Friday, January 2, 2015

خدا اور محمد بننے کا مرزائی نسخہ. مرزائیوں کا خدا کون ؟

خدا اور محمد بننے کا مرزائی نسخہ. مرزائیوں کا خدا کون ؟


مصنف : مرتضیٰ مہر


یہ ایک سوال میں نے مرزائی حضرات سے کیا تھا ۔ جسے قادیانی حضرات ہضم نہیں کر پائے اور آخر بدہضمی سے وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے یعنی مرزائیوں کو دست لگ گئے ۔ چونکہ میں نے اپنے اس سوال میں کچھ سوالات اور حوالہ جات کا اضافہ کیا ہے جو کہ مرزائی دستی مریضوں کے لئے بطور شفا کے ہے اسلئے میں اس کو بطور سوال کے سوالات سیکشن میں نہیں رکھ رہا بلکہ مقالات کے سیکشن میں رکھ رہا ہوں ۔



مرزا غلام قادیانی ایک جگہ کہتا ہے ۔۔۔۔۔ فنا کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک فنا حقیقی ہوتی ہے جیسے وجودی مانتے ہیں کہ سب خدا ہی ہیں ۔ یہ تو بالکل باطل اور غلط ہے اور یہ شرک ہے لیکن دوسری قسم فنا کی فنا نظری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا شدید اور گہرا تعلق ہو کہ اس کے بغیر ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں ہستی ہو باقی سب ہیچ اور فانی ہو ۔ یہ فنا اتم کا درجہ توحید کے اعلیٰ مرتبہ پر حاصل ہوتا ہے اور توحید کامل ہی اس درجہ پر ہوتی ہے ۔ جو انسان اس درجہ پر پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کچھ ایسا کھویا جاتا ہے ۔ کہ اس کا اپنا وجود بالکل نیست و نابود ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم کیا جاوے کہ سرخ آگ کے انگارے کی طرح ہو جاوے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح پر جب ایک راستباز بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وفاداری کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ کر’’ فنا فی اللہ ‘‘ہو جاتا ہے اور کمال درجہ کی نیستی ظہور پاتی ہے اس وقت وہ ایک نمونہ خدا کا ہوتا ہے اور حقیقی طور پر وہ اس وقت کہلاتا ہے ’’انت منی‘‘(ملفوظات ج 5ص5اولڈ ایڈیشن)


ایک مقام پر مرزا کہتا ہے ’’(مرزا)خدا کی مانند۔‘‘(اربعین نمبر3ص25،خزائن 17ص413)


پھرایک اور مقام پر کہتا ہے ۔’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ۔ میں نے یقین کر لیا کہ میں وہی(یعنی خدا ) ہوں ۔‘‘(آئینہ کمالات ص564،خزائن 5ص564)


ایک اور مقام پر کہتا ہے ۔’’اس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا ۔ یعنی انسانی مظہر(مرزا قادیانی) کے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرے گا ۔‘‘(حقیقت الوحی ص 54،خزائن ج 22ص158)


پھر ایک اور جگہ کہتا ہے ۔’’اے مرزا تو میری اولاد جیسا ہے ۔‘‘(اربعین نمبر4ص19ص خزائن 17ص452)


اور پھر اسی طرح ایک جگہ لکھتا ہے ۔


’’انت منی بمنزلۃ بروزی‘‘’’تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہو گیا۔‘‘(سرورق آخیر ریویو ج 5نمبر3،مارچ 1906 ؁ء)
مزید کہتا ہے ۔


’’مجھے خدا کی طرف سے مارنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے ۔‘‘(خطبہ الہامیہ ص 55-56،خزائن 16ص ایضاً)

پھر مزید ۔

’’تو مجھ سے میری توحید کی مانند ہے ۔‘‘(تذکرہ الشہادتین ص 3خزائن ج 20ص5)

پھر مزید۔

’’(اے مرزا) تیری یہ شان ہے کہ تو جس چیز کو کن کہہ دے وہ فوراً ہو جاتی ہے ۔‘‘(حقیقت الوحی ص 105خزائن ج 22ص108)
پھر مزید ۔

’’اے چاند اے خورشید تو مجھ سے ظاہر ہو اور میں تجھ سے‘‘۔(حقیقت الوحی ص 74خزائن ج 22ص77)
پھر مزید ۔

’’تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ۔ تیرا ظہور میرا ظہور ہے ۔‘‘(تذکرہ ص 704)

پھر مزید۔

اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میں ہی ظاہر ہوگیا ۔ یعنی تیرا ظہور بعینہ میرا ظہور ہو گیا ۔ (تذکرہ ص 604)
پھر مزید۔
’’خدا قادیان میں نازل ہوگا ۔ ‘‘(البشریٰ اوّل ج 56تذکرہ ص 437)

