رفع
ونزولِ عيسى ابن مريم عليهما السلام
اور
اجماع امت
(کینیڈا
میں مقیم قادیانی مربی انصر
رضا کی تلبیسات کا رد)
|
ترتيب
وتحقيق: حافظ عبيد الله
h.ubaid153@gmail.com
بسم
الله الرحمن الرحيم
چند
احباب نے انٹرنیٹ پر موجود ایک قادیانی بلاگ پر لکھی گئی کینیڈا میں مقیم قادیانی مربی انصر رضا کی ایک تحریر کی طرف توجہ
دلائی اور استفسار کیا کہ کیا اس میں بیان کردہ باتیں اور حوالہ جات درست ہیں؟ کیا یہ بات صحیح
ہے کہ انصر رضا نے اس مضمون میں جن علماء امت کا ذکر کیا ہے وہ تمام اس بات کے
قائل تھے کہ "حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام" زندہ نہیں اور قیامت سے قبل ان کا نزول نہیں ہونا ؟؟ چنانچہ بندے نے انصر رضا کے اس مضمون کا مطالعه کیا
اور اس میں دیے گئے حوالہ جات کا اصل کتب و مصادر سے جائزہ لیا تو اس نتیجے پر
پہنچا کہ انصر رضا نے اسی دھوکے اور فریب کا مظاہرہ کیا ہے جو قادیانی مربیوں کا
خاصہ ہے، جب بھی قادیانی مربیوں کے سامنے ان کی کتب سے کوئی حوالہ پیش کیا جاتا ہے
تو اس سے جان چھڑانے کے لیے ان کا پہلا
جواب یہ ہوتا ہے کہ "علماء
اسلام صرف اپنے مطلب کے الفاظ ہماری کتابوں سے پیش کرتے ہیں ، اور حوالے کا سیاق و
سباق نظر انداز کرتے ہیں"،
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ انصر رضا جیسے
عربی عبارت سے نابلد مربی خود ایک
کتاب سے چند الفاظ سیاق و سباق سے کاٹ کر
پیش کرتے ہیں اور یہ دعوى کردیتے ہیں
کہ اس کتاب کا مصنف تو ہمارے عقیدے کے
مطابق عقیدہ رکھتا ہے ، لیکن ان کو یہ نظر
ہی نہیں آتا کہ اسی کتاب میں اسی جگہ اسی
صفحے پر قادیانی عقیدے کی عمارت زمین بوس کی گئی ہے (تفصیل آگے آ رہی ہے).
آئیے
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ قادیانی مربی انصر رضا نے کیا دعوى کیا
؟ ، لکھا ہے:
کیا حیات مسیح پر امت مسلمہ کا اجماع ہے؟
"غیراحمدی علماء کی طرف سے عوام الناس کو یہ
تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں تمام امت مسلمہ متفقہ طور
پر یہ مانتی آئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم سمیت زندہ آسمان پر
اٹھالئے گئے تھے، ابھی تک اسی جسم سمیت وہاں زندہ موجود ہیں ، اور قرب قیامت میں
اسی جسم اور زندگی کے ساتھ زمین پر اتریں گے اور یہ کہ احمدیہ مسلم جماعت نے وفاتِ
مسیح کا عقیدہ پیش کرکے اس متفقہ عقیدہ کی مخالفت کی ہے اور گویا ایک نیا عقیدہ
پیش کیا ہے۔احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے قرآن و سنّت سے حیاتِ مسیح کی تردید میں
دلائل کے ساتھ ساتھ بزرگانِ امّت کے بھی ایسے حوالہ جات پیش کئے جاتے رہے ہیں جن
میں وفاتِ مسیح کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں قدیم و
جدید علماء کے ایسے چند مزید حوالہ جات پیش کئے جارہے ہیں جن میں صراحتًا حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کا فوت شدہ ہونا بیان کیا گیا ہے"۔
انصر
رضا کے ان الفاظ سے اس کا یہ دعوى
نکلتا ہے کہ وہ جن قدیم و جدید علماء کے حوالے
اس مضمون میں پیش کرنے جا رہا ہے وہ تمام اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام فوت شدہ ہیں اور زندہ نہیں ہیں، انہیں جسم سمیت آسمان پر
نہیں اٹھایا گیا ، اور ان کا نزول نہیں
ہونا ، یعنی حضرت عيسى ابن
مريم عليهما السلام کے "رفع ونزول" پر
اجماع امت نہیں .
اس
سے پہلے کہ ہم انصر رضا کے پیش کردہ حوالہ جات پر نمبر وار بات کریں، یہ بات ذہن
میں رکھنا ضروری ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مرزا قادیانی نے حضرت عيسى عليه السلام کے بارے میں جو نیا عقیدہ پیش کیا وہ نہ اس سے پہلے امت
مسلمہ میں کسی کا تھا اور نہ اسکے بعد کسی مسلمان کا آج تک ہے، بلکہ مسلمانوں کو تو ایک طرف رکھیں
کسی یہودی یا عیسائی کا بھی وہ عقیدہ نہیں ، مرزا قادیانی نے جو عقیدہ پیش کیا اس
کا خلاصہ یہ ہے کہ :
"حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کی عمر 33 برس اور6 ماہ تھی کہ دشمنوں نے آپ کو پکڑ کر دو چوروں کے ساتھ صلیب پر ڈال دیا تھا،
آپ کے جسم مبارک میں کیلیں لگائی گئیں اور آپ کو اتنی ايذاء دی گئی
کہ آپ شدت تکلیف سے بے ہوش ہو گئے، یہاں تک دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے
گئے، لیکن آپ در حقیقت ابھی زندہ تھے، آپ کو صلیب سے اتار کر آپ کے زخموں کا علاج
کیا گیا اور پھر آپ وہاں سے فرار ہو کر مختلف ممالک سے ہوتے ہوے آخر کار کشمیر
پہنچ گئے، اور وہاں مزید تقريباً
ستاسی سال زندہ رہ کر ایک سو بیس یا ایک سو پچیس
سال کی عمر میں فوت ہوے اور آپ کی قبر سری
نگر کے محلہ یار خان میں آج بھی موجود ہے، اور احادیث میں جن عيسى ابن مريم کے نزول کا ذکر ہے
اس سے مراد میں غلام احمد بن چراغ بی بی ہوں"
(مرزا کا یہ عقیدہ اس کی کتابوں سے لیا گیا ہے
، طلب کرنے پر ہر بات کا حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے) .
کیا
انصر رضا، مرزا سے پہلے یا اس کے بعد ہونے
والے کسی ایک مسلمان عالم کا کوئی ایک حوالہ پیش کر سکتا ہے جس نے اپنا نظریہ یہ بیان کیا ہو؟؟؟ ہرگز نہیں
... قادیانی مربی کمال فریب سے صرف "وفات مسیح" کا لفظ ذکر کرتے ہیں اور
پھر دعوا کرتے ہیں کہ یہ عقیدہ ہم نے نہیں ایجاد کیا بلکہ اور بھی بہت سے لوگ یہ
عقیدہ رکھتے تھے ، اور عوام
الناس کو یہ باور کرواتے ہیں کہ گویا قادیانی عقیدہ اور ان لوگوں کا عقیدہ جن کی طرف
انصر رضا جیسے لوگ "وفات مسیح" منسوب کرتے ہیں ایک ہی ہے ..
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس امت کے خير القرون میں ، جن کے بہترین زمانے ہونے کی خبر نبی كريم صلى الله عليه
وسلم نے دی ہے يعنى صحابه كرام رضي الله عنهم ، تابعين وتبع تابعين رحمة الله
عليهم کے زمانے میں کسی ایک صحابی، کسی ایک تابعی یا تبع تابعى سے
مستند طریقے سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ہیں اور
انہوں نے قیامت کے قریب نازل نہیں ہونا، اس کے بعد بھی سوائے چند معتزله اور
فلسفیوں کے تمام معروف محدثین، مفسرین اور
مجددین اسی بات کے قائل تھے کہ حضرت عيسى
عليه السلام نے دوبارہ نازل ہونا ہے اور ان کا نزول علامت
قیامت میں سے ہے ، خود مرزا قادیانی بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، چنانچہ ایک جگہ
لکھتا ہے:
"واضح ہو کہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیش گوئی
ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف ائمہ حدیث میں چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو
وبس، بلکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ پیشگوئی عقیدہ کے طور پر ابتداء سے مسلمانوں کے
رگ و ریشہ میں چلی آتی ہے، گویا جس قدر اس وقت روۓ زمین پر مسلمان تھے اسی قدر اس
پیشگوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں، کیونکہ عقیدے کے طور پر وہ اس کو ابتداء سے
یاد کرے چلے آتے تھے ........"
