Tuesday, May 3, 2016

جنسی تعلیم یعنی سیکس ایجوکیشن

جنسی تعلیم یعنی سیکس ایجوکیشن!


مصنف : گھمنام !


پاکستان  میں جنسی تعلیم کے حامی وہ لوگ ہیں جو قولا خود کو سیکولر کہتے ہیں لیکن عملا وہ محض  سیکس ورکرز سے زیادہ کچھ نہیں ہیں جن کا مقصد  اپنے قبحہ خانوں کی  سوسا ئٹی کے کلچر کو تجارتی مقاصد کے لئے  عام کرنا ہے۔ دوسری طرف طعنے بھی منٹو والے دیتے ہیں کہ ہماری حرکتیں  گندی نہیں تمہاری سوچ گندی ہے ۔ بنیادی طور پر یہ احساس کمتری کا شکار اور  ایک  ترسا ہوا طبقہ ہے جو مغرب کے لائف سٹائل کو  افورڈ تو  نہیں کرسکتا، لیکن اس لائف اسٹائل کے ان پہلوؤں کو اپنانے کا مشاق ہے جن کے اثرات سے خود مغرب کا خاندانی و معاشرتی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے ـ یہ طبقہ اپنے تجارتی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستانی معاشرے پر ایسا کلچر مسلط کرنا چاہتا جو یہاں کے معاشرتی ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا  ، مغرب میں اسکے ضمنی اثرات کیا ہیں ،اس سے نہ تو ان کو کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی  انہوں نے اسکے اثر کو کم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس  انتظام کر رکھا ہے ؟ یہ طبقہ نہ  پاکستان میں انکی اقدامات کی سرے سے  ضرورت محسوس کرتا ہے نہ انکی غیر موجودگی سے انہیں کوئی فرق پڑتا ہے۔ انکو بس سیکس اور زنا کا مادف پدر آزاد ماحول چاہیے جس میں جنسی ضروریات بالکل اسی طرح کریں جس طرح جانور کرتے ہیں ـ

 حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو  پاکستان نہ فری سیکس سوسائٹی ہے نا ایک  ویلفیئر اسٹیٹ،  ایسی کوئی بھی ایجوکیشن پاکستانی بچوں کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں ہے جس کے خود مغرب میں حد سے زیادہ منفی اثرات سامنے آئے ہیں، پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔۔

سیکولر افراد کہتے ہیں کہ جنسی تعلیم کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ مذہب اس سے روکتا ہے۔ اگر مذہب کو کچھ دیر سائیڈ پر رکھ دیں تو بھی اس کے منفی اثرات کنٹرول کرنے کا کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل نہ تو حکومت کے پاس ہے نہ ہی  موم بتی مافیا کی  این جی اوز کے پاس۔ راقم الحروف نے ایک ایسے اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں جنسی تعلیم ایک زائد از نصاب کے طور رائج تھی۔ سال میں چھ کلاسز ہوتی تھیں۔ عملا تو یہ بھی ایک فری سیکس سوسائٹی ہے (اگرچہ سرعام اس کی اجازت ہے نہ حوصلہ افزائی ، حکومت، معاشرے اور خاندان کا خوف بھی موجود ہے مگر یہ سب رکاوٹ نہیں ہیں)، بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر رواج پا رہا ہے، پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس کلچر کو فروغ دیا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ نے نوجوان نسل کو اب وہ مواقع فراہم  کر دیے ہیں جس کا کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا۔ اب تو بچے چودہ سال کی عمر میں ہی اپنی جوانی کا جوش دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر عمل بھی کر گزرتے ہیں مگر اس کی وجہ سے بالخصوص لڑکیوں کےلیے بہت سی پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور غیر محفوظ جنسی عمل کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں کا حاملہ ہونا ، پھر اسقاط حمل کروانا ،یا پھر اسقاط حمل وقت پر نہ کروانے کی وجہ سے نو عمر ماں بن جانا وغیرہ وغیرہ، ہمیں جنسی تعلیم پر جو لیکچر دیے جاتے تھے، ان میں زیادہ تر انھی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی، اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ غیر محفوظ جنسی عمل کے بجائے حفاظتی طریقوں کا استعمال کرنا کتنا مفید ہے جس سے لڑکی کو اسقاط حمل جیسا عمل  نوعمری میں نہیں کروانا پڑے گا۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں شک کی بنیاد پر لڑکیاں قتل کر دی جاتی ہیں ، وہاں انھیں یہ راستہ دکھانا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر قتل نہ بھی ہوں تو عملا معاشرے میں ان کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے اور ان کی حیثیت ایک اچھوت جیسی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی جلدی ماں بن جانا ایک نو عمر لڑکی کے لیے کتنا مشکل ہوتا ہے یہ ایک لڑکی ہی جان سکتی ہے، مگر مغرب میں نہ تو حکومتیں کرپٹ ہیں نہ وہاں کے سسٹم  اپنے لوگوں کو ذلیل و خوار کرتے  ہیں، اگر کوئی لڑکی نو عمری میں ماں بن جائے جو کہ اکثر ہوتا ہے تو اس کے لیے حکومت کی طرف ماہانہ خرچہ ، صحت کی نگہداشت اور دوسری بنیادی ضروریات کا پورا پورا خیال حکومت کی طرف  رکھا جاتا ہے، دوسری طرف  پاکستان میں تو ویسے ہی زندگی کے لالے پڑے ہوتے ہیں

ہماری اپنی کلاس میں وہ لو برڈ جو صرف پپی لو تک محدود تھے ان چھ کلاسز کے بعد اپنی حدود کراس کر گئے کیوں کہ لڑکوں نے اپنی گرل فرینڈز کو یہ  یقین دلا دیا تھا کہ ٹیچر کے بتائے ہوئے حفاظتی طریقے اختیار کرنے سے محفوظ سیکس ہوتا ہے اس لیے اب ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے. جب ایک دفعہ یہ ہچکچاہٹ ختم ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اس دوران ہماری ایک اسکول فیلو حاملہ ہو گئی اور لڑکے نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس طرح سنگل مادر سامنے آتی ہیں اور مغرب میں یہ رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ سنگل مادر سے پیدا ہونے والے بچے نہ صرف باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہتے ہیں بلکہ انھیں کئی قسم کے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے.

 اگر کچھ دیر کے لیے اس بحث سے مذہب اور معاشرے کو نکال دیں تو بھی کیا ہمارے جنس زدہ سیکولر افراد جو جنسی تعلیم اور فری سیکس سوسائٹی کے حامی ہیں تو کیا ان کے پاس اس تعلیم کے منفی اثرات سے بچائو کا کوئی ٹھوس پلان موجود ہے؟ کیا حکومت وقت ایسا ویلفیئرسسٹم متعارف کرواسکتی ہے جہاں سنگل مادر کو قتل کا خطرہ نہ ہو، جہاں اس کی زندگی حقارت سے اجیرن نہ بنا دی جائے اور جس کا ماہانہ خرچہ، صحت و تعلیم کی بنیادی ضرویات حکومت فراہم کرے۔

دیسی لبرلز اور سیکولرز سے گزارش ہے کہ اپنے پانچ منٹ کے مزے کی خاطر پورے معاشرے کو تباہ نہ کریں اور مذہب پر پھپتیاں کسنے کے بجائے پہلے اپنا حکومتی اور معاشرتی نظام دیکھ لیں !

1 comment:

  1. ایک ضروری موضوع پر آپ نے قلم اُٹھایا ہے ۔ مزید لکھنے کی ضرورت ہے ۔ تعلیمی اور معاشرتی حوالے سے بھی

    ReplyDelete