رفع و نزول حضرت عیسیٰ علیہ سلام
مصنف : عاطف سعد
سورة النساء
فبما نقضہم ميثـقهم وكفرِهم بِـايـت اللهِ وقتلهم الأنبِياء بغيرِ حق وقولِهِم قلوبنا غلف بل طبع اللّه عليہا بِكفرِهم فَلَا يومنون إلا قليلا (١٥٥) وبِكفرِهم وقَولهِم علىٰ مريم بہتـنا عظيما (١٥٦) وقولِهم انا قتلنا المسِيح عِيسى ابن مریم رسول اللهِ وما قتلوه وما صلبوه ولـكن شبه لهم وان الذين اختلفوا فيه لفى شك منه ما لهم بِه من علم الا اتباع الظن وما قتلوه يقينا (١٥٧) بل رفعه اللّه إِليه وكان اللَّه عزِيزا حكِيما (١٥٨)۔
سو(ہم نے سزا میں مبتلا کیا)ان کی عہد شکنی کی وجہ سے اور ان کے کفر کی وجہ سے احکامِ الہیہٰ کے ساتھ اور ان کے قتل کرنے کی وجہ سے انبیاء کو ناحق اور ان کے اس مقولہ کی وجہ سے کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں بلکہ ان کے کفر کے سبب اُن(قلوب)پر الله تعالیٰ نے بند لگا دیا ہے سو ان میں ایمان نہیں مگر قدرے قلیل(۱۵۵( اور ان کے کفر کی وجہ سے اور حضرت مریم پر ان کے بڑا بھاری بہتان دھرنے کی وجہ سے۔ (۱۵۶( اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کوجوکہ رسول ہیں الله تعالیٰ کے قتل کردیا حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایالیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ ان کے بارہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اور انہوں نے ان کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا۔ (۱۵۷( بلکہ ان کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھا لیا اور الله تعالیٰ بڑے زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔ (۱۵۸(
وقتلھم الانبیا بغیر حق والی آیت میں انبیا کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور"وقولھم انا قتلنا المسیح" فرمایا یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔معلوم ہوا محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔اگر عیسیٰ علیہ سلام واقعی میں مقتول ہوتے تو جس طرح پہلی آیت میں "وقتلھم الانبیا" فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں وقتلھم وصلبھم المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ فرماتے۔پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیا ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا سبب قول بتایا نیز اس آیت میں حضرت عیسیٰ کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے "بل رفعہ اللہ" فرمایا بلکہ سابق انبیا کے قتل کو بیان کر کے "بل رفعھم اللہ" نہیں فرمایا۔ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔
اب ماقتلو جس میں قتل کی نفی فرمائی دوسرا ما صلبو جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔اگر فقط ما قتلو فرمایا جاتا تو شکوک پیدا ہوتے کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں مگر مصلوب ہوئے ہوں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور واضح ہوجائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی۔
مرزائی جماعت کا یہ خیال کہ اس آیت میں ذلت اور لعنت کی موت کی نفی مراد ہے محض شیطانی وسوسہ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔جیسے ما ضربوہ میں ضرب مطلق کی نفی ہے اسی طرح ماقتلو اور ما صلبو میں مطلق قتل اور مطلق صلب کی نفی ہے۔