(شهادة
القرآن ، روحانى خزائن جلد 6 صفحه 304) .
یہ احادیث میں بیان کردہ
کون سی پیشگوئی ہے جس کا ذکر مرزا قادیانی کر رہا ہے؟ ؟ يقينا
انہی احادیث کی طرف اشارہ ہے جن کے اندر نبی
کریم صلى الله عليه وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ "مریم کے بیٹے عيسى عليه السلام" نے نازل ہونا ہے، یوں مرزا قادیانی خود تسلیم کر رہا ہے کہ
ابتداء سے تمام مسلمان "نزولِ
عيسى عليه السلام" پر یقین
رکھتے ہیں، اسی طرح مرزا قادیانی نے کہا :
"ایک دفعه
ہم دلّي گئے
تھے، ہم نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ تم نے تیرہ سو برس سے یہ نسخہ استعمال کیا ہے
کہ آنحضرت صلى الله
عليه وسلم کو مدفو ن اور حضرت عيسى عيسى کو زندہ آسمان پر بٹھایا...." (ملفوظات
، جلد 5 صفحه 579 ، پانچ جلدوں
والا ایڈیشن)
مرزا
تسلیم کر رہا ہے کہ اس سے پہلے تیرہ صدیوں سے مسلمانوں میں یہی عقیدہ چلا آرہا تھا
کہ حضرت عيسى عليه السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں .
یہ تو تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی ہجری میں اکا دکا آوازیں آنا
ہوئیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کی موت ہو چکی ہے، وہ زندہ نہیں ہیں اور اب ان کا نزول نہیں ہونا، جن میں مصر کے دو تین علماء جوبہت سی باتوں میں
جمہور علماء سے الگ آراء رکھتے ہیں اور ہندوستان میں سر سید احمد خان وغیرہ نمایاں
ہیں، سر سید نے تو یہ شوشہ اپنی (نام نہاد) تفسير القرآن میں
اس وقت چھوڑ دیا تھا جب ابھی 1882
ء میں مرزا قادیانی اپنی پہلی تصنیف "براہین
احمدیہ" شائع کررہا تھا جس میں مرزا قادیانی نے خود قرآن کی
آیات سے ثابت کیا کہ حضرت عيسى
عليه السلام زندہ ہیں اور انہوں نے دوبارہ آنا ہے ، الغرض!
ان چند مصری علماء اور سر سید وغیرہ چند لوگوں کی رائے تیرہ صدیاں پہلے سے چلے آرہے اجماع پر اثر انداز نہیں ہو سکتی، نیز جیسا کہ
میں نے بیان کیا جن لوگوں نے یہ رائے دی کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اب کسی مسیح نے نہیں
آنا اور اس بارے میں جو احادیث پائی جاتی ہیں وہ سب اسرائیلی اور ناقابل اعتبار روايات ہیں
یوں ان کا مرزا قادیانی کو مسیح موعود
ماننے کا سوال ہوئی پیدا نہیں ہوتا ، ان لوگوں نے اپنی رائے کی بنیاد یہ
رکھی کہ وہ تمام احادیث جن کے اندر حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کے نازل ہونے کا ذکر ہے صحیح نہیں (جو کہ ان کی غلط رائے
تھی، یہ احادیث نہ صرف اصول حدیث کی رو سے صحیح ترین بلکہ متواتر ہیں) جبکہ مرزا
قادیانی نے یہ نیا عقیدہ ایجاد کیا کہ حضرت عيسى عليه السلام تو فوت ہو کر کشمیر میں دفن ہو گئے اور احادیث میں جن کے
نازل ہونے کا ذکر ہے وہ میں ہوں .
اب
آئیے نظر ڈالتے ہیں انصر رضا کے پیش کردہ حوالوں پر ، سب سے پہلے اس نے ایک
حوالہ پیش کیا ہے جس میں انصر رضا کے خیال کے مطابق ایک حدیث کے الفاظ یوں لکھے ہیں:
’’لو کان عیسیٰ حیا ما وسعہ
الاتباعی‘‘ اگر
عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ انصر رضا نے حوالہ یوں
لکھا ہے (الفقہ الاکبر از امام ابو حنیفہ ۔ صفحہ۔۱۰۱۔ناشر دار الکتب العربیۃ الکبریٰ(
پھر
اس حوالے کے بارے میں انصر رضا نے ایک نوٹ بھی لکھا ہے کہ :
"سب سے پہلا حوالہ جو فقہ اکبر سے لیا گیا
ہے وہ کتاب جب مصر میں طبع ہوئی تو اس میں یہی الفاظ تھے ’’لو
کان عیسیٰ حیا۔۔۔‘‘ لیکن جب وہی کتاب ہندوستان سے شائع ہوئی تو اس میں تحریف
کرکے اسے ’’لو موسیٰ
حیا۔۔۔ ‘‘ بنادیا گیا حالانکہ اس
عبارت کے سیاق و سباق میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر ہورہا ہے۔خاکسار کے
پاس یہ دونوں نسخے موجود ہیں" .
دوستو! پہلی بات یہ کہ انصر رضا کو یہ بھی علم نہیں کہ یہ الفاظ جو اس نے پیش
کیے ہیں امام ابو حنیفہ رحمة الله
عليه کی کتاب "الفقه
الاكبر" میں نہیں جیسا کہ اس نے حوالے میں دھوکہ دینے کی کوشش کی
ہے، بلکہ "الفقه الاكبر" کی ملا علی قاری رحمة الله عليه نے "منح الروض الازهر" کے نام سے جو شرح لکھی ہے اسکے صرف مصری نسخے میں یہ الفاظ ملتے ہیں اور وہاں
بھی طباعت کی غلطی سے لفظ
"موسى" کی جگہ "عيسى" لکھا گیا ہے، اور دوسرے
تمام نسخوں میں صحیح الفاظ "لوكان موسى
حياً ..." ہی ہیں ، جسے
انصر رضا تحریف بتا رہا ہے ، اگر انصر رضا نے یہ پڑھا ہوتا کہ اس مقام پر بیان کیا
ہو رہا ہے تو وہ اتنی بڑی حماقت نہ کرتا ، کیونکہ یہاں تو بیان ہی "الفقه
الاكبر" کی اس عبارت کی تشریح ہو رہی ہے جس میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام کا نازل ہونا ہے،
اور جو الفاظ ملا على قاري رحمة الله
عليه نے اسی صفحے پر ان
الفاظ سے پہلے لکھے ہیں جو انصر رضا نے پیش کرکے دھوکہ دیا ہے وہ یہ ہیں:
"كما
قال الله تعالى وانه أي عيسى لعلم للساعة أي علامة القيامة ، وقال الله تعالى :
وان من أهل الكتاب الا ليؤمنن به قبل موته ، أي قبل موت عيسى عليه السلام بعد
نزوله عند قيام الساعة فتصير الملل واحدة وهي ملة الاسلام الحقيقية ...... فترتيب
القضية أن المهدى عليه السلام يظهر أولاً
في الحرمين الشريفين ثم يأتي بيت المقدس فيأتي الدجال ويحصره في ذلك الحال فينزل
عيسى عليه السلام من المنارة الشرقية في دمشق الشام ويجيء الى قتال الدجال فيقتله
بضربة في الحال فانه يذوب كالملح في الماء عند نزول عيسى عليه السلام من السماء
فيجتمع عيسى بالمهدي رضي الله عنه وقد اقيمت الصلاة فيشير المهدي لعيسى بالتقدم
فيمتنع معللاً بأن هذه الصلاة اقيمت لك فأنت اولى بأن تكون الامام في هذا المقام
ويقتدي به ليظهر متابعته لنبينا صلى الله عليه وسلم "
ترجمہ : اللہ تعالى نے فرمایا کہ وہ يعنى عيسى عليه السلام قیامت کی نشانی
ہیں، نیز الله نے فرمایا : اہل کتاب میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جو عيسى عليه السلام کے قیامت کے قریب
نازل ہونے کے بعد ان پر ایمان نہ لے آئے، پس تمام ملتیں (مذاہب) ختم ہو کر صرف ایک
مذھب رہ جائے گا اور وہ اسلام ہوگا ...... معامله یوں ہوگا کہ پہلے حرمين شريفين میں حضرت مہدی کا ظہور
ہوگا، پھر آپ بيت المقدس تشريف لائیں گے، پس دجال آئے گا اور محاصرہ کرے گا، اس وقت شام کے شہر دمشق کے مشرقی
حصے میں منارے سے حضرت عيسى عليه
السلام نازل ہوں گے ، اور وہ دجال کا ایک ہی ضرب سے خاتمہ کردیں گے
وہ اس ضرب سے ایسے پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک اور یہ اس وقت ہوگا جب عيسى عليه السلام آسمان سے نازل ہوں گے،
اس کے بعد حضرت عيسى عليه السلام حضرت مہدی کے ساتھ ملیں گے ، اس وقت نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی ہوگی، حضرت
مہدی ان کو اشارہ فرمائیں گے کہ آگے ہو کر
نماز پڑھائیں، لیکن حضرت عيسى عليه السلام
یہ فرمائیں گے کہ یہ اقامت آپ کے لیے کہی گئی ہے لہذا آپ ہی
کے لیے اس وقت امامت کروانا بہتر ہے، یوں حضرت عيسى عليه السلام ان کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے ، مقصد یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ اب انھیں
ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کی اتباع ہی کرنی ہے"
.
