کنچنی کی کمائی اور مرزا غلام قادیانی کی تضاد بیانیاں
مصنف : مرتضیٰ مہر
1۔ ایک شخص کے سوال کے جواب میں مرزا غلام قادیانی کہتا ہے کہ ’’کنچنی (کنجری)کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں۔‘‘
(ملفوظات ج 5ص323اوّلڈ ایڈیشن)
اب سوال یہ ہے کہ اگر کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں ۔تو پھر کنچنی کی کمائی ہوئی رقم دین کے لئے کیسے درست ہو سکتی ہے جب کہ ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ ’’کہ کنچنی کی رقم دین میں لگ سکتی ہے ۔‘‘
2۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری ایک بہن کنچنی(کنجری) تھی اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا پھر وہ مر گئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی ۔ اب میں اس مال کو کیا کروں؟ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہو سکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ۔۔۔۔۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمت اسلام میں لگایا جا سکتا ہے ۔ (سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر:272)
حوالہ نمبر ایک کے مطابق کنچنی(کنجری) کی بنوائی ہوئی مسجد میں نمازنہیں ہوتی جبکہ وہ رقم دین کے لئے خرچ ہوئی تھی۔ جبکہ حوالہ نمبر دو کے مطابق کنچنی(کنجری) کی کمائی ہوئی رقم دین میں خرچ ہو سکتی ہے ۔اگر کنچنی کی دین کی خدمت کے لئے بنائی گئی مسجد میں نماز نہیں ہوسکتی تو دین کی اور کون سی خدمت ہے جو ادا ہو جاتی ہے؟ ۔ اب کوئی قادیانی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اُس شخص نے توبہ کر لی تھی اس لئے رقم پلید نہیں رہی بلکہ پاک ہو گئی پہلی وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ مرزاغلام قادیانی نے توبہ کو لازم قرار نہیں دیا دوسری وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ توبہ اُس عورت کے بھائی نے کی تھی عورت نے نہیں کی تھی۔ تیسری وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے نزدیک توبہ کے باجود کنجری کی رقم پلید ہوتی ہے کیونکہ ایک موقعہ پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پرزبان درازی کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ ’’کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری(کنچنی) کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر ناپاک ہاتھ لگائے اور زنا کاری کا پلید عطر اس کے سر پر ملے ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص 7،خزائن ج 11ص291)
اصل عبارت انجیل کی ملاحظہ کرنے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ ایک تو وہ عورت کنجری نہیں صرف گنہگار تھی لیکن اگر ہم اُس کومرزا اور مرزائیوں کو خوش کرنے کے واسطے کنجری بھی مان لیں تب بھی وہ توبہ کر چکی تھی اور عیسیٰ علیہ اسلام توبہ قبول کر چکے تھے ملاحظہ ہو ۔’’اس شہر میں ایک عورت گنہگار تھی ۔ ۔۔۔۔سنگ مرمر کے عطردان میں عطر لائی اور وہ نیچے پاوں کے کھڑی تھی اور رو رو کے آنسوؤں سے اس کے پاوّں دھونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے پونچھ کے اس کے پاوں کو شوق سے چوما اور عطر ملا ۔۔۔۔تب اُس عورت سے کہا تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ (لوقا باب 7،آیات ابتداء 37،لغائت 48)
اگر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام والے معاملے میں توبہ کے باوجود ہمارے نزدیک گنہگار اور مرزائیوں کے نزدیک کنجری عورت کی کمائی کا عطر ناپاک ہے تو پھر سیرت المہدی کی روایت والے شخص کی بہن کی کمائی کیونکر پاک ہے ۔ اور کونسا انصاف کا ترازو ہے جس پر پرکھ کر ایک شخص کے لئے ایک ہی چیز ناجائز بتائی جاتی ہے اور وہی چیز اپنے لئے جائز بتائی جاتی ہے ؟اگر یہ سب تضاد نہیں تو تضاد اور کس بلا کا نام ہے اور کیا ایسے ہی متضاد کلام والے شخص کو پاگل ،مجنوں،منافق اور خوشامدی نہیں کہا جائیگا؟ جیسا کہ یہ بات مرزا غلام قادیانی بھی تسلیم کر چکے ہیں ملاحظہ ہوا حوالہ:
1۔ ’’اگر کوئی پاگل اور مجنوں یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملاتا جائے تو اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے ۔‘‘(ست بچن ص30،خزائن ج 10ص142)