"بل رفعہ اللہ علیہ" کی تفسیر کچھ یوں بیان ہے کہ یہودی عیسی علیہ سلام کو قتل نہ کر سکے اور نہ صلیب دے سکے۔ امام رازی نے "وایدناہ بروح القدس" کی تفسیر میں ذکر کیا ہے حضرت جبرئیل کو حضرت عیسی کے ساتھ خصوصیت تھی کہ انہیں کہ نفخہ سے پیدا ہوئے اور انہیں کی تربیت میں رہے اور وہی ان کو آسمان پر چڑھا لے گئے (تفسیر کبیر ج۱ ص ۴۳۶)۔ جیسا کہ شب معراج حضرت جبرئیل حضور اکرم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے(صحیح بخاری ج۱ ص ۴۷۱)یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرح ما قتلو اور ما صلبو کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے ما قتلو ، ما صلبو کی ضمیریں حضرت عیسی کے جسم مبارک کی طرف راجع ہیں۔روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں اس لئے قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے ۔ روح کا قتل یا مصلوب ہونا ناممکن ہے۔ دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذہ بل رفعہ سے مراد جسم ہی ہو گا۔اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی میں لانے کو اسی طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السما باعتبار ما قبل کے ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے اب کو آسمان پر اٹھا لیا۔جیسا کہ بل جا ھم باالحق میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے واقع ہو چکا ہے اسی طرح بل رفعہ اللہ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الیٰ الاسما ان کے مزعوم اور خیالی قتل و صلب سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے
"بل رفعہ اللہ علیہ" کی تفسیر کچھ یوں بیان ہے کہ یہودی عیسی علیہ سلام کو قتل نہ کر سکے اور نہ صلیب دے سکے۔ امام رازی نے "وایدناہ بروح القدس" کی تفسیر میں ذکر کیا ہے حضرت جبرئیل کو حضرت عیسی کے ساتھ خصوصیت تھی کہ انہیں کہ نفخہ سے پیدا ہوئے اور انہیں کی تربیت میں رہے اور وہی ان کو آسمان پر چڑھا لے گئے (تفسیر کبیر ج۱ ص ۴۳۶)۔ جیسا کہ شب معراج حضرت جبرئیل حضور اکرم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے(صحیح بخاری ج۱ ص ۴۷۱)یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بل رفعہ اللہ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے جس طرح ما قتلو اور ما صلبو کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے ما قتلو ، ما صلبو کی ضمیریں حضرت عیسی کے جسم مبارک کی طرف راجع ہیں۔روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں اس لئے قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم کا ہی ممکن ہے ۔ روح کا قتل یا مصلوب ہونا ناممکن ہے۔ دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور بل رفعہ اللہ میں اس کی تردید کی گئی لہذہ بل رفعہ سے مراد جسم ہی ہو گا۔اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی میں لانے کو اسی طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السما باعتبار ما قبل کے ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے اب کو آسمان پر اٹھا لیا۔جیسا کہ بل جا ھم باالحق میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے واقع ہو چکا ہے اسی طرح بل رفعہ اللہ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الیٰ الاسما ان کے مزعوم اور خیالی قتل و صلب سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے
جس وقت یہود حضرت عیسی کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہو سکا کہ اس وقت حضرت عیسی کا اللہ کی طرف رفع ہو گیا۔ممعلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا "بل رفعہ اللہ" میں ذکر ہے حضرت عیسی کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو اس وقت ان کو حاصل ہوا بجسدہ العنصری صحیح سالم آسمان پر اُٹھا لئے گئے ۔ رفعت شان اور بلندی تو ان کو پہلے سے حاصل تھی۔ رفعہ روحانی بمعنی موت لینے سے "وکان اللہ عزیز حکیما" کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی اس لئے کہ عزیز اور حکیم اور اس قسم کی ترکیب اس موقع پر استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی عجیب و غریب اور خارق العادات امر پیش آیا ہو اور وہ عجیب و غریب امر رفو جسمانی ہے۔اس مقام پر عزیز حکیما کو خاص طور پر اس لئے ذکر فرمایا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے جسم عنصری کا آسمان پر اٹھایا جانا محال ہے۔
قادیانیوں کے مطابق رفع (عزت کی موت) نہ کسی لغت سے ثابت ہے اور نہ کسی محاورہ سے اور نہ کسی فن کی اصطلاح سے۔محض مرزا قادیانی کی اختراع اور گھڑت ہے ۔ البتی رفع کا لفظ اعزاز کے معنی میں مستعمل ہے۔اگر رفع سے عزت کی موت مراد ہو تو نزول سے ذلت کی پیدائش مراد ہونی چاہئیے اس لئے کہ حدیث میں نزول کو رفع کا مقابل قرار دیا ہے اور ظاہر ہے نزول کے یہ معنی مرزا قادیانی کے لئے ہی مناسب ہیں
قادیانی ایک سوال کرتے ہیں کہ ایک شخص کی شکل ہو بہو عیسیٰ علیہ سلام جیسی کیسے ہو گئی۔۔۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح فرشتوں کا بشکل بشر متمثل ہونا، اور موسیٰ علیہ سلام کا عصا کا اژدھا بن جانا، انبیا کرام کے لئے پانی کا شراب اور زیتون بن جانا نصاریٰ کے نزدیک مسلم ہے پس اسی طرح اگر کسی شخص کو عیسیٰ علیہ سلام کے مشابہ بنا دیا جائے تو کیا استبعاد ہے؟ احیا موتیٰ کا معجزہ القا شبیہ کے معجزہ سے کہیں بلند تھا لہٰزہ احیا موتیٰ کی طرح القا شبیہ کے معجزہ کو بھی بلا تردد تسلیم کرنا چاہئیے۔ اگر حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک شخص کی شباہت دوسرے شخص پر ڈال دی تو اس میں استعجاب کیا ہے؟
بل رفعہ اللہ الیہ کی تفسیر میں تیرہ سو سال سے کسی مفسر ، محدث یا امام لغت نے رفع درجات یا رفع روحانی نہیں لیا۔ یہ صرف قادیانی تحریف کا شاخسانہ ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے دعویٰ رفع درجات یا روحانی رفع کے لئے اس آیت کی تفسیر میں سلف کا ایک قول نہیں پیش کر سکتے۔
:قادیانی سوال :رفعہ اللہ میں آسمان کا ذکر کہاں ہے
جواب: کیا تم نڈر ہو گئے اس ذات سے جو آسمان میں ہے اس سے کہ دھنسا دے تم کو زمین میں (الملک ۱۶)
کیا نڈر ہو گئے تم اس ذات سے جو آسمان میں ہے اس بات سے کہ برسا دے تم پر مینہ پتھروں کا (الملک ۱۷)
بیشک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف (البقرہ ۱۴۴)
اب مرزا صاحب کا رفع اللہ کے بارے میں لکھا دیکھتے ہیں "حضرت مسیح علیہ سلام تو انجیل کو ناقص ک ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے" (حاشیہ براہین احمدیہ ص ۳۶۱)