(شرح الفقه
الاكبر از ملا علي
قاري ، مصري نسخه ، صفحه 101)
دوستو! آپ نے دیکھا کہ یہاں ملا علی قاري رحمة الله عليه نے صاف طور پر قرآن كريم کی دو آیات پیش فرما کر ثابت کیا ہے کہ قرب قیامت حضرت مريم کے بیٹے عيسى عليه
السلام نے نازل ہونا ہے، یہ بھی صاف لکھا کہ انہوں نے شام کے شہر
دمشق میں نازل ہونا ہے، یہ بھی واضح لکھا کہ انہوں نے آسمان سے نازل ہونا ہے، یہ
بھی صراحت فرمائی کہ حضرت مهدى اور حضرت عيسى عليه السلام دو الگ الگ شخصیات ہیں اور حضرت عيسى عليه السلام
نے حضرت مہدی کے پیچھے نماز بھی ادا کرنی ہے یہ بتانے کے
لئے کہ اب انہوں نے اپنی انجيلى شريعت پر عمل نہیں کرنا بلکہ حضرت محمد صلى الله
عليه وسلم کی شريعت کی اتباع کرنی ہے ... یہ سب انصر رضا اور قادیانی عقیدے کا ستیاناس
کیا گیا ہے یا نہیں؟؟ لیکن انصر رضا اور قادیانی مربی اس عبارت کا ذکر تک نہیں
کرتے، اسکے بعد متصل مصری نسخے میں یہ الفاظ ہیں کہ :
"كما
اشار الى هذا المعنى صلى الله عليه وسلم بقوله لوكان عيسى حياً لما وسعه الا
اتباعى" اسی معنى کی طرف آنحضرت صلى الله عليه
وسلم نے اپنے اس فرمان میں اشارہ فرمایا ہے کہ اگر عيسى زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا ...
یہ ہیں وہ الفاظ جو قادیانی مربی پیش کرتے ہیں .... اب عربی کا طالب علم
اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ جب پہلے یہی ملا على قارى رحمة الله عليه خود یہ فرما رہے
ہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام نے آسمان سے شام کے شہر دمشق میں نازل ہو کر دجال کو قتل کرنا ہے اور حضرت
مہدی کے پیچھے نماز بھی ادا کرنی ہے ، اور انھیں وہ قیامت کی نشانی بھی لکھ رہے
ہیں تو پھر اس بات کی کیا تک بنتی ہے کہ "اگر وہ زندہ ہوتے تو انھیں میری اتباع کے سوا چارہ نہ ہوتا"؟ يقيناً یہاں "لوكان عيسى" کے الفاظ درست نہیں بیٹھتے بلکہ طباعت کی غلطی سے "موسى" کی جگہ "عيسى" چھپ گیا (ہم آگے ثابت کریں گے کہ
واقعی کتب حدیث میں لوكان موسى حياً کے ہی الفاظ ہیں) .. لیکن ابھی ہم یہاں ایک اور دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہاں
"لوكان عيسى
حياً" کے الفاظ غلطی
ہے، اس کے بعد خود ملا علی قاری نے لکھا ہے :
"وقد بينتُ
وجه ذلك عند قوله تعالى واذ أخذ الله ميثاق النبيين لما آتيتكم من كتاب وحكمة ثم
جاءكم رسول ..الآية .. في شرح الشفاء وغيره وقد ورد أنه يبقى في الارض اربعين سنة
ثم يموت ويصلى عليه المسلمون ويدفنونه على ما رواه الطيالسي في مسنده وروى غيره
أنه يُدفن بين النبي صلى الله عليه وسلم والصديق رضي الله عنه .... الخ
ترجمہ: اور میں نے یہ بات شرح شفاء میں آیت کریمہ واذ أخذ الله ميثاق النبيين ... کی وضاحت کرتے وقت بیان کی ہے ....اور یہ بات بھی وارد شدہ
ہے کہ حضرت عيسى عليه السلام زمین میں چالیس سال رہیں گے پھر ان کی موت ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ
پڑھیں گے، اور جیسا کہ امام طیالسی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے انھیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور حضرت ابو بکر
صديق رضي الله عنه کے درمیان دفن کیا جائے گا.
(شرح الفقه
الاكبر از ملا علي قاري ، مصري نسخه ، صفحه 101)
یہاں
ملا علی قاری نے اشارہ دیا ہے کہ انہوں نے اسی موضوع پر اپنی کتاب "شرح شفاء" میں بھی لکھا ہے ، نیز وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عيسى عليه السلام (نزول کے بعد)
زمین پر چالیس سال رہیں گے اور پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ
ادا کریں گے ... (یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی ابھی تک موت نہیں ہوئی) ...
لیکن آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ملا على قارى
رحمة الله عليه نے "شرح
شفاء" آيت واذ أخذ الله ميثاق النبين کے ذیل میں کیا لکھا ہے:
"واليه اشار صلى الله عليه وسلم حين رأى عمر ينظر في
صحيفة من التوراة لوكان موسى حياً لما وسعه الا اتباعى" اسی بات کی طرف نبی کریم صلى الله عليه
وسلم نے اشارہ فرمایا جب آپ نے حضرت عمر رضي الله عنه کو تورات کے ایک
صحیفے پر نظر جمائے دیکھا ، آپ نے فرمایا : اگر موسى (عليه السلام) بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا . (شرح الشفاء از
ملا على قاري ، جلد 1 صفحه 106 ، دار الكتب العلميه بيروت)
تو دوستو! بات واضح ہوگئی، شرح الفقه الاكبر میں ملا علی قاری
نے اپنی کتاب "شرح شفاء" کی طرف اشارہ کیا اور وہاں حضرت موسى عليه
السلام کا نام ہے نہ کہ حضرت عيسى عليه السلام کا، اور میں یہ
بھی بتاتا چلوں کہ اسی "شرح
شفاء" میں مزید تین چار جگہ ملا علی قاری نے یہی حدیث "لوكان موسى
حياً" کے الفاظ کے ساتھ
ہی ذکر کی ہے ، نیز ملا علی قاری رحمةالله عليه
نے اپنی ایک تیسری کتاب "مرقاة شرح مشكوة" میں بھی تین چار
جگہ یہی حدیث "لوكان موسى حياً" کے الفاظ کے ساتھ ہی ذکر کی ہے جس کے حوالے نیچے لگا دیے گئے ہیں ، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ
کوئی قادیانی مربی کسی حدیث کی کتاب سے سند کے ساتھ یہ حدیث "لوكان عيسى
حياً" کے الفاظ کے ساتھ
نہیں دکھا سکتا ، لہذا اب یقینی طور پر
ثابت ہوگیا کہ "شرح فقه اكبر" کے انصر رضا کی طرف سے پیش کردہ مصری نسخے میں غلطی سے "موسى" کی جگہ "عيسى" چھپ گیا جسے سیاق و سباق
دیکھے بغیر انصر رضا نے اپنی دلیل بنا لیا ..... نیز یہ بھی واضح ہو گیا کہ ملا
علی قاری رحمة الله عليه وسلم ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ حضرت عيسى عليه
السلام کی موت ہو چکی ہے جیسے انصر رضا نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے
..