1۔ ایک شخص کے سوال کے جواب میں مرزا غلام قادیانی کہتا ہے کہ ’’کنچنی (کنجری)کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں۔‘‘
(ملفوظات ج 5ص323اوّلڈ ایڈیشن)
اب سوال یہ ہے کہ اگر کنچنی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز درست نہیں ۔تو پھر کنچنی کی کمائی ہوئی رقم دین کے لئے کیسے درست ہو سکتی ہے جب کہ ایک واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ ’’کہ کنچنی کی رقم دین میں لگ سکتی ہے ۔‘‘
2۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری ایک بہن کنچنی(کنجری) تھی اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا پھر وہ مر گئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی ۔ اب میں اس مال کو کیا کروں؟ حضرت صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میں خرچ ہو سکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ۔۔۔۔۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمت اسلام میں لگایا جا سکتا ہے ۔ (سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر:272)
حوالہ نمبر ایک کے مطابق کنچنی(کنجری) کی بنوائی ہوئی مسجد میں نمازنہیں ہوتی جبکہ وہ رقم دین کے لئے خرچ ہوئی تھی۔ جبکہ حوالہ نمبر دو کے مطابق کنچنی(کنجری) کی کمائی ہوئی رقم دین میں خرچ ہو سکتی ہے ۔اگر کنچنی کی دین کی خدمت کے لئے بنائی گئی مسجد میں نماز نہیں ہوسکتی تو دین کی اور کون سی خدمت ہے جو ادا ہو جاتی ہے؟ ۔ اب کوئی قادیانی یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اُس شخص نے توبہ کر لی تھی اس لئے رقم پلید نہیں رہی بلکہ پاک ہو گئی پہلی وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ مرزاغلام قادیانی نے توبہ کو لازم قرار نہیں دیا دوسری وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ توبہ اُس عورت کے بھائی نے کی تھی عورت نے نہیں کی تھی۔ تیسری وجہ اس تاویل کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی کے نزدیک توبہ کے باجود کنجری کی رقم پلید ہوتی ہے کیونکہ ایک موقعہ پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام پرزبان درازی کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ ’’کوئی پرہیز گار انسان ایک جوان کنجری(کنچنی) کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر ناپاک ہاتھ لگائے اور زنا کاری کا پلید عطر اس کے سر پر ملے ۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص 7،خزائن ج 11ص291)
اصل عبارت انجیل کی ملاحظہ کرنے سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ ایک تو وہ عورت کنجری نہیں صرف گنہگار تھی لیکن اگر ہم اُس کومرزا اور مرزائیوں کو خوش کرنے کے واسطے کنجری بھی مان لیں تب بھی وہ توبہ کر چکی تھی اور عیسیٰ علیہ اسلام توبہ قبول کر چکے تھے ملاحظہ ہو ۔’’اس شہر میں ایک عورت گنہگار تھی ۔ ۔۔۔۔سنگ مرمر کے عطردان میں عطر لائی اور وہ نیچے پاوں کے کھڑی تھی اور رو رو کے آنسوؤں سے اس کے پاوّں دھونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے پونچھ کے اس کے پاوں کو شوق سے چوما اور عطر ملا ۔۔۔۔تب اُس عورت سے کہا تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ (لوقا باب 7،آیات ابتداء 37،لغائت 48)
اگر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام والے معاملے میں توبہ کے باوجود ہمارے نزدیک گنہگار اور مرزائیوں کے نزدیک کنجری عورت کی کمائی کا عطر ناپاک ہے تو پھر سیرت المہدی کی روایت والے شخص کی بہن کی کمائی کیونکر پاک ہے ۔ اور کونسا انصاف کا ترازو ہے جس پر پرکھ کر ایک شخص کے لئے ایک ہی چیز ناجائز بتائی جاتی ہے اور وہی چیز اپنے لئے جائز بتائی جاتی ہے ؟اگر یہ سب تضاد نہیں تو تضاد اور کس بلا کا نام ہے اور کیا ایسے ہی متضاد کلام والے شخص کو پاگل ،مجنوں،منافق اور خوشامدی نہیں کہا جائیگا؟ جیسا کہ یہ بات مرزا غلام قادیانی بھی تسلیم کر چکے ہیں ملاحظہ ہوا حوالہ:
1۔ ’’اگر کوئی پاگل اور مجنوں یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملاتا جائے تو اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے ۔‘‘(ست بچن ص30،خزائن ج 10ص142)
No comments:
Post a Comment