Sunday, January 4, 2015

مرزا غلام احمد قادیانی کے شیطانی الہامات

مرزا غلام احمد قادیانی کے شیطانی الہامات :


مصنف : مرتضیٰ مہر 




جب مرزا نے الہامات ہونے کے دعوے کیے اس وقت مرزا کی جماعت کے کچھ افراد نے بھی دعوی کیا کہ ان کو بھی الہام ہوتا ہے ۔( ملفوظات جلد پانچ صفحہ ٣٤٧) اور اس کی خبر جب مرزا کو ملی تو وہ کافی ناراض ہوا اور ان افراد کے الہامات کو شیطانی اور جنونی کہا ،خیر مرزا نے خدائی الہامات کا معیار بیان کیا تھا جو کہ درجہ ذیل ہے۔

خدائی الہام کا معیار : افسوس یہ لوگ چھوٹے چھوٹے معمولی الہامی ٹکروں اور خوابوں پر اترائے بیٹھے ہیں، اور سمجھ نہیں سکتے کسی الہام کو خدا کی طرف سے ہونے اور دخل شیطان سے پاک ہونے کا کیا معیار ہے ؟معیار یہی ہے کہ اس ( خدائی الہام ) کے ساتھ نصرت الہی ہو اور اقتداری علم غیب اور قاہر پیشگوئی اس کے ساتھ ہو، ورنہ وہ فضول باتیں ہے ہیں جو نافخ الناس نہیں ہو سکتی ، مرزا صاحب مزید تشریح کرتے اسی صفحہ پر فرماتے ہے ، اگر میرے الہامات بھی ویسے ہی معمولی اور فضول ٹکڑے ہوتے اور ہر ایک میں علم غیب اور اقتداری پیشگوئیاں نہ ہوتیں تو میں ان محض ہیچ سمجھتا . میرے الہاموں سے قوم کا فائدہ اور اسلام کا فائدہ ہوتا ہے اور یہی معیار بڑا بھاری معیار ہے جو میرے الہامات کے منجانب اللہ ہونے پر دلالت کرتا ہے"

مزید فرمایا : میرے ساتھ خدا تعالیٰ کے معاملات اور تصرفات اور اس کے نشان میری تائید میں عجیب ہیں کچھ تو میری ذات کے متعلق ہیں ، کچھ میری اولاد کے متعلق ہیں اور کچھ میری اہل بیعت کے متعلق ہیں کچھ میرے دوستوں کے متعلق ہیں اور کچھ میرے مخالفوں کے متعلق ہیں اور کچھ عامۃ الناس کے متعلق ہیں . ( ملفوظات جلد اول صفحہ ٢٠٤ اور ٢٠٥)

اب اگر اس معیار کو دیکھا جائے تو بات واضح ہوتی کہ مرزا کے الہامات کے دو بنیادی مقاصد تھے "قوم کا فائدہ ، اور اسلام کا فائدہ '' ان دو کلیدی بنیادوں پر ہی مرزا کے الہامات کو پرکھا جا سکتا ہے کہ آیا وہ منجانب اللہ تھے یا کہ نہیں ، اس کے علاوہ ان الہامات کا پورا ہونے میں نصرت الہی ، علم غیب اور اقتداری پیش گوئیوں کا منحصر ہونا لازم ہے ورنہ فضول باتیں ہیں ، اور ان الہاموں کی مزید درجہ بندی مرزا کی ذات ، خاندان ، اولاد ،مرزا کے پیروکار ، دوست احباب ،مخالفین ، عامۃ الناس کے گرد گھومتی ہے . اور ان الہامات کا پورا ہونا لازم ہے ۔

مرزا نے اس سے بھی  بڑھ کر ایک اور معیار جو واضح طور پر بتایا ہے :

ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔“( روحانی خزائن جلد ۲۲ حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 578(

مطلب مرزا کے الہام کو منجانب اللہ ہونے کے لیے اس کسوٹی سے گزرنا ہی  ہو گا ، چاہے وہ الہام قوم کے فائدے ، اسلام کے فائدے یا پھر مرزا کی ذات ، خاندان ، اولاد ،مرزا کے پیروکار ، دوست احباب ،مخالفین ، عامۃ الناس کے گرد کیوں نہ گھومتا ہو ، مرزا کے الہام کو مرزا کے ان معیاروں سے ہی  پرکھا جا سکتا ہے  کہ مرزا کے  الہام شیطانی تھے یا رحمانی  ، اور مرزا کے الہام پر خدا کے  قول اور اس پر خدا کے فعل کی شہادت لازم ہے ۔