اسی طرح انصر رضا نے علامہ ابن القيم رحمة الله عليه کی کتاب "مدارج السالكين" سے ایک حوالہ پیش
کیا ہے کہ اس میں بھی یہ حدیث لکھی ہے کہ : "لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين
لكانا من أتباعه" اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو وہ لازماً آنحضرت صلى الله عليه
وسلم کے پیروکاروں میں شامل ہوتے .. اس سے انصر رضا نے یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ
علامہ ابن القيم کا عقیدہ بھی یہ
تھا کہ حضرت عيسى عليه السلام فوت ہو چکے ہیں ..
اس کے بارے میں
عرض ہے کہ انصر رضا نے یہاں آدھی بات نقل کی ہے، اس کتاب میں اس سے آگے کے الفاظ
یہ ہیں : "وَإِذَا نَزَلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، فَإِنَّمَا
يَحْكُمُ بِشَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ترجمہ: اور جب مريم کے بیٹے عيسى عليهما السلام نازل ہوں گے تو وہ حضرت محمد صلى الله عليه
وسلم کی شريعت کے مطابق فیصلے فرمائیں گے .. (مدارج
السالكين، الجزء الثانى ، صفحه 496 دار الكتب العلمية بيروت) .
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی جگہ علامہ ابن قیم یہ فرما
رہے ہیں کہ عيسى عليه السلام اپنے نزول کے بعد شريعت محمديه کے مطابق فیصلے فرمائیں گے تو پھر اس سے
پہلے والے الفاظ کہ "اگر موسى اور عيسى عليهما السلام زندہ ہوتے تو وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں ہوتے" کا کیا
مطلب؟ يقيناً یہاں بھی اسی حدیث کا بیان تھا جس میں صرف موسى عليه السلام کا ذکر ہے، عيسى عليه السلام کا نام یہاں بھی کسی غلطی کی وجہ سے لکھ
دیا گیا ورنہ بعد والے الفاظ کا کوئی مطلب نہیں بنتا، نیز علامہ ابن قيم رحمة الله عليه نے اپنا عقیدہ بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی دوسری کتابوں میں بھی
بیان کردیا ہے ، مثلاً اپنی کتاب
"هداية
الحيارى في اجوبة اليهود والنصارى" میں حضرت عيسى عليه السلام کا ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں : " فَرَفَعَهُ
اللَّهُ إِلَيْهِ وَأَسْكَنَهُ سَمَاءَهُ وَسَيُعِيدُهُ إِلَى الْأَرْضِ
يَنْتَقِمُ بِهِ مِنْ مَسِيحِ الضَّلَالِ وَأَتْبَاعِهِ، ثُمَّ يَكْسِرُ
الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ بِهِ الْخِنْزِيرَ، وَيُعْلِي بِهِ الْإِسْلَامَ " الله نےان کو اپنی طرف اٹھا لیا
اور اپنے آسمان میں رہائش دے دی، اور وہ انھیں دوبارہ زمین پر لوٹائے گا ، وہ
گمراہ مسیح (یعنی دجال) اور اس کے پیروکاروں سے ان کے ذریعے انتقام لے گا ، پھر
صلیب توڑے گا اور ان کے ذریعے صلیب توڑے گا، اور ان کے ذریعے اسلام کی سربلندی کرے
گا .(هداية الحيارى في أجوبة اليهود
والنصارى، صفحه 385 )
اسی طرح اپنی ایک اور کتاب "التبيان في ايمان القرآن" میں صاف طور پر لکھتے ہیں : "وهذا المسيح
ابن مريم عليها السلا حي لم يمت" اور یہ مسیح ابن مريم عليهما السلام زندہ ہیں ، انہیں موت نہیں آئی .
(التبيان في ايمان القرآن، صفحه 580)
ثابت ہوا کہ انصر رضا نے علامہ ابن القيم کو جو وفات مسیح کا قائل بنا کر پیش کرنے
کی کوشش کی ہے وہ صرف ایک فریب اور دھوکہ ہے .
اسکے بعد انصر رضا نے معروف صوفی عبدالوهاب
الشعرانى رحمه الله کی کتاب "اليواقيت والجواهر، جلد 2 صفحه 174" سے حوالہ دیا ہے کہ وہاں بھی یہ حدیث لکھی ہے کہ "لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين ما
وسعهما الا اتباعي" اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو ان دونوں کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ
ہوتا .
اس سے انصر رضا نے پھر یہ دھوکہ
دینے کی کوشش کی کہ علامه عبدالوهاب
شعرانى رحمة الله عليه بھی اس بات کے قائل تھے
کہ حضرت عيسى عليه السلام زندہ نہیں ہیں اور ان کا نزول نہیں ہونا ، لیکن
یہاں بھی انصر رضا نے اسی صفحے پر اسی عبارت سے پانچ چھ سطریں آگے کی عبارت جان
بوجھ کر نہیں لکھی ، آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ الفاظ کیا ہیں :
"كون عيسى
عليه الصلاة والسلام اذا نزل الى الأرض لا يحكم بشرع نفسه الذي كان عليه قبل رفعه
وانما يحكم بشرع محمد صلى الله عليه وسلم الذي بعث به الى امته...." ترجمه: حضرت عيسى عليه الصلاة والسلام جب زمین پر نازل
ہوں گے تو وہ اپنی اس شريعت کے مطابق فیصلے نہیں فرمائیں گے جس پر وہ اپنے رفع سے پہلے عمل کرتے تھے، بلکہ وہ اس شريعت کے مطابق فیصلے
کریں گے جو شريعت حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کو دے کر ان کی امت کی طرف بھیجا گیا .
(اليواقيت والجواهر ، جلد 2 صفحه 174 انصر رضا كا پیش کردہ صفحه)
آپ نے دیکھا کہ یہیں علامہ شعرانى نے یہ بھی لکھ دیا کہ حضرت عيسى عليه السلام نے زمین پر نازل
ہونا ہے اور پھر شريعت محمديه کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ اس شريعت کے مطابق جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھے .
اگر ابھی بھی انصر رضا کی تسلی نہ
ہوئی ہو تو ، اسی کتاب "اليواقيت والجواهر" اور اسی نسخے میں جس کا حوالہ انصر رضا نے پیش کیا ہے، علامہ عبدالوهاب شعرانى نے علامت قیامت
کا ذکر کرتے ہوے حضرت عيسى ابن مريم
عليهما السلام کے نزول کا بھی ذکر کیا ہے ، اور پھر اسی بحث میں ایک سوال جواب یوں لکھا
ہے :
"فان قلتَ فاذا نزل عيسى عليه السلام
فمتى يموت؟ وكيف يموت؟ فالجواب: كما قاله
الشيخ في الباب التاسع الستين وثلثمائة أنه يموت اذا قتل الدجال وذلك أنه يموت هو
وأصحابه في نفس واحد ..... الخ" ترجمه:
اگر تم یہ کہو کہ جب عيسى عليه السلام نے نازل ہونا ہے
تو پھر ان کی موت کب ہوگی؟ اور کیسے ہوگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے جیسا کہ شيخ (محيي الدين ابن العربي) نے باب نمبر تین سو انہتر میں لکھا ہے کہ آپ (يعنى حضرت
عيسى عليه السلام) کی موت اس وقت ہوگی جب آپ دجال کو قتل کر چکیں گے ، نیز آپ اور آپ کے تمام
ساتھیوں کی موت ایک ہی وقت ہوگی .
(اليواقيت والجواهر ، جلد 2، صفحه 290 )
علامہ شعرانى کی اس عبارت کے بعد صراحت کے ساتھ ثابت
ہوگیا ہے کہ ان کے نزدیک ابھی حضرت عيسى عليه السلام
کی موت نہیں
ہوئی بلکہ دجال کو قتل کرنے کے بعد ہوگی ..اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان کی کتاب
میں بھی حدیث لوكان موسى وعيسى عليهما السلام حيين ما
وسعهما الا اتباعي کے الفاظ میں "عيسى" کے الفاظ زیادہ ہیں جبکہ اصل حدیث میں
صرف "موسى" کا ذکر ہے ، جیساکہ ہم آگے حدیث کی
کتابوں سے یہ ثابت بھی کریں گے .
اس
کے بعد انصر رضا نے "شرح العقيدة الطحاوية" کا بھی ایک حوالہ دیا ہے کہ اس میں بھی حدیث کے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ
" لوكان موسى
وعيسى عليهما السلام حيين لكانا من أتباعه " اگر موسى عليه
السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو وہ لازماً آنحضرت صلى الله عليه
وسلم کے پیروکاروں میں شامل ہوتے .