بل رفعہ اللہ الیہ (اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا) اس کلام کے یہ معنی ہی ہیں کہ اللہ نے آسمان پر اٹھا لیا جیسا کہ تعرج الملائکہ و الروح الیہ ( چڑہیں گے اس کی طرف فرشتے اور روح) جیسا کہ فرشتے اور روح الامین اللہ کی طرف چڑھتے ہیں یعنی آسمان پر۔ وقال تعالیٰ الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ ( اس کی طرف چڑہتا ہے کلام ستھرا اور کام نیک اس کو اٹھا لیتا ہے یعنی آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ اسی طرح بل رفعہ اللہ الیہ میں آسمان کی طرف اٹھایا جانا مراد ہو گا۔ بل رفعہ اللہ الیہ کے یہ معنی کہ خدا نے ان کو عزت کی موت دی ، جس طرح لغت کے خلاف ہیں اسی طرح سیاق و سباق کے بھی خلاف ہیں
قادیانی سوال : رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو
جواب : اگر یہ معنی صحیح ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ سلام اسی وقت مر گئے تھے اور کون نہیں جانتا کہ یہ یہود کی تائید ہے۔رفع کے معنی عزت کی موت لینے نہ صرف بوجہ تمام کتب لغت کے خلاف ہونے کے مردود ہیں بلکہ اس میں یہ نقص ہے کہ کلام ربانی درجہ فصاحت سے گر جاتا ہے کیونکہ دوسری آیت میں (رافعک) سے پہلے (متوفیک) کا وعدہ موجود ہے اور توفی کے معنی جیسا کہ کتب عربیہ اور تحریرات مرزا سے کسی چیز کو پورا لینے کے ہیں۔پس یہ کہنا کہ زندہ اٹھا لیا پھر ساتھ یہ کہنا کہ عزت کی موت سے کر اٹھا لیا یہ متضاد کلام اللہ کی شان سے بعید ہے اور اگر کہا جائے کہ متوفیک کے معنی بھی موت ہیں تو بھی خلاف فصاحت ہے کیونکہ جو بات اک لفظ موت سے ادا ہو سکتی تھی اس کو دو فقروں میں بیان کرنا بھی شانِ بلاغت پر دھبہ ہے۔ حاصل یہ کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ سلام کو مار دیا اور ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں مار تو دیا مگر یہ عزت کی موت ہے ، یہود کی تردید نہیں بلکہ تصدیق ہے حلانکہ آللہ تعالیٰ اس عقیدہ کو لعنتی قرار
دیتا ہے جو قادیانیوں کو مبارک ہو
دیتا ہے جو قادیانیوں کو مبارک ہو
مرزا قادیانی خود تسلیم کرتا ہے کہ آسمان پر بجسم عنصری جانا ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے ۔ مرزا لکھتا ہے "ہماری طرف سے یہ جواب ہی کافی ہے کہ اول تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ انسان مع جسم عنصری آسمان پر چڑھ جائے"(چشمہ معرفت ص ۶۱۹ خزائن ج ۲۳ ص ۲۲۸)
مرزائیوں پر تعجب ہے کہ بابا گرو نانک کے چولہ کا آسمان سے اترنا تو مرزا کے نزدیک تسلیم ہو سکتا ہے اور اس کو آگ نہیں جلاتی لیکن حضرت مسیح کے آنے یا جانے سے کرہ زمہر یا کرہ ناریہ مانع ہے؟ مرزا کا اقرار کہ "بعض لوگ انگد کے جنم ساکھی کے اس بیان پر تعجب کریں گے کہ یہ چولہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور خدا نے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں پر نظر کر کے کچھ تعجب کی بات نہیں (ست بچن ص۳۷ خزائن ج ۱۰ ص ۱۵۷)
حضرت عیسیٰ کا آسمان پر جانا خود مرزا قادیانی تسلیم کرتا ہے اور لکھتا ہے "اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی مندرجہ ذیل آیت ہے اور اس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمانوں کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے دیکھو متی باب ۲۴ آیت ۳۰ (مسیح ہندوستان میں ص ۳۸ خزائن ج ۱۵ ص ۳۸)
مرزا قادیانی اپنی کتاب ( شہادت القرآن ص 2 ) پر لکھتا ہے کہ تقریبا تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنےوالا ہےجس کانام عیسی ابن مریم ہوگا، جس قدر طریق متفرقہ کی رو سے احادیث نبویہ اس بارے میں مروی ہو چکی ہیں ، ان سب کو یکجائ نظر دیکھنے سے اس تواترکی قوت اورطاقت ثابت ہوتی ہے .