پھر مزید۔

تیرے پر میرے انعام کامل ہیں ۔۔۔۔ آواہن(خدا تیرے اندر اُتر آیا ) (کتاب البریہ ص 84-83خزائن 13ص101-102تذکرہ ص311)


اب ان تحریروں کے ساتھ مرزا غلام قادیانی کی اس تحریر کو بھی ملائیں ۔۔۔۔۔۔
ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ ’’ولکن رسول اللہ وخاتم النبین‘‘ اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دئیے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے ۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں ۔ مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی ’’فنا فی الرسول‘‘ کی ۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے ۔ اس پر ظلی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے ۔ اسلئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے ۔ اس لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے ۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو ۔ پس یہ آیت کہ ’’ماکان محمد ابا احمد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین‘‘ اس کے معنی یہ ہیں کہ ۔۔۔۔۔میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے نہ میرے نفس کے رو سے اور یہ نام بحیثیت ’’فنا فی الرسول‘‘ مجھے ملا لہٰذا خاتم النبین کے مفہوم میں فرق نہ آیا ۔ (خزائن ج 18ص208 ایک غلطی کا ازالہ)

ان عبارتوں کو سامنے رکھ کر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی ظلی طور پر خدا بھی تھا ؟اور یہ کہ مرزا کا خدا ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ خدا کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے جلال کے لئے بلکہ خدا کے جلال کے لئے اور مرزا کا ہی آسمانی نام اللہ یا یلش ہے اور اس طرح کی خدائی کا یہ معنی سمجھا جائے کی اللہ کی خدائی اللہ ہی کو ملی گو بروزی طور پر نہ کسی اور کو جیسے مرزا غلام قادیانی کا دعویٰ ہے کہ ’’محمد رسول اللہ ﷺ کے تمام کمالات مرزا قادیانی میں آ گئے ۔‘‘(ایک غلطی کا ازالہ ص 8خزائن ج 18ص312) اور وہ محمد بن گیا(نعوذ باللہ) اسی طرح خدا کے تمام کمالات بھی مرزا غلام قادیانی میں آ موجود ہوئے ۔ جیسا کہ اوپر حوالہ جات سے ثابت کر آیا ہوں اسلئے مرزا خدا بھی بن گیا اور اس طرح کی خدائی سے لا الہ الا اللہ کے مفہوم میں فرق نہیں آتا ؟ اسلئے کلمہ پڑھتے وقت اللہ سے مُراد مرزا اور محمد سے بھی مراد مرزا ہی ہوتا ہے مرزائیوں کے نزدیک؟

فقط یہ سوال تھا میرا جب میں نے یہ سوال مرزائیوں سے فیس بک پر کیا تو مرزائیوں سے کچھ جواب بن نہ پڑا اور آخر اُنہوں نے یہ کذب بیانی بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ کرنی شروع کی کہ وہ مرزا کو نہ محمد سمجھتے ہیں نہ ہی محمد ﷺ سے مُرادمرزا لیتے ہیں ۔ حالانکہ جو شخص مرزائیت سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھتا ہے وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ مرزا غلام قادیانی کا دعویٰ نعوذ باللہ محمد ﷺ ہونے کا تھا ۔ اور یہی عقیدہ مرزا کے اولین مریدوں کا مرزا کے متعلق تھاورنہ خاتم النبین کی مہر ٹوٹتی ہے جیسا کہ ایک غلطی کا ازالہ میں یہ دعویٰ زور و شور سے مذکور ہے ۔ اور فیصلہ مرزا اور اولین مرزائیوں کے عقیدے پر ہی ہوگا ۔ اور یہی بات انصاف کی ہے ۔ لیکن آجکل کے مرزائیوں کا یہ کہنا کہ مرزا نے ایسی تعلیم نہیں دی کہ مجھے محمد سمجھا جائے یا کہا جائے تو یہ خود مرزا غلام قادیانی کی تکذیب ہے اور مرزائیوں کا یہ کہنا کے وہ مرزا کو محمد ﷺ نہیں سمجھتے خود تردید مرزائیت ہے ۔ لیکن بعض مرزائی یہ تو کہتے ہیں کہ مرزا خود کو (نعوذ باللہ) محمد کہتا تھا اور یہ تعلیم بھی اُس نے دی کہ اُسے ایسا سمجھا بھی جائے ۔ لیکن ہم کلمے میں محمد سے مراد مرزا کو نہیں لیتے میں اُن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس بارے کوئی وحی تم لوگوں پر نازل ہو گئی ہے کہ بعض مقامات پر مرزا کو محمد سمجھا جائے اور بعض مقامات پر نہ سمجھا جائے؟ ۔ اور یہ بھی سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر تم لوگ کلمے میں محمد سے مُراد مرزا لو گے تو کیا تم لوگوں کا کلمہ مکروہ ہو جائے گا ؟ اگر مکروہ ہو جائے گا تو اس کے مکروہ ہونے کی کیا دلیل ہے ۔ اگر نہیں ہوگا تو ہمارا اعتراض برحق ہے اور تم لوگوں کا جواب ناحق ہے ۔جبکہ مرزا کی تحریروں میں اس بات کی تصریح موجود ہے جیسا کہ چند حوالے بطور دلیل کے نقل کر رہا ہوں ۔