انصر رضا نے جس نسخے کا حوالہ
لگایا ہے وہ "المكتب الاسلامى بيروت" کا شائع شده ہے اور اس کی احادیث کی تخریج علامہ ناصر الدين البانى رحمة الله عليه نے کی ہے، اور اس
صفحے پر حدیث کے ان الفاظ کے بارے میں علامہ البانی نے حاشیے میں صاف لکھا ہے کہ
"هو حديث
محفوظ دون ذكر عيسى فيه فانه منكر عندي لم أره في شيء من طرقه" اس حدیث میں "عيسى"
عليه السلام کا ذکر میرے نزدیک منکر ہے، اس حدیث کے کسی طریق میں یہ
مجھے نہیں ملا (شرح العقيدة الطحاوية ، صفحه 511 ، حاشيه ، انصر رضا كا پیش کردہ صفحہ). لہذا ہماری بات قائم ہے کہ دنیا کی
کسی کتاب میں یہ حدیث سند کے ساتھ نہیں دکھائی جاسکتی جس میں حضرت "عيسى عليه السلام" کا ذکر ہو ، بلکہ
جہاں بھی ہے وہاں صرف "موسى"
عليه السلام کا ہی ذکر ہے ، اور اگر کسی کتاب میں حضرت عيسى عليه السلام کے الفاظ بھی نقل
ہوگئے ہیں تو یہ غلطی یا تساہل ہے .
یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ
"شرح العقيدة الطحاوية" اصل میں امام ابوجعفر الطحاوي
الحنفى رحمة الله عليه کے رسالے "العقيدة الطحاويه" کی شرح ہے، اور "العقيدة
الطحاوية" میں عقيده نمبر 129 میں لکھا ہے کہ "ہم علامات قیامت پر ایمان رکھتے ہیں" اور پھر ان
علامات میں ایک علامت یوں لکھی ہے : "نزول عيسى ابن مريم عليه السلام من
السماء" حضرت مريم کے بیٹے عيسى عليه
السلام کا آسمان سے نازل ہونا .(متن العقيدة
الطحاوية ، صفحه 31 ، دار ابن حزم)
اور انصر رضا کی طرف سے پیش کردہ
"شرح العقيدة الطحاويه" کے صفحه 500 و 501 پر علامات قیامت
کی تشریح میں حضرت عيسى عليه السلام کے نزول کا تفصیل
کے ساتھ ذکر موجود ہے، اس بارے میں چند احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ : "واحاديث الدجال وعيسى ابن مريم عليه السلام ينزل من السماء ويقتله ، ويخرج يأجود ومأجوج في أيامه بعد قتله
الدجال فيهلكهم الله اجمعين في ليلة واحدة ببركة دعاءه عليهم ، ويضيق هذا المختصر
عن بسطها" دجال کے بارے میں ، اور حضرت عيسى ابن مريم عليه
السلام کے آسمان سے نازل ہونے اور دجال کو قتل کرنے ، نیز دجال کے قتل کے بعد یاجوج و ماجوج کے آپ کے زمانے میں نکلنے اور پھر ان سب کو آپ کی بد دعا کی وجہ سے ایک
ہی رات میں اللہ کے ہلاک کرنے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں، یہ مختصر کتاب ان کی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی .
(شرح العقيدة
الطحاوية ، صفحه 501 ، انصر رضا کا پیش کردہ نسخہ)
لہذا انصر رضا کا امام طحاوي رحمة الله عليه يا شرح العقيدة الطحاويه کے مصنفین کو وفات مسیح کا قائل ثابت کرنا سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں .
حدیث کے اصل الفاظ کیا ہیں؟
اصول یہ ہے کہ کوئی بھی حدیث اس وقت تک معتبر نہیں ہوتی جب تک اس کی مکمل سند نہ دیکھ لی جائے اور اصول
حدیث کی رو سے اس کی جانچ نہ کرلی جائے، کسی مصنف کا اپنی کتاب میں کوئی الفاظ لکھ
کر یہ کہہ دینا کہ یہ حدیث ہے کافی نہیں، یا تو وہ اس کی مکمل سند ذکر کرے یا اس
کتاب کا حوالہ دے جس میں مکمل سند کے ساتھ وہ حدیث موجود ہے یا اس محدث کا حوالہ
دے جس نے اپنی سند کے ساتھ وہ حدیث روایت کی ہے.
قادیانی مربی حضرات یوں تو مختلف
کتابوں کے حوالے پیش کریں گے کہ ان میں حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ "اگر موسى عليه السلام اور عيسى عليه السلام زندہ ہوتے تو ان دونوں کو میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا" لیکن وہ کبھی بھی ان الفاظ کے ساتھ حدیث کی نہ تو
سند پیش کریں گے اور نہ حدیث کی اس کتاب کا نام لیں گے جس میں مکمل سند کے ساتھ یہ
الفاظ مروی ہوں ... در حقیقت وہ بھی جانتے ہیں کہ حدیث کی کسی کتاب میں سند کے
ساتھ اس حدیث میں حضرت عيسى عليه
السلام کا ہرگز ذکر نہیں، آئیے ہم مختصراً جائزہ لیتے ہیں کہ جس حدیث کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے وہ کن کتابوں میں ہے اور
اس کے الفاظ کیا ہیں اور اس حدیث کی اصول حدیث کی رو سے کیا حيثيت ہے؟ .
حديث كى مختلف كتب میں حضرت جابر بن عبدالله رضي الله عنه سے ایک حدیث مروی
ہے جس کے اندر یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
"لوكان موسى
حياً بين اظهركم ما حل له الا ان يتبعني" اگر موسى عليه السلام تمہارے درمیان ہوتے تو انہیں بھی ميرى
تابعدارى کے سوا چارہ نہ ہوتا ، ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث ان کتابوں
میں ہے (مسند احمد بن حنبل طبع مؤسسة الرسالة ، حديث نمبر 14631 /
مسند ابي يعلي الموصلي طبع بيروت ، حديث نمبر 2132 / شعب الايمان للبيهقي طبع رياض ، حديث نمبر 176 )... جبكه مصنف ابن
ابي شيبه میں الفاظ یہ ہیں "لوكان موسى حياً ما وسعه الا أن
يتبعني" مفہوم اس کا بھی
وہی ہے (مصنف ابن ابي شيبه طبع دار التاج ، بيروت ، حديث نمبر
26421) اور "شرح السنة للبغوي" میں الفاظ یوں ہیں
"ولوكان موسى
حياً ما وسعه الا اتباعى" ان الفاظ کا مفہوم بھی وہی ہے (شرح السنة للبغوي طبع المكتب الاسلامي بيروت، حديث نمبر 126) ،الغرض! کسی کتاب میں بھی حضرت عيسى عليه
السلام کا ذکر نہیں .
بلکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایک جگہ اس حدیث کا
حوالہ دیا ہے اور وہاں صرف حضرت موسى عليه السلام کا ذکر کیا ہے اس کے الفاظ ہیں "آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ موسى عليه
السلام زندہ ہوتے
تو وہ بھی میری ہی اطاعت
کرتے"
(الحكم قاديان ، نمبر 17 جلد 7 ،
صفحه 13 مورخه 10 مئي ش1903)
اس حدیث کی اسنادی حيثيت
اوپر ذکر کی
گئی تمام کتب حدیث میں اس حدیث کی سند میں بھی ایک راوی "مجالد بن
سعيد بن عمير بن بسطام الكوفى" پایا جاتا ہے جس کے بارے میں امام
بخاری نے فرمایا کہ : يحيى بن سعيد کے نزدیک وہ ضعیف ہے، امام احمد بن حنبل کے نزدیک اس راوی کی کوئی حيثيت نہیں، يحيى بن معين نے فرمایا : اس کی حدیث قابل استدلال نہیں، اور یہ بھی فرمایا کہ وہ ضعیف ہے،
امام نسائی نے بھی کہا کہ : وہ قوی راوی نہیں، دار قطنی نے کہا: اس راوی کا کوئی اعتبار نہیں، محمد بن سعد کا کہنا ہے : وہ حدیث میں ضعیف تھا، ابن
حبان نے کہا : اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں . (دیکھیں: تهذيب التهذيب: جلد 10 صفحه 39 ، طبع دائرة المعارف ، الهند) ، لہذا وه حديث بھی جس میں صرف موسى عليه السلام کا ذکر ہے اس کی سند میں یہ متکلم فیہ راوی پایا جاتا ہے .