مندرجہ ذیل الہامات پر خدا کا قول ، خدا کا فعل اور خدا کی شہادت   بیان کریں :


خواص کاذب



1۔’’تین استرے،عطر کی شیشی‘‘۔(تذکرہ ص 774)
2۔’’کچلہ،کونین فولاد،یہ ہے دوائے ہمزاد‘‘۔(تذکرہ ص792)
3۔’’واللہ واللہ سدھا ہویا اولا‘‘۔(تذکرہ ص746)
4۔’’کشتیاں چلتی ہیں تاہوں کشتیاں‘‘۔(تذکرہ ص615)
5۔’’خطرناک‘‘۔(تذکرہ ص756)
6۔’’ایک الہام جس کے اظہار کی اجازت نہیں‘‘(راقم :غالباً رجولیت کے متعلق ہے)۔(تذکرہ ص741)
7۔’’تائی آئی،تار آئی‘‘۔(تذکرہ ص781)
8۔’’تحفتہ الملوک‘‘۔(تذکرہ ص 699)
9۔’’امین الملک جے سنگھ بہادر‘‘۔(تذکرہ ص672)
10۔’’خاکسار پیپرمنٹ‘‘۔(تذکرہ ص527)
11۔’’غلام احمد کی جے‘‘۔(تذکرہ ص723)
12۔عمارت تو مفت میں تھک گئی‘‘(راقم : اتنا ترس آ رہا تھا تو کرائے پر لے لیتے)۔(تذکرہ ص563)
13۔’’بجلی کی طرح تیز الہام‘‘۔(تذکرہ ص463)
14۔’’ایک دانہ کس کس نے کھایا‘‘۔(تذکرہ ص 595)
15۔’’لائف‘‘(تذکرہ ص 593)
16۔’’یہوداہ اسکریوتی‘‘۔(تذکرہ ص29)
17۔’’غثم،غثم،غثم۔اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘۔(تذکرہ ص 593)
18۔’’آئی لو یو‘‘۔(تذکرہ ص 63)
19۔’’موتا موتی لگ رہی ہے‘‘۔(براہین پنجم ص 5،خزائن ج 21ص157)
20۔’’دو شہتیر ٹوٹ گئے‘‘۔(البشریٰ ج 2ص100،تذکرہ ص 566)
21۔’’آتش فشاں،مصالح العرب ،مسیر العرب‘‘۔(تذکرہ ص 563)
22۔’’ایسوسی ایشن‘‘۔(البشریٰ ج 2ص132،تذکرہ ص 724)
23۔’’بامراد،ردبلا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص100،تذکرہ ص 563-564)
24۔’’ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں‘‘۔(البشریٰ ج 2ص105،تذکرہ ص 591)
25۔’’کرنسی نوٹ دیکھو میرے دوستو‘‘۔(البشریٰ ج 2ص 107،تذکرہ ص 596)
26۔’’بشیر الدولہ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص100،تذکرہ ص 598)
27۔’’عورت کی چال،ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘۔(تذکرہ ص 597)
28۔’’خدا نکلنے کو ہے‘‘۔(البشریٰ ج 2ص109،تذکرہ ص 604)
29۔’’کلیسا کی طاقت کا نسخہ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص114،تذکرہ ص 615)
30۔’’ہرمکان سے خیردعاء ہے‘‘۔(البشریٰ ج 2ص123،تذکرہ ص 693)
31۔’’بشیر الدولہ،عالم کباب،شادی خان،کلمتہ اللہ خان‘‘۔(تذکرہ ص 636)
32۔’’مبارک‘‘(شاید ہیضہ کی)۔(البشریٰ ج 2ص222،تذکرہ ص 683)
33۔’’لائف آف پین‘‘۔(راقم :غالباً رجولیت کے وقت ہوا تھا)(البشریٰ ج 2ص128،تذکرہ ص 712)
34۔’’راز کھل گیا‘‘۔(راقم :غالباً یہ بھی رجولیت کے بارے میں ہے)۔(البشریٰ ج 2ص129،تذکرہ ص 712)
35۔’’بلاء دمشق ،سرک سری،ایک اور بلا برپا ہوئی‘‘۔(تذکرہ ص 714)
36۔’’پوری ہو گئی‘‘۔(البشریٰ ج 2ص130،تذکرہ ص 717)
37۔’’زلزلہ اس طرف چلا گیا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص130،تذکرہ ص 715)
