Tuesday, January 20, 2015

مرزا کی عیش پرستی اور مقامِ نبوت ۔

مرزا کی عیش پرستی اور مقامِ نبوت ۔

مصنف : مرتضیٰ مہر

ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مشہور شاعر ڈاکٹر ٹیگور سے کسی نے سوال کیا کہ برہمو سماج کی ناکامی کا سبب کیا ہے ؟ حالانکہ اس کے اصول بہت منصفانہ صلح کل کے تھے اس کی تعلیم تھی کہ سارے مذاہب سچے اور کل مذہبوں کے بانی اچھے اور نیک لوگ تھے ۔ اس میں عقل اور منطق کے خلاف کوئی چیز نہ تھی اور موجودہ تمدن موجودہ فلسفہ اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بتایا گیا تھا ۔ تاہم اس نے کامیابی حاصل نہ کی ۔ فلسفی شاعر نے جواب میں کتنا اچھا نکتہ بیان کیا کہ یہ اسلئے ناکامیاب ہوا کہ اس کے پیچھے کوئی شخصی زندگی اور عملی سیرت نہ تھی ۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے کہ عمل کے بغیر وعظ کسی بھی زمانے میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ۔ اور خدا کی نگاہ میں تو یہ چیز بہت ہی ناپسندیدہ ہے ۔ کیونکہ اس سے تضاد لازم ہے اور جو منجانب اللہ ہو اُس میں تضاد نہیں ہو سکتا کیونکہ تضاد چاہے قول کا عمل سے ہو یا قول کا قول سے بہرحال تضاد ہی کہلائے گا اسلئے اللہ تعالیٰ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی ممانعت فرماتا ہے ۔ (کیوں تم کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔القرآن) اسلئے یہ تضاد کسی نبی کی سیرت اور گفتار میں نظر نہیں آ سکتا ۔ کیونکہ پھر وہ کلام اور انسان منجانب اللہ نہیں رہے گا ۔

انبیاء کرام لوگوں سے دنیا چھڑوانے آتے ہیں نہ کے دنیا داری کی لت میں مبتلا کرنے حضرت محمد ﷺکا فرمان ہے’’ الدنیا جیفۃ وطالبہا کلاب‘‘ دنیا ایک مردار بدبودار ہے اور اس کے چاہنے والے کتے ہیں ۔

یہ بات مرزا اور اُس کے مریدوں کو بھی مسلم تھی چنانچہ مرزا کا ایک صحابی غلام رسول راجیکی لکھتا ہے ۔ایسا ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام(مرزا قادیانی) کی بارگاہ عالی میں جب بعض لوگوں کی طرف سے دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے دعا کی درخواست ہوتی اور ان کے خطوط موصول ہوتے تو حضور انور اکثر فرمایا کرتے تھے ۔

’’ہم جس دنیا کو چھڑانے کے لئے آئے ہیں یہ لوگ وہی دنیا ہم سے مانگتے ہیں۔‘‘


کاش ہمارے یہ دوست جو ہم سے دنیا کے متعلق دعا کراتے ہیں یہ اصلاحِ نفس اور خدمت اسلام کے متعلق بھی اپنے دلوں میں ایسی ہی تڑپ محسوس کریں جیسا کہ دنیا کے لئے محسوس کرتے ہیں پھر حضور اقدر علیہ الصلوۃ والسلام(مرزا قادیانی) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کئی دوستوں کی درخواستیں دعا کے متعلق اس غرض سے ہوتی ہیں کہ ان کا فلاں کام ہو جائے اور مال و دولت مل جائے یا بیوی اور بچے مل جائیں اور بیماروں کو صحت ہو جائے مگر ایسی درخواستیں بہت کم ہوتی ہیں جن میں یہ لکھا ہو کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی محبت نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔حضور اقدر علیہ الصلوۃ واسلام( مرزا قادیانی) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مومنوں کا کام تو یہ ہے کہ ان کا ہر ایک شغل دین سے تعلق رکھنے والا ہو اور جیسے کافر لوگ دنیا اور دنیا کے مال و دولت اور ہر ایک چیز سے کفر کی بقاو ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں ایسے ہی مومنوں کو چاہیے کہ وہ ان کے مقابل میں غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی جان و مال اور گھر بار کو دین کی خدمت میں لگاکر دین کو دنیا میں قائم کر دیں ۔ (حیات قدسی ص135از غلام رسول راجیکی)