شيخ الاسلام ابن تيميه رحمة الله عليه كا عقيده
اس کے بعد انصر رضا نے شيخ الاسلام
ابن تيميه رحمة الله عليه کے فتاویٰ سے ایک
حوالہ پیش کیا ہے لیکن عربی عبارت کے اندر
موجود لفظ "توفي" کا اردو ترجمہ
اپنی طرف سے وفات بمعنى "موت" کیا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام ابن تيميه بھی وفات مسیح کے قائل تھے (یہ جھوٹ امام ابن تيميه پر مرزا قادیانی نے بھی بولا ہے)، جبکہ ابن تيميه رحمة الله عليه نے تو صراحت کے
ساتھ لکھا ہے کہ "توفى" تین اقسام کی ہوتی ہے اس کا معنى صرف موت نہیں ،کہیں اس كا معنى موت ہوتا ہے اور کہیں نہیں (حوالہ آگے آرہا ہے)،
ہم امام ابن تيميه رحمة الله
عليه کے عقیدے کو بیان کرنے کے لیے چند حوالے پیش کرتے ہیں تاکہ
اس قادیانی دھوکے کا بھی ازالہ ہو جائے .
سب سے پہلے اسی فتاویٰ ابن تيميه کا حواله ملاحظه فرمائیں جس سے
انصر رضا نے حوالہ دیا ہے ، ابن تيميه اسی سوال کا تفصيلي جواب دے رہے ہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کو موت دے دی گئی
یا انہیں زندہ ہونے کی حالت میں اٹھا لیا گیا ؟ ، فرماتے ہیں : "عِيسَى
عَلَيْهِ السَّلَامُ حَيٌّ وَقَدْ ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {يَنْزِلُ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ
حَكَمًا عَدْلًا وَإِمَامًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ
الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ} وَثَبَتَ فِي
الصَّحِيحِ عَنْهُ {أَنَّهُ يَنْزِلُ عَلَى الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيِّ
دِمَشْقَ وَأَنَّهُ يَقْتُلُ الدَّجَّالَ} . وَمَنْ فَارَقَتْ رُوحُهُ جَسَدَهُ
لَمْ يَنْزِلْ جَسَدُهُ مِنْ السَّمَاءِ وَإِذَا أُحْيِيَ فَإِنَّهُ
يَقُومُ مِنْ قَبْرِهِ. وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى {إنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ
إلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} فَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ لَمْ يَعْنِ بِذَلِكَ الْمَوْتَ؛ إذْ لَوْ
أَرَادَ بِذَلِكَ الْمَوْتَ لَكَانَ عِيسَى فِي ذَلِكَ كَسَائِرِ الْمُؤْمِنِينَ؛
فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبِضُ أَرْوَاحَهُمْ وَيَعْرُجُ بِهَا إلَى السَّمَاءِ
فَعُلِمَ أَنْ لَيْسَ فِي ذَلِكَ خَاصِّيَّةٌ. وَكَذَلِكَ قَوْلُهُ:
{وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا} وَلَوْ كَانَ
قَدْ فَارَقَتْ رُوحُهُ جَسَدَهُ لَكَانَ بَدَنُهُ فِي الْأَرْضِ كَبَدَنِ سَائِرِ
الْأَنْبِيَاءِ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ. وَقَدْ قَالَ
تَعَالَى فِي الْآيَةِ الْأُخْرَى: {وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ
شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا
لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ
رَفَعَهُ اللَّهُ إلَيْهِ} فَقَوْلُهُ هُنَا: {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إلَيْهِ} يُبَيِّنُ أَنَّهُ رَفَعَ بَدَنَهُ وَرُوحَهُ كَمَا ثَبَتَ
فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ يَنْزِلُ بَدَنُهُ وَرُوحُهُ؛ إذْ لَوْ أُرِيدَ
مَوْتُهُ لَقَالَ: وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ؛ بَلْ مَاتَ. [فَقَوْلُهُ: {بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إلَيْهِ} يُبَيِّنُ
أَنَّهُ رَفَعَ بَدَنَهُ وَرُوحَهُ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ يَنْزِلُ
بَدَنُهُ وَرُوحُهُ] ......" (خلاصہ) عيسى عليه السلام زندہ ہیں، صحیح
احادیث میں آیا ہے کہ وہ دمشق شہر کے مشرقی حصے میں سفید منارے کے پاس نازل ہوں گے
اور دجال کو قتل کریں گے، اور جس کی روح جسم سے الگ ہو گئی ہو بھلا وہ کیسے آسمان
سے نازل ہو سکتا ہے؟ ، الله تعالى کے کلام "متوفيك" میں "توفي" سے مراد موت نہیں
کیونکہ اگر اس سے مراد موت ہوتی تو یہاں خصوصيت کے ساتھ عيسى عليه السلام كا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہتی
کیونکہ موت تو سب کو آتی ہی ہے ، نیز اگر آپ کی روح جسم سے جدا ہوئی ہوتی تو آپ کا
جسم مبارک دوسرے انبیاء نیز دوسرے لوگوں کی طرح زمین میں ہوتا (اس سے کشمیر والی
قبر کی بھی تردید ہو گئی – ناقل) ، "بل رفعه الله
اليه" کا مطلب ہے کہ آپ کو جسم اور روح سمیت اٹھایا گیا
، کیونکہ اگر اس سے مراد موت ہوتی تو الفاظ یوں ہوتے کہ نہ وہ انہیں
قتل کر سکے ، نہ صلیب دے سکے بلکہ وہ (اپنی طبعى موت) فوت ہو گئے (جبکہ یہاں بل رفعه الله اليه کے الفاظ ہیں کہ الله نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا) جو یہ
بیان کرتا ہے کہ آپ کو جسم اور روح دونوں کے ساتھ اٹھایا گیا، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آپ اپنے بدن
اور روح کے ساتھ نازل ہونگے .
(مجموع
الفتاوى لابن تيميه ، جلد 4 صفحه 322 –
323 , طبع سعوديه)
اسی طرح امام ابن تيميه رحمة الله
عليه نے صاف طور پر یہ بھی لکھ دیا کہ : "لَكِنَّ
عِيسَى صَعِدَ إلَى السَّمَاءِ بِرُوحِهِ
وَجَسَدِهِ " کہ عيسى عليه السلام اپنی روح اور جسم
سمیت آسمان پر چڑھ گئے.
(مجموع
الفتاوى لابن تيميه ، جلد 4 صفحه 329 ,
طبع سعوديه)
یہاں چونکہ انصر رضا نے اجماع امت کا قصہ چھڑا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے
کہ امام ابن تيميه رحمة الله عليه کا ایک اہم حوالہ بھی پیش کردیا جائے ، آپ نے لکھا ہے : " وأجمعت الأمة
على أن الله رفع عيسى إلى السموات " امت کا اس پر اجماع ہے کہ الله نے عيسى عليه السلام کو آسمان پر اٹھا لیا .(بيان تلبيس
الجهمية ، جلد 1 صفحه 125 ، طبع سعوديه)
(علامه ابن تيميه رحمة الله عليه نے یہی بات اس کتاب میں ان
صفحات پر بھی لکھی ہے،جلد3 صفحه 745، جلد4 صفحه457، جلد8 صفحه28، جلد8 صفحه184) ، لیجئے! ثابت ہوا کہ حضرت عيسى عليه السلام کے آسمان پر
اٹھائے جانے پر امت اسلامیہ کا اجماع ہے) .