توضیح مَرام ص 2 ) پر لکھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہ خیال ھے کہ حضرت مسیح ابن مریم اسی عنصری (اصلی ) وجود سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے
توضیح مَرام ص 3 ) پر مرزا لکھتاہے کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اس وجود عنصری (اصلی کے ساتھ آسمان پرجانا تصورکیاگیا ہے وہ دو 2 نبی ہیں ایک یوحَنّا جن کا نام اَیلیَا ہےاور ادریس ہے دوسرے مسیح ابن مریم جن کو عیسی اور یَسُوع بھی کہتے ہیں ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر ر ہے ہیں کہ وہ دونوں آسمانوں کیطرف اٹھائے گئے اور پھر کسی زمانے میں زمین پر اتریں گے اور تم ان دونوں کو آسمان سےآتے دیکھو گے اِن ہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائےجاتے ہیں ،
چشمہ معرفت ص 83 ) پر مرزا لکھتا ھے کہ چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدائ پیش گوئ میں کچھ تَخَلُف ہو اس لیئے آیت ( ہوالذی ارسل رسولَہ بالھدی و دینِ الحقِ لِیُظہِرَہ علی الدین کُلِّہ ) کی نسبت سے متقدمین کا اتفاق ہےجو ہم سے پہلے گزرے ہیں کہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود ( عیسی علیہ السلام کے وقت میں ظہور میں آئےگا،
مرزا محمود خلیفہ قادیان ( حقیقت النبوت ص 142 ) پر لکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ( مرزاقادیانی) کے دعوے سے پہلے جس قدراولیاءصلحاء گذرے ہیں ان میں سے ایک بڑا گروه عام عقیده کے ماتحت حضرت مسیح (عیسی ) علیہ السلام کو زندہ خیال کرتا ہے .
مرزا قادیانی نے اپنی کتاب ( ازالہ اوھام ، سلسلہ تصنیفات احمدیہ ص 555 = 1127 ) پرلکھا کہ تواتر ایک ایسی چیزہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایاجائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے .
مرزا غلام قادیانی 52 باون سال تک مسلمانوں کے اجماعی واتفاقی عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کے حیات کے قائل رہے اور اس کو اہل اسلام کا اجماعی عقیده کہتا رہا مگر افسوس کہ مرزا قادیانی نے 52 باون برس کے بعد حیات عیسی علیہ السلام کے اجماعی عقیدے کے خلاف بزعم خود اپنے ایک خیالی الہام کی رو سے وفات عیسی علیہ السلام کا عقیده اپنالیا ۰
اب مرزا کا دوسرا روپ اور پینترا بدلنے کا انوکھا انداز ملاحظہ کریں
دافعُ البلاء ص 15 ) پر لکھتا ہے کہ حیات مسیح (علیہ السلام ) کا عقیده مشرکانہ عقیدہ ہے .
عجیب انداز مکروفریب ہے وہ شخص جو صرف نبوت ورسالت کا ہی دعویدار نہیں بلکہ مہدی و مسیح وغیره بے شمار دعووں کے ساتھ ساتھ افضل الانبیاء ہونے کا بھی خودساختہ دعوی رکھتا ہے 52 باون سال تک اپنے ہی بیان کے مطابق مشرکانہ عقیده اپنانے کی وجہ سے شرک میں مبتلا رہا ،کیا اللہ تعالی کے سچے انبیاء کی یہ حالت ہوتی ہے ؟ حاشا وکلا ہرگز نہیں بلکہ اللہ تعالی نے جتنے بھی انبیاء کرام کو مبعوث کیا، سب کے سب دعوی نبوت سے پہلے اور دعوی نبوت کے بعد ہر قسم کی صغیرہ و کبیرہ سے معصوم ہوتے ہیں حتی کہ لا یعنی اور فضول اعمال سے بھی معصوم ہوتے ہیں ،
نزولُ المسیح ص 32 ) پر مرزا لکھتا ہے کہ حیات مسیح کا قائل خدا اور رسول کا منکر ہے .
یعنی مرزا قادیانی اپنے گذشتہ عقیدے کے مطابق 52 باون سال تک خدا اور رسول کا منکر رہا اور اچانک ہی نبی، رسول ،مسیح ،مہدی ،اور کیا سے کیا بن گیا ، دجل وفریب کا یہ نرالا انداز تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتا ،اور ایسا ہی اس دجل وفریب کو حق وسچ سمجھ کر قبول کرنے والے انسانوں کی جنس بھی تاریخ انسانی میں نہیں ملتی .