38۔’’عبرت بخش سزائیں دی گئیں‘‘۔(البشریٰ ج 2ص132،تذکرہ ص 726)
39۔’’سرنگ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص141،تذکرہ ص 755)
40۔’’بستر عیش‘‘۔(البشریٰ ج 2ص88،تذکرہ ص 499)
41۔’’شوخ شنگ لڑکا پیدا ہوگا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص91،تذکرہ ص 513)
42۔’’چوہدری رستم علی‘‘۔(البشریٰ ج 2ص94،تذکرہ ص 532)
43۔’’تازہ نشان،تازہ نشان کا دھکا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص95،تذکرہ ص534)
44۔’’ہیضہ کی آمدن ہونے والی ہے ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص132،تذکرہ ص 725)
45۔’’زندگیوں کا خاتمہ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص103،تذکرہ ص 577)
46۔’’الرحیل ثم الرحیل۔موت قریب‘‘۔(البشریٰ ج 2ص141،تذکرہ ص 755)
47۔’’بہت سے حادثات کے بعد تیرا حادثہ ہوگا‘‘۔(تذکرہ ص 522)
48۔’’موت دروازہ پر کھڑی ہے‘‘۔(البشریٰ ج 2ص94،تذکرہ ص 532)
49۔’’لاہور میں ایک بے شرم ہے‘‘۔(البشریٰ ج 2ص126،تذکرہ ص 704)
50۔’’شکار مرگ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص94،تذکرہ ص 530)
51۔’’اس کتے کا آخری دم ہے‘‘۔(تذکرہ ص 417)
52۔’’بعد11/انشاء اللہ‘‘(البشریٰ ج 2ص65،تذکرہ ص 401)
53۔’’ایک ناپاک روح کی آواز آئی۔میں سوتے سوتے جہنم میں پڑ گیا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص95،تذکرہ ص 535)
54۔’’پیٹ پھٹ گیا‘‘۔(تذکرہ ص 672)
55۔’’ماتم کدہ‘‘۔(البشریٰ ج 2ص140،تذکرہ ص 752)
56۔’’ایک دم میں رخصت ہوا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص117،تذکرہ ص 666)
57۔’’جنازہ‘‘۔(نزول المسیح ص225،خزائن ج 18ص603)
58۔’’کمترین کا بیڑا غرق ہو گیا‘‘۔(البشریٰ ج 2ص121،تذکرہ ص 683)
59۔’’وقت رسید‘‘۔(تذکرہ ص 746)
60۔’’سوراخ دار برتن‘‘۔(راقم :گویا اپنی صفت بیان کی ہے پیشاب جو رکتا نہیں تھا)۔(کتاب البریہ ص84،خزائن ج 13ص102)

شیطانی الہامات کی علامت بھی مرزا غلام قادیانی کی زبان سے ہی ملاحظہ فرمائیں۔۔
’’شیطان گنگا ہے۔اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گنگے کی طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہو سکتا ۔ صرف ایک بدبودار پیرایہ میں فقرہ دو فقرہ دل میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کو ازل سے یہ توفیق ہی نہیں دی گئی کہ وہ لذیذ اور باشوکت کلام کر سکے ۔۔۔۔ اور نہ وہ بہت دیر تک چل سکتا ہے ۔گویا جلدی میں تھک جاتا ہے ‘‘۔(حقیقت الوحی ص139-140،خزائن ج 22ص143-144)

اہم نوٹ : مرزائی جماعت کی طرف سے تذکرہ کے ایڈیشن میں  الہامات کے  ترتیب کی  ردل بدل کی جاتی ہے ، اگر کسی کو ان الہامات کا سکین ریفرنس نہ مل رہا ہو تم ہم سے رابطہ کر لے ، شکریہ ، 

No comments:

Post a Comment