہیں وہی باتیں اور گند ’’حضرت عیسیٰ ؑ ‘‘ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔جو یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ ’’یسوع‘‘ اور ’’عیسیٰ‘‘ ایک ہی ہیں نہ کہ الگ الگ ۔ اگر کوئی انسان دماغ اور عقل جیسی نعمت سے محروم نہیں تو وہ ضرور ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے حق و باطل میں تمیز کرنے کے بعد مرزائیت پر لعنت بھیج دے گا ۔


تم بہانے نہ بناؤ تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ۔ (توبہ:66)
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ۔۔۔

No comments:

Post a Comment