Sunday, January 25, 2015

کیا حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے 11 بیٹے ہوے؟

مرزا قادیانی کی جہالت پر پردہ ڈالنے کی ایک مرزائی کوشش اور اسکی حقیقت:


مصنف : جاء الحق



مرزا غلام احمد قادیانی كا دعوى تھا کہ اس نے نبی کریم حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی اتنی کامل اتباع اور اطاعت کی ہے کہ اسے نبوت دے دی گئی ، لیکن دوسری طرف سيرة النبي صلي الله عليه وسلم سے اسکی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس نے کہا "ہمارے پیغمبر اسلام کے ہاں 12 لڑکیاں ہوئیں ، آپ نے کبھی نہیں کہا کہ لڑکا کیوں نہ ہوا" (ملفوظات ، جلد سوم ، صفحه 372)، مرزا کی یہ جہالت آج بھی ملفوظات میں موجود ہے ، کچھ مربی کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ بیان جس نے نوٹ کیا یہ اسکی غلطی ہے کیونکہ اس وقت بچوں کا شور بہت تھا اس لیے اس نے ٹھیک سے سنا نہیں اور 12 لڑکیاں لکھ دیا، یہ عذر ہرگز قابل قبول نہیں، کیونکہ مرزا کا یہ بیان قادیانی اخبار "الحكم" میں مورخہ 17 جولائي سنه 1903 کو شائع ہوا جس میں صاف طور پر "12 لڑکیاں" لکھا ہے (دیکھیں الحكم كا مذكوره شماره صفحه 16 كالم2)، اسکے بعد مرزا قادیانی تقريباً 5 سال زندہ رہا لیکن اس نے کہیں نہیں کہا یا لکھا کہ یہ نقل کرنے والے نے غلطی سے لکھ دیا ہے ، چلیں اگر مرزا کے کسی مرید کا دھیان بھی اس غلطی کی طرف نہیں گیا تو مرزا کا وہ خدا ہی اسے اس غلطی پر تنبیہ کردیتا جسکے بارے میں مرزا نے کہا کہ "وہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا" (نورالحق، رخ 8، صفحه 272)، پھر مرزا کے بیٹے مرزا محمود نے یہ بھی لکھا تھا کہ "خدا اپنے نبی کو وفات تک غلطی میں نہیں رکھتا" (آئينه صداقت، انوار العلوم جلد 6 صفحه 124)، آج تک ملفوظات کے نئے ایڈیشن میں بھی "12 لڑکیاں" ہی لکھا ہے، اگر یہ نقل کرنے والے کی غلطی تھی تو اسے ٹھیک کیوں نہ کیا گیا؟؟


اسی طرح مرزا قادیانی نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بیٹوں کی تعداد کے بارے میں اپنے جاہل ہونے کا ثبوت یہ لکھ کر دیا کہ:

"تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ (11) لڑکے پیدا ہوے اور سب کے سب فوت ہو گئے" (چشمہ معرفت ، رخ 23 ، صفحه 299)

مرزا قادیانی کی یہ تحریر پڑھی جائے تو عام قاری یہی سمجھتا ہے کہ مرزا نے جو بات لکھی ہے وہی صحیح اور تحقیقی بات ہے، جبکہ سيرت نبوى کا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے 11 بیٹے ہونے کی بات ہرگز صحیح نہیں اور نہ ہی کسی نے یہ لکھا ہے، خود مرزا کے بیٹے اور سيرت المهدى کے مصنف مرزا بشير احمد نے حضرت خدیجہ رضي الله عنها سے آپ کے بیٹوں کی تعداد تین یا چار لکھی ہے (سيرة خاتم النبيين، صفحه 107 مرزا بشير احمد ) اور اگر اس میں حضرت ماریہ قبطيه رضي الله عنها سے پیدا ہونے والے بیٹے حضرت ابراہیم رضي الله عنه کو بھی شامل کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ تعداد چار یا پانچ بنتی ہے ، لیکن مرزائی مربی بجائے اس کے کہ مرزا کی اس بات کو اسکی غلطی تسلیم کرتے الٹا اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے ایک دور کی کوڑی لائے ہیں ، وہ کوڑی یہ ہے کہ سيرت حلبيه (جس کا اصل نام "انسان العيون في سيرة الامين المامون" ہے) کی عبارت سے دھوکہ دے کر 11 لڑکے ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، آئیے اسکا جائزہ لیتے ہیں کہ "سيرت حلبيه" میں کیا لکھا ہے ؟ اس کے لیے ہم نے عربی کی اصل کتاب کی طرف رجوع کیا ہے .. ہمارے سامنے "سيرة حلبيه" طبع مصر ہے جو 1292 هجرى میں طبع هوئي...اس کی جلد تین کے صفحہ نمبر 413 سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اولاد کا بیان شروع ہوتا ہے ..ہم اس کے اس حصے کا اردو ترجمہ کرتے ہیں جس میں آپ صلى الله عليه وسلم کے بیٹوں کا ذکر ہے، هم بریکٹ میں وضاحت بھی کرتے جائیں گے تاکہ مرزائی دھوکے کو سمجھے میں آسانی رہے (اگر کسی کو اصل کتاب کا سکین درکار ہو تو وہ پیش کیا جا سکتا ہے).