ایام صلح ص 146 ) پرمرزا لکھتا ہے کہ قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے آنے کا کہیں بھی ذکر نہیں .
یہ مرزا کی دو رنگی بلکہ سورنگی کا ایک انداز آپ نے دیکھا یہی انداز مرزا نےتمام عقائد اسلام کے ساتھ اپنایا کبھی انکار کبھی اقرار، کبھی سچ کبھی جھوٹ ،اور یہ سب کچھ اداکاری مسلمانوں کا ایمان واسلام شکار کرنے کے لیئے اس نے کی ہے ۰
قرآن مجید اور احادیث متواترہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ونزول کےمتعلق مکمل اور انتہائ واضح تعلیم وتصریح موجود ہے ، اور اسی پر اہل سنت والجماعت کا قطعی اجماع ہے .
اور مرزا قادیانی کا وفاتِ عیسی علیہ السلام کا عقیدہ اپنانا سرا سر گمراہی بے دینی اور کفر کو اختیار کرنا ہے اور خدا اور ملائکہ اور لوگوں کی لعنت میں گرفتار ہونا ہے ،
فتوی مرزا قا دیانی خود مرزا کی اپنی کتاب میں
مرزا قادیانی کا اپنا فتوی پڑھ لیں اور خدا اور ملائکہ اور لوگوں کے ساتھ اسی کے حکم کے مطابق اس پر لعنت بھی بھیجیں
مرزاقادیانی اپنی کتا ب ( انجام آتھم ص 144 ) پرلکھتا ہے ، کہ مَن کفر بعقیدتہ اجماعیتہ فعلیہ لعنتُ اللہ والملائکہ والناس اجمعین ھذا اعتقادی وھو مقصودی ومُرادی ۰یعنی اجماع امت کے عقیدے کے منکر پر خدا کی اور اس کے فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ھو ، یہی میرا اعتقاد ہے یہی میرا مقصود ھے اور یہی میری مراد ھے ،،
۔مرزا لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۰ برس کی عمر پائ (اصل الفاظ ہیں کہ اس واقعہ (یعنی واقعہ صلیب) کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے گویا ۸۷ + ۳۳ ، ۱۲۰( ست بچن ص ۱۷۶)
۲۔ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۵ برس کی عمر میں انتقال کیا (تریاق القلوب ص ۳۷۱)
۲۔ حضرت عیسیٰ نے ۱۲۵ برس کی عمر میں انتقال کیا (تریاق القلوب ص ۳۷۱)
۳۔ حضرت عیسیٰ ۱۵۳ برس کی عمر میں فوت ہوئے(یہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد ۱۲۰ سال کی عمر پائی اب صلیب کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حضرت عیسیٰ کی عمر ۳۳ سال کے قریب تھی گو یا حضرت عیسیٰ کا انتقال مرزا کے مطابق ۱۵۳ سال کی عمر میں ہوا۔ (تذکرۃ الشہادتیں ص ۲۱)
۴۔اس طرح حضرت عیسیٰ کی قبر کے متعلق لکھا کہ یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہو گیا۔ (ازالہ اوہام دوئم ص ۴۷۳)
۵۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر بیت المقدس ، طرابلس یا شام میں ہے۔( اتمام الحجہ ص ۲۴ )
۶۔ پھر لکھا کہ مسیح کی قبر کشمیر ، سری نگر محلہ خان یار میں ہے ( کشتی نوح ص ۱۸)
اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ یہ کیسا مسیح موعود ہے اور کیسے الہامات اس کو ہوتے ہیں کیا اللہ کے نبی اسی طرح مختلف جگہوں جھوٹ کہتے ہیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میرا چیلنج ہے کہ کسی ایک حدیث سے حضرت عیسیٰ کی قبر سری نگر میں ہونا بتا دے اور یہ بھی بتائے کہ کیوں وہ مرزا کی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی قبر سری نگر میں ہے ۔ گلیل یا طربلس یا شام میں کیوں نہیں؟؟
No comments:
Post a Comment