’’اگر کوئی انسان ’’فنا فی الرسول ‘‘ہو جائے تو درحقیقت وہ وہی بن جاتا ہے‘‘ ۔ (سیرت المہدی حصہ سوئم روایت نمبر :642)


2۔’’ اصل میں جو عاشق ہوتا ہے ۔ آخر کار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے ‘‘۔ (ملفوظات جلد 5ص174اوّلڈ ایڈیشن)


پھر جب وہ وہی بن جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اُسے وہی نہ سمجھا جائے اور وہی مُراد نہ لی جائے ؟


’’مسیح موعود(مرزا غلام قادیانی) کا آنا گویا آنحضرت ﷺ ہی کا آنا ہے جو بروزی رنگ رکھتا ہے ۔ اگر کوئی اور شخص آتا تو اس سے دوئی لازم آتی اور غیرت نبوی کے تقاضے کے خلاف ہوتا ۔ اگر کوئی غیر شخص آ جاوے تو غیرت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ خود ہی آوے تو پھر غیرت کیسی؟اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ایک شخص آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے اور پاس اس کی بیوی بھی موجود ہو تو کیا اس کی بیوی آئینہ والی تصویر کو دیکھ کر پردہ کرے گی۔اور اس کو یہ خیال ہوگا کہ کوئی نامحرم شخص آگیا ہے اس لئے پردہ کرنا چاہیے اور یا خاوند کو غیرت محسوس ہوگی کہ کوئی اجنبی شخص گھر میں آ گیا ہے اور میری بیوی سامنے ہے ۔ نہیں بلکہ آئینہ میں انہیں خاوند بیوی کی شکلوں کا بروز ہوتا ہے اور کوئی اس بروز کو غیر نہیں جانتا اور نہ ان میں کسی قسم کی دوئی ہوتی ہے ۔‘‘ (ملفوظات جلد 5ص390اوّلڈ ایڈیشن)


مرزا کے قول نمبر1,2,3سے یہ بات ثابت ہے کہ مرزا خود کو(نعوذباللہ) عین محمد ﷺ کہتا تھا ۔ اور تفریق نہیں کرتا تھا جب وہ خود تفریق کا قائل نہیں تو تم لوگوں کو یہ حق کس نے اور کیونکر دے دیا کہ تم تفریق کرو لیکن اگر تم تفریق کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے بھی دلیل چاہیے ؟ یا بلادلیل ہی مان لیں ؟

مزید مرزا کا صاحبزادہ کہتا ہے ۔ ’’مسیح موعود(مرزا غلام قادیانی)خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی‘‘ ۔(کلمتہ الفصل،ص158)


ایسی بے شمار کفریہ تحریریں مرزائی لٹریچر میں موجود ہیں لیکن میں مضمون کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا اسلئے صرف چند کو نقل کیا ہے لیکن میں سوال یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان تحریروں کو پڑھ کر کیا کوئی صاحب علم و عقل یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ مرزائیوں کے نزدیک مرزا کو محمد مراد لینے کے علاوہ کوئی اور بھی مفہوم ان کے عقیدے میں موجود ہے ؟


اور یہ تو حکم شرعی ہے کہ الفاظ موہمہ سے احتراز واجب ہے چنانچہ اسی بنا پر ’’لا تقولو راعنا‘‘ فرمایا گیا ہے اور احادیث میں بہت سے الفاظ کی ممانعت اسی بناء پر وارد ہے ۔ اسلئے جس جگہ اس قسم کا الہام اور دعویٰ ہو جس کے مغلط اور مفسد کا احتمال ہوگا وہ غلط اور حرام سمجھا جائے گا یہی مرزا کے الہاموں اور دعووں کے حرام اور فاسد ہونے کی دلیل ہے۔لیکن چونکہ مرزا نے تفریق نہیں کی تو اس میں کوئی اور بھی تفریق نہیں کر سکتا ۔ اور مرزائیوں نے مرزا کے دعوے کو خود باطل اور تسلیم نہ کر کے خود کاذب ثابت کر دیا ۔ لیکن اس کے علاوہ میں کہتا ہوں کہ اگر لفظ بروز کے بڑھا دینے سے رسالت و نبوت کا دعویٰ جائز ہے اور بندہ وہی بن جاتا ہے جس میں وہ فنا ہوتا ہے تو اسی قید سے خدائی کے دعویٰ میں بھی اجازت چاہیے ۔ لیکن اگر خدائی کا دعویٰ گوارا نہیں تو رسالت کا دعویٰ بھی گوارا نہیں ہو سکتا ۔
وما علینا الا البلاغ المبین

No comments:

Post a Comment