سب سے پہلے حضرت خديجة الكبرى رضي الله عنها کے بطن سے ہونے والے بیٹے
لکھا ہے "بعثت سے پہلے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے حضرت خدیجہ رضي الله عنها سے ایک بیٹے قاسم پیدا ہوے ، یہ آپ صلى الله عليه وسلم کی سب سے پہلی اولاد ہیں اور انہی کی نسبت سے آپ صلى الله عليه وسلم کی کنیت "ابو القاسم" ہے ، بعض کہتے ہیں کہ یہ (قاسم) دو سال زندہ رہے، بعض کہتے ہیں کہ ڈیڑھ سال، بعض کہتے ہیں کہ چلنے کی عمر تک اور بعض کہتے ہیں کہ آپ سواری پر سوار ہونے کی عمر تک زندہ رہے ، اور بعض کہتے ہیں کہ صرف سات دن زندہ رہے (بہرحال) یہ بعثت سے پہلے فوت ہونے والے آپ صلى الله عليه وسلم کی سب سے پہلی اولاد تھے ..... اور بعثت کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم کے ایک بیٹے عبدالله پیدا ہوے جنہیں "طيب وطاهر" بھی کہا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ طيب وطاهر ان عبدالله کے علاوہ ہیں یہ دونوں بعثت سے پہلے ایک ہی پیٹ سے (یعنی جڑواں) پیدا ہوے تھے، اور بعض نے یہ کہا ہے کہ بعثت سے پہلے جو ایک ہی پیٹ سے پیدا ہوے تھے وہ (طيب وطاهر نہیں) بلکہ طاهر ومطهر تھے (یعنی یہ چار نہیں ہوے بلکہ یہ لکھا ہے کہ یا ان دونوں کا نام طيب وطاهر تھا یا طاهر و مطهر تھا، مرزائی مربی ان کو چار بنا کر پیش کرتے ہیں)...اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعثت سے پہلے آپ کے دو بیٹے طيب ومطيب بھی ہوے تھے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعثت سے پہلے آپ کے ایک بیٹے عبدمناف ہوے تھے ..یہ تمام بعثت سے پہلے دودھ پینے کی عمر میں فوت ہو گئے تھے،اور بعثت کے بعد آپ کے جو بیٹے عبدالله پیدا ہوے تھے (جن کا ذکر پہلے گذرا ) وہ حضرت خدیجہ رضى الله عنها سے آپ کی آخری اولاد تھے .. (سيرة حلبيه، جلد 3 صفحات 413 تا 414).

خلاصہ : حضرت خدیجہ رضي الله عنها سے ہونے والے بیٹوں کا خلاصہ سيرت حلبيه کے مطابق یوں ہوا :

1 : قاسم

2: عبدالله (انہیں طيب وطاهر بھی کہا جاتا ہے)

3 اور 4: طيب اور طاهر (بعض کے نزدیک یہ الگ ہیں اور جڑواں پیدا ہوے ، بعض نے کہا ہے کہ جو جڑواں پیدا ہوے وہ طيب وطاهر نہیں تھے بلکہ انکا نام طاهر ومطهر تھا، یہ نہیں لکھا کہ طيب وطاهر بھی پیدا ہوے اور طاهر ومطهر بھی پیدا ہوے..مرزائی مربیوں نے ان کو چار شمار کیا ہے جبکہ یہاں لکھا ہے یہ یا طاهر ومطهر تھے یا طيب وطاهر)

5 اور 6: طيب اور مطيب (بعض کا قول ہے جو کہ ثابت نہیں)

7: عبد مناف (بعض كا قول ہے جو ثابت نہیں)

اس طرح اگر بالفرض ان تمام اقوال کو ثابت اور صحیح بھی مان لیا جائے تو حضرت خديجه رضي الله عنها سے ہونے والے بیٹے ان تمام غیر ثابت شدہ اقوال کے مطابق بھی صرف سات بنتے ہیں نہ کہ نو ... اب آئیے آگے چلتے ہیں ..