مرزا غلام قادیانی اپنی اس تعلیم میں کہاں تک مخلص اور سچے تھے اس بات کا اندازہ تو مرزا غلام قادیانی کے اُسی مقدس فراڈ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو 50اور 5کے نام پر غریب اور معصوم عوام کے ساتھ کیا گیا قادیانی حضرات اس مکر و فریب اور ٹھگ بازی کو اندھی عقیدت کے چشمے سے جیسے مرضی دیکھیں یا اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالیں انہیں حق ہے اور ہم کو بھی کہ ہم مرزا غلام قادیانی کے اس بیہودہ فعل کو حضرت محمد ﷺکے اس قول کی روشنی میں دیکھیں ’’الدنیا زور لایحصل الا بالزور ‘‘دنیا مکروفریب ہے اور بغیر مکروفریب کے حاصل نہیں ہو سکتی۔مرزا غلام قادیانی دنیا طلبی،عیش پرستی،اور دولت کی ہوس میں اس قدر اندھے تھے کہ کسی غریب یا مجبور کی مجبوری کاعلم ہوتا توجھٹ سے راستہ میں گھات لگا کر بیٹھ جاتے تھے ایسا ہی ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’’پٹیالہ کے ایک رئیس کے ہاں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا ۔ مرزا صاحب کے خواص سے دعا کی سفارش کروائی ۔ ان کو جواب دیا کہ محض رسمی طور پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی ۔ دوباتیں ہونی ضروری ہیں ۔ گہرا تعلق ہو یا دینی خدمت ۔ رئیس سے کہو کہ ایک لاکھ روپیہ دے تو پھر ہم دعا کریں گے ۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول ص257)

ایک ستم یہ بھی ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے لئے ایک خاص فرشتہ ’’ٹیچی ٹیچی‘‘ بروقت روپے پیسے کی رسدکے لئے خاص تھا۔ (حقیقت الوحی ص332،خزائن ج 22ص345-346)۔

شاہانہ لائف سٹائل کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ۔


’’لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میں مولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ کے سامنے کہا کہ ہم جماعت کے لئے مقروض ہو کر اپنے بیوی اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتے ہیں مگر یہاں بیوی صاحبہ کے کپڑے اور زیورات بن جاتے ہیں ۔ ‘‘(خطبہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیاں،اخبار الفضل جلد 26،21اگست 1938 ؁ء)

مرزا غلام قادیانی نے اپنی لاڈلی اور چہیتی بیوی نصرت جہاں بیگم کو جو زیورات پہنائے اس کی کل رقم 3505روپے ہے ۔ (قادیانی نبوت ص85)اس زمانہ میں سونا تقریباً بیس روپے تولہ تھا اب اس زمانہ سے خود ہی مرزا غلام قادیانی کی بیوی کے زیورات کی مالیت کا اندازہ لگا لیں کہ اُنہوں نے دین کو دنیا پر کہاں تک مقدم رکھا۔

’’اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کرتے تھے اور اگر بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیں تو ان کو دیگر مستورات کے ساتھ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے ۔ لیکن آخری سالوں میں حضور ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریزرو کرا لیا کرتے تھے اور اسی میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر کرتے تھے اور حضور کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے ۔‘‘(سیرت المہدی حصہ دوم ص101روایت نمبر:427)

عیش پرستی کی بھی کچھ جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔

1۔پرندوں کا گوشت آپ کو بہت مرغوب تھا ۔ مرغ اور بٹیر کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا ۔ کباب،پلاؤ،انڈے ،فیرینی،اس وقت کہہ کر پکواتے تھے ۔جب ضعف معلوم ہوتا تھا ۔ میوہ جات بھی آپ کو پسند تھے ۔ موجودہ زمانہ کی ایجادات برف،سوڈا،لیمن بھی پیا کرتے تھے ۔ بلکہ موسم گرما میں برف امرتسر یا لاہور سے بھی منگوا لیا کرتے تھے۔(سیرت المہدی حصہ دوم ص132-135)

ڈاکٹر عبد الحکیم خان مرحوم جو مرزا قادیانی کے مرید تھے ۔ مرزائیت سے توبہ کرنے کے بعد اُنہوں نے لاہور میں جو تقریر کی اُس میں اپنے تائب ہونے کی وجہ بیان فرمائی کہ :اُن کے ذمہ مرزا قادیانی نے ایک خاص خدمت کر رکھی تھی ۔ ہر مہینے وہ مرزا قادیانی کے لئے ایک تولہ خالص مشک مہیا کرتے تھے ۔ جو ساٹھ ستر روپیہ تولہ ملتی تھی ۔ حکیم نورالدین کے مشورے سے ایک یا قوتی تیار کرتے تھے ۔ جو مرزا قادیانی استعمال کرتے تھے ۔ بٹالہ سے روزانہ سوڈے کی بوتلیں اور برف مرزا قادیانی کے لئے جاتی تھی ۔ خوردونوش میں بھی بہت سے تکلفات کو دخل تھا ۔ ان چیزوں پر مریدوں کا روپیہ بے دریغ صرف ہوتا تھا ۔ ایک دن جب وہ یا قوتی تیار کر رہے تھے ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ جناب رسول اللہ ? تو ایسی سادہ زندگی بسر کرتے تھے کہ ایک روایت کے مطابق نبوت کے گھر میں تین دن متواتر ایک وقت جوکی روٹی سے کسی کا پیٹ نہ بھرا تھا ۔ اور مرزا قادیانی دعویٰ تو فنا فی الرسول ہونے کا کرتا ہے ۔ لیکن تنعیم دوستی کا یہ عالم ہے جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شبہ مرزا قادیانی پر ظاہر کیا تو ان سے کوئی جواب سوائے ہیر پھیر کے نہ بن پڑا ۔چنانچہ ڈالٹر صاحب مرزائیت ترک کر کے مسلمان ہو گئے ۔


مرزائی حضرات کے لئے ڈاکٹر صاحب کے بیان پر اعتبار کرنا مشکل ہو سکتا ۔کیونکہ وہ ڈاکٹر صاحب کو مرزا قادیانی کا دشمن مانتے ہیں ۔ تو اس ضمن میں مندرجہ ذیل حوالے جات خوف خدا رکھنے والی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہیں ۔


1۔ پہلی مشک ختم ہو چکی ہے ۔ اسلئے پچاس روپے بذریعہ منی آرڈر آپ کی خدمت میں ارسال ہیں ۔ دوتولہ مشک خالص دو شیشیوں میں ارسال فرماویں ۔ آپ بے شک ایک تولہ مشک بہ قیمت خرید کر کے بذریعہ وی۔پی بھیج دیں ۔ (خطوط امام بنام غلام ص2-3)

2۔ مخدومی سیٹھ صاحب سلمہ اسلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔کل کی تاریخ عنبر بھی پہنچ گیا ۔ آپ میری طرف سے ان مہربان دوست کی خدمت میں شکریہ ادا کر دیں ۔(مکتوب نمبر67،مکتوبات احمدیہ ج 5حصہ اوّل ص26-27)

3۔ میں اس کو اپنے مولا کریم کے فضل سے اپنے لئے بے اندازہ فخر کا موجب سمجھتا ہوں کہ حضور (مرزا قادیانی) بھی اس ناچیز کی تیارکردہ مفرح عنبری کا استعمال فرماتے ہیں ۔(خطوط امام بنام غلام ص8)

4۔ اسی طرح مکتوب احمدیہ جلد پنجم نمبر2ص14پر شہوت کو اُبھارنے والی دوا مرزا نے استعمال کی اور حکیم نورالدین کو بھی یہی دوا کو استعمال کرنے کا مشورہ دیا اسی طرح سیرت المہدی جلد سوئم ص50-51پر شہوت اُبھارنے کے لئے ایک افیون سے تیار کردہ الہامی نسخہ درج کیا گیا ہے ۔ جو مرزا نے استعمال بھی کیا اور دوسروں کو بھی کرایا ۔


اسلئے ڈاکٹر صاحب کا بیان جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ اور ایسی قیمتی مقویات جو شہوت کو اُبھارنے کے لئے دنیا میں مشہور ہیں ۔کیا کسی نبی کی شان کے شایان ہیں ؟ خود سوچیں کے شہوت کے زیرِ اثر رہ کر کوئی انسان عبادت الٰہی کیسے کر سکتا ہے ؟ اور یہ بھی سوچیں کہ ایک زاہد و عابد جس کا دعویٰ فنا فی الرسول ہونے کا ہو کیا ایسے شہواتی مقویات کا محتاج ہوا کرتا ہے انبیاء اپنے مریدوں سے ریاضت اور اطاعت کا کام لیتے ہیں ۔ لیکن مرزا غلام قادیانی مقویات کٹوانے اور بنوانے کا کام لیتے ہیں سبحان اللہ شاید کوئی بے حیائی کا لباس اوڑھ کر اور مرزا غلام قادیانی کی بے شرم زبان اپنے منہ میں رکھ کر کہہ دے کہ یہ بھی مرزا غلام قادیانی کی صداقت کا ایک ثبوت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس میں حیاء اور غیرت نہ ہو وہ جو مرضی کرتا اور کہتا رہے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے ۔


ایسے ہی مرزا کا بے شرمی میں لپٹا ہوا یہ دعویٰ بھی قابل غور رہے کہ اللہ تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں ۔ ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشان پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے ۔ (حقیقت الوحی 333،خزائن ج 22ص346)

حضرت محمد ﷺکے قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بدبودار اور کتوں کے کام ہیں ۔ لیکن اگر قادیانی عینک لگا کر دیکھا جائے تو یہ خارق عادت یا معجزات ہیں جن کی بنا پر مرزا غلام قادیانی فرماتے ہیں کہ اگر یہ معجزات ہزار انبیاء پر تقسیم کئے جائیں تو کئی کی نبوت ثابت ہو جاتی ۔ یہ تو شکر خدا کا ہے کہ یہ منطق فرعون اور قارون کے دماغ میں نہیں سمائی ورنہ وہ ایسے نشانوں سے پتہ نہیں کتنے لوگوں کی خدائی ثابت کر جاتے ۔

No comments:

Post a Comment