اب آئیے دیکھتے ہیں امام ابن تيميه رحمة الله عليه نے لفظ "توفي" کے کیا کیا معانى بيان کیے ہیں ؟ ، لکھتے ہیں:
"وَلَفْظُ
التَّوَفِّي فِي لُغَةِ الْعَرَبِ مَعْنَاهُ: الِاسْتِيفَاءُ وَالْقَبْضُ، وَذَلِكَ ثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ: أَحُدُهَا: تَوَفِّي
النَّوْمِ، وَالثَّانِي: تَوَفِّي الْمَوْتِ، وَالثَّالِثُ: تَوَفِّي الرُّوحِ
وَالْبَدَنِ جَمِيعًا، فَإِنَّهُ بِذَلِكَ خَرَجَ عَنْ حَالِ أَهْلِ الْأَرْضِ
الَّذِينَ يَحْتَاجُونَ إِلَى الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَاللِّبَاسِ وَالنَّوْمِ،
وَيَخْرُجُ مِنْهُمُ الْغَائِطُ وَالْبَوْلُ، وَالْمَسِيحُ عَلَيْهِ السَّلَامُ
تَوَفَّاهُ اللَّهُ وَهُوَ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ إِلَى أَنْ يَنْزِلَ إِلَى
الْأَرْضِ، لَيْسَتْ حَالُهُ كَحَالَةِ أَهْلِ الْأَرْضِ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ
وَاللِّبَاسِ وَالنَّوْمِ، وَالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ" ترجمہ: لغت عرب میں لفظ "توفي" كا معنى ہوتا ہے کہ کسی چیز کا پورا پورا لے لینا ، یہ تین قسم کا ہوتا ہے، ایک نیند
کے معنى میں، دوسرا موت
کے معنى میں اور تیسرا
روح اور جسم دونوں کو لے لینا (اس جگہ
سیاق و سباق میں امام ابن تيميه
رحمة الله عليه یہی بیان کر رہے ہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کی تيسرى قسم والی توفى ہوئی، جسے تفصیل دیکھنی ہو اس مقام پر دیکھ سکتا ہے، اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ
آسمان پر ان کا کھانا پینا اور دیگر بشری تقاضے کیسے پورے کرتے ہوں گے؟ تو اس کا
جواب آگے دیتے ہیں -ناقل ) جب انہیں زمین
سے لے جاکر آسمان پر لے جایا گیا تو اب ان کی حالت اہل زمین سے مختلف ہو گئی جو
کھانے پینے، لباس، سونے وغیرہ کے محتاج ہوتے ہیں ، مسيح عليه السلام کو الله نے پورا
پورا لے لیا اور وہ دوسرے آسمان قیام پذیر ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر نازل ہونگے
ان کی حالت وہاں اہل زمین کی طرح نہیں .(الجواب
الصحيح لمن بدّل دين المسيح ، جلد 4 صفحه
38 ، دار العاصمة للنشر والتوزيع)
لیجئے! ابن تيميه نے تو "توفى" کی تین اقسام
کھول کر بیان فرما دیں اور یہ بھی فرما دیا کہ حضرت عيسى عليه السلام کی "توفي" تیسری قسم کی ہے
یعنی آپ کو روح اور جسم سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ پھر زمین پر نازل ہونگے
، لہذا قادیانی گروہ کا امام ابن تيميه
رحمة الله عليه کو وفات مسیح کا قائل بتانا صرف ایک فریب اور دھوکہ ہے .
علامه احمد بن محمد القسطلانى رحمة
الله عليه كا عقيده
انصر رضا نے علامہ قسطلانی کی کتاب "المواهب اللدنيه" کی ایک عبارت نقل کرکے بھی یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علامہ قسطلانی بھی اس بات کے قائل
تھے کہ حضرت عيسى عليه السلام فوت ہوچکے ہیں اور انہوں نے نازل نہیں ہونا، جبکہ علامہ قسطلانی نے اپنی اسی کتاب میں متعدد مقامات پر یہ بیان کیا ہے کہ
حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام نے نازل ہونا ہے ، سب سے پہلے دیکھتے ہیں انصر
رضا نے کس عبارت سے وفات مسیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، اسکے بعد ہم اسی کتاب سے
"نزولِ مسيح عليه السلام" ثابت کریں گے،
علامہ قسطلانی سورة آل عمران کی آیت کریمہ
"وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ
جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ
وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي
قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ" کی تشریح کرتے ہوۓ ایک قول یہ
نقل کرتے ہیں کہ : "وقيل معناه: أن الأنبياء- عليهم الصلاة والسلام- كانوا
يأخذون الميثاق من أممهم بأنه إذا بعث محمد- صلى الله عليه وسلم- أن يؤمنوا به وأن
ينصروه، واحتج له بأن الذين أخذ الله الميثاق منهم يجب عليهم الإيمان بمحمد- صلى
الله عليه وسلم- عند مبعثه، وكان الأنبياء عند مبعث محمد- صلى الله عليه وسلم- من
جملة الأموات، والميت لا يكون مكلفا، فتعين أن يكون الميثاق مأخوذا على الأمم" ترجمہ: اور کہا گیا ہے کہ (قيل کے ساتھ جو بات بیان کی جائے وہ بعض لوگوں کا قول ہوتا ہے_ناقل)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء عليهم السلام اپنی اپنی امتوں سے یہ عہد لیتے تھے جب محمد صلى الله عليه وسلم کی بعثت ہوگی تو وہ ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت کریں گے، اور اس کی دلیل یہ
پیش کی گئی کہ جن سے الله نے عہد لیا ان کے لیے لازم کیا گیا کہ وہ محمد صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے وقت ان پر ایمان لائیں گے ، اور انبیاء تو آپ صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے وقت فوت شدہ لوگوں میں
ہوچکے تھے اور فوت شدہ کو (کسی عہد یا حکم) کا مکلف نہیں بنایا جا سکتا ، لہذا
ثابت ہوا کہ یہ عہد امتوں سے لیا گیا تھا. (المواهب اللدنية بالمنح المحمديه ، جلد 3 صفحه 148 طبع المكتب الاسلامي بيروت).
انصر رضا نے ان الفاظ سے کہ
"انبیاء آپ صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے وقت فوت شدہ
لوگوں میں سے ہو چکے تھے" سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تمام تمام
انبیاء کی بات ہو رہی ہے جس میں حضرت عيسى عليه
السلام بھی شامل ہیں ، جبکہ یہاں صرف یہ بیان ہو رہا ہے کہ چونکہ
یہ میثاق اور عہد تمام انبیاء سے لیے جانے کا ذکر ہے اور وہ سب
آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے وقت زندہ نہیں
تھے .... عربی میں کبھی اکثریت کا حکم سب کے لیے ذکر کردیا جاتا ہے، جیسا کہ "المواهب اللدنيه" کے شارح علامه زرقانى رحمة الله عليه نے بیان بھی
کردیا ، انہوں نے اس اس مقام کی شرح کرتے ہوۓ لکھا "لا يرد عيسى وإدريس على حياتهما،
والخضر على حياته ونبوته؛ لأن الحكم للأكثر" ان الفاظ
سے حضرت عيسى اور حضرت ادريس عليهما السلام کی زندگی پر اعتراض نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی حضرت خضر عليه
السلام کی زندگی پر ، کیونکہ یہاں اکثریت کا حکم بیان ہوا ہے (علامہ زرقانی کی رائے میں حضرت ادريس اور حضرت خضر عليهما السلام بھی زندہ ہیں-ناقل).