حضرت ماريه قبطيه رضي الله عنها سے ہونے والے بیٹے .
"ہجرت کے آٹھویں سال حضرت ماریہ قبطيه رضي الله عنها کے بطن سے آپ صلى الله عليه وسلم بیٹے ابراہیم پیدا ہوے" (سيرت حلبيه، جلد 3 صفحه 415)...
اسکے بعد سيرت حلبيه میں آپ صلى الله عليه وسلم کی اولاد کے باب میں اور کس اولاد کا ذکر نہیں ..بلکہ اسکے بعد آپ کی ازواج مطهرات كا باب شروع ہوتا ہے ..اور اس میں حضرت عائشه رضي الله عنها كا ذكر آتا ہے تو اسمیں ہمیں یہ بات ملتی ہے :


"آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر (حضرت خدیجہ اور حضرت سوده رضي الله عنهما کے بعد) حضرت عائشه رضي الله عنها کے ساتھ نکاح فرمایا ، حضرت عائشه رضي الله عنها کو "ام عبدالله" کہا جاتا ہے اسکی وجہ (یہ نہیں کہ آپ کا کوئی بیٹا عبدالله تھا) بلکہ آپ کی بہن اسماء بنت ابي بكر کا بیٹے کا نام عبدالله تھا (يعني عبدالله بن زبير رضي الله عنه) ان عبدالله کی وجہ سے حضرت عائشه رضي الله عنها کو "ام عبدالله" کہا جاتا ہے اور یہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اجازت سے کہا جاتا تھا ، آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت عائشه رضي الله عنها سے فرمایا تھا کہ "وہ عبدالله ہیں (عبدالله بن زبير) اور تم ام عبدالله ہو" ....اسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنه کو حضرت عائشه رضي الله عنها نے پالا تھا ..یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عائشه رضي الله عنها آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے حمل ہوا تھا جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ساقط ہو گیا تھا اور اس بچے کا نام عبدالله رکھا گیا تھا ، لیکن حافظ دمياطى نے کہا ہے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں جیسا کہ پہلے گذرا" (سيرت حلبيه، جلد 3 صفحه 420).


لهذا حضرت عائشه رضي الله عنها کے کسی "عبدالله " نامى بیٹے والی بات خود مصنف سيرت حلبيه نے حافظ دمياطى کے حوالے سے غلط لکھ دی ...

مرزائی کوڑی کسی کام کی نہیں

جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا، صحیح اور تحقیقی بات جس پر تمام سيرت نگاروں کا اتفاق ہے اور مرزا کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے بھی یہی لکھا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بیٹوں کی کل تعداد چار یا پانچ سے زیادہ ثابت نہیں، لیکن اگر ہم سيرت حلبيه میں مذکور مختلف اقوال کا ترجمہ بھی کرلیں تو کل تعداد آٹھ سے زیادہ نہیں جاتی ..سات بیٹے حضرت خديجه رضي الله عنها کے بطن سے اور ایک حضرت ماريه قبطيه رضي الله عنها کے بیٹے ابراهيم ... حضرت عائشه رضي الله عنه کی طرف منسوب "عبدالله" کو بھی شامل کرلیں (اگر چہ خود اسی جگہ لکھا ہے یہ ثابت نہیں) تو بھی کل تعداد 9 بنتی ہے نہ کہ 11...پھر نہ جانے کیوں مرزائی مربی دھوکہ دے کر مرزا قادیانی کی اس جہالت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؟؟

جھوٹ بولا تو عمر بھر بولا ....تم نے اس میں بھی ضابطہ رکھا

مرزا کی کتابوں کے سکین :


ملفوظات کا سکین پیج



مرزا کی جہالت کا اعلی نمونہ تھا ،اور یہاں اس سکین میں مرزا نہ کسی تاریخ دان کا حوالہ دے رہا بلکہ اپنے دوست مولوی حکیم نور دین کے بیٹے کی وفات پا جانے پر عجیب منطق پیش کر رہا ہے ، جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ مرزا یہ مانتا تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے فوت ہوۓ .


سيرت حلبيه (جس کا اصل نام "انسان العيون في سيرة الامين المامون" ہےکا سکین ریفرنس :)










No comments:

Post a Comment