(شرح الزرقانى
على المواهب اللدنية ، جلد 8 صفحه 345 ،
طبع دار الكتب العلمية بيروت)
آئیے اسی بات کو ہم خود علامہ قسطلانى کی عبارات سے بھی ثابت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہاں اکثریت کا حکم بیان کیا
گیا ہے جس میں حضرت عيسى عليه السلام داخل نہیں، ورنہ آپ حضرت عيسى عليه
السلام کے نزول کا بار بار ذکر نہ فرماتے ، انصر رضا کہ پیش کردہ
حوالے سے صرف دو صفحے بعد علامہ قسطلانى نے لکھا: " يأتى عيسى- عليه السّلام- فى آخر الزمان على شريعته، وهو نبى كريم على
حاله، لا كما يظن بعض الناس أنه يأتى واحدا من هذه الأمة، نعم هو واحد من هذه
الأمة لما قلنا من اتباعه للنبى- صلى الله عليه وسلم-، وإنما يحكم بشريعة نبينا-
صلى الله عليه وسلم- بالقرآن والسنة، وكل ما فيهما من أمر ونهى، فهو متعلق به كما
يتعلق بسائر الأمة، وهو نبى كريم على حاله لم ينقص منه شىء" ترجمہ: عيسى عليه السلام آخری زمانے میں
تشریف لائیں گے اور وہ نبی ہوتے ہوۓ ، آپ صلى الله عليه وسلم کی شريعت پر عمل پیرا ہوں گے، یہ بات نہیں جیسے بعد لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ اس امت میں سے ایک فرد ہوں
گے، ہاں اس معنى میں وہ اس امت میں سے ایک ہوں گے کہ وہ آپ
صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں سے ایک ہوں گے، اور وہ ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کی شريعت يعنى قرآن وسنت کے مطابق فیصلے
کریں گے، اور جو کچھ اس میں امر و نہی ہے ساری امت کی طرح وہ بھی اس پر عمل پیرا ہوں گے، لیکن رہیں گے وہ برگزیدہ
نبی ان کی نبوت سے کچھ بھی کم نہ ہوگا.(المواهب
اللدنية بالمنح المحمديه ، جلد 3 صفحه 150 طبع المكتب الاسلامي بيروت)
ایک اور جگہ ملک شام کا ذکر کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: "وبها ينزل عيسى ابن مريم- عليه
السّلام " اسی ملک
شام میں حضرت عيسى عليه السلام نازل ہوں گے .(المواهب
اللدنية بالمنح المحمديه ، جلد 1 صفحه 129)
اور پھر ایک جگہ اس شبہے کا جواب دیتے ہیں کہ اگر حضرت عيسى عليه السلام نے نازل ہونا ہے
تو پھر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا کیا مطلب؟ (یہ شبہ قادیانی بھی اکثر پیش کرتے ہیں)، نیز
اس شخص کا حکم بھی بیان کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ نبوت اب بھی جاری ہے: "ولا يقدح فى
هذا نزول عيسى ابن مريم- عليه السّلام- بعده، لأنه إذا نزل كان على دين نبينا- صلى
الله عليه وسلم- ومنهاجه، مع أن المراد: أنه آخر من نبئ. قال أبو حيان: ومن ذهب
إلى أن النبوة مكتسبة لا تنقطع، أو إلى أن الولى أفضل من النبى فهو زنديق يجب قتله
والله أعلم" ترجمہ: اور
حضرت عيسى ابن مريم عليهماالسلام کا آپ صلى الله عليه وسلم کی بعثت کے بعد نازل ہونا
آپ کے آخری نبی ہونے میں مخل نہیں ہے، کیونکہ جب آپ نازل ہوں گے تو ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کے دین اور طریقے پر ہوں گے ، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے
سے مراد یہ ہے کہ ان ہستیوں میں سے آخری ہیں جنہیں نبوت دی گئی (یعنی آخری نبی
ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کسی کو نبوت
نہیں دی جائے گی، كوئى نیا نام انیباء کی فہرست میں شامل نہیں ہو
سکتا_ناقل)، ابو حیان نے کہا ہے کہ : جو یہ کہے کہ نبوت اب بھی حاصل کی جاسکتی ہے
اور وہ ختم نہیں ہوئی یا یہ کہے کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے تو وہ زندیق ہیں اور واجب القتل ہے . (المواهب
اللدنية بالمنح المحمديه ، جلد 3 صفحه 173)
تو یہ ہے علامہ قسطلانی رحمة الله
عليه وسلم کا عقیدہ ، وہ تو صاف طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عيسى ابن مريم عليهما السلام نے ہی نازل ہونا
ہے .
اس کے بعد انصر رضا نے تیرھویں اور چودھویں صدی ہجری کے چند لوگوں کے نام بھی
لکھے ہیں ، اب ہم مختصر طور پر ان کا جائزہ لیتے ہیں، انصر رضا نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوى رحمة الله عليه کے ایک مناظرے میں ان کا ایک قول
پیش کرکے بھی دھوکہ دینے کی کوشش ہے، مولانا ایک پادری کے سامنے یہ ثابت کر
رہے ہیں کہ جو کھانے پینے کا محتاج ہو اور
جس پر موت آتی ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا ، اسی ضمن میں یہ الفاظ فرمائے کہ : "حضرت
عيسى عليه السلام اور سرى رام اور سري كرشن کو معبود کہنا یوں بھی عقل میں نہیں آسکتا کہ وہ کھانے پینے کے محتاج تھے ، پاخانہ پیشاب مرض اور موت
سے مجبور تھے..." (ميله خدا
شناسى ، صفحه 13 طبع مير محمد كتب خانه کراچی)، یہاں مولانا صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو کھانے
پینے ، پیشاب پاخانے ان سب چیزوں کا یا کسی ایک چیز کا بھی محتاج ہو، جس پر مرض آتی ہو، جسے موت آسکتی ہو
وہ معبود نہیں ہوسکتا، اور مسلمانوں میں اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں کہ حضرت عيسى عليه السلام کو موت نہیں آئے
گی ، یوں موت سے وہ بھی مجبور ہوۓ ، ان الفاظ سے یرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زندہ
نہیں ہیں اور انہوں نے نازل نہیں ہونا.
اسی طرح انصر رضا نے ایک مصری
عالم محمد الغزالى کی کتاب "عقيدة المسلم" کے اردو ترجمے سے چند الفاظ پیش کرکے یہ دعوى کیا ہے کہ ان کے نزدیک وفات مسیح اسلامی عقیدہ ہے، انصر رضا
نے جان بوجھ کر اصلی عربی کتاب کے الفاظ نہیں پیش کیے، حوالہ عربی کتاب کا دیا ہے
لیکن عکس اسکے ارود ترجمے کا لگایا ہے جس
میں غلط اردو ترجمہ کیا گیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں علامہ محمد الغزالى نے کیا الفاظ لکھے، وہ یہاں حضرت عيسى عليه السلام کی الوہیت کی تردید کے دلائل ذکر کر رہے ہیں، اسی ضمن میں لکھتے ہیں : "لأنه في حياته عبد ضعيف وبعد مماته
رفات مواري في حفرة من تراب" ترجمہ: (حضرت عيسى عليه السلام اس لیے بھی معبود
نہیں ہوسکتے) کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ایک کمزور بندے ہیں، اور اپنے مرنے کے بعد
وہ مٹی کے ایک گڑھے (یعنی قبر) میں (ہڈیوں کے) ملبه کی صورت چھپنے والے ہیں . (عقيدة المسلم ، عربي ، صفحه 54 ، طبع دار نهضة
مصر )
ان الفاظ میں کوئی ایسا لفظ (كان وغيره) نہیں جس سے
"ماضی" کا معنى لیا جائے کہ وہ زندگی میں ایسے تھے
اور مرنے کے بعد قبر میں دفن کردیے گئے ، اگر کسی اردو ترجمہ کرنے والے نے یہاں
غلط ترجمہ کردیا ہے تو اس کی غلطی شيخ محمد
الغزالى کے سر نہیں ڈالی جا سکتی، آئیے ہم
اسی کتاب "عقيدة المسلم" سے شيخ محمد الغزالى کا عقیدہ بھی بیان کیے دیتے ہیں تاکہ انصر رضا کا دھوکہ
مزید واضح ہو کر سامنے آجائے ، علامات قیامت کا ذکر کرتے ہوۓ شيخ محمد الغزالى لکھتے ہیں:
"منها
رجوع عيسى بن مريم الى الحياة الدنيا مرة أخرى ..." ان علامات قیامت میں سے ایک علامت حضرت عيسى ابن مريم (عليهما السلام) کا دوبارہ دنیا کی زندگی میں لوٹ کر
آنا بھی ہے .
(عقيدة المسلم ، عربي ، صفحه 229)
غور فرمائیں! صاف "رجوع" اور
"مرة أخرى" کے الفاظ لکھے ہیں کہ انہوں نے دوسری بار لوٹ کر آنا ہے ، لوٹ
کر وہی آتا ہے جو پہلے ہو کر گیا ہو ، ان صریح الفاظ کے بعد شيخ محمد الغزالى کے عقیدے میں
کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا .
اس کے بعد انصر رضا نے چودھویں صدی کی چند شخصیات کا ذکر کرتے ہوۓ سرخی جمائی
ہے کہ "بڑے بڑے علماء کا وفات مسیح کے قائل ہونے
کا اقرار" اور پھر حضرت مولانا محمد يوسف بنورى رحمة الله عليه کی کتاب "عقیدہ نزول مسيح عليه
السلام ، قرآن وحديث اور اجماع امت كى روشنى میں" کے مقدمہ سے یہ حوالہ پیش کیا ہے کہ اس میں اقرار کیا گیا ہے کہ
مولانا ابوالكلام آزاد، مولانا عبيد الله سندھی اور جار الله جیسے علماء بھی
وفات مسیح کے قائل تھے ..
عرض ہے کہ یہ سب لوگ چودھویں صدی
ہجری میں ہوۓ ، اگر بالفرض ان لوگوں کو غلطی لگی اور انہوں نے ان تمام احادیث متواترہ کو اپنی دانست میں
قابل اعتماد نہ سمجھا اور نزول مسيح عليه السلام کا انکار کربیٹھے
تو اس سے تیرہ صدیوں سے چلے آرہے اجماع امت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ نیز مولانا عبيد الله سندھی رحمة الله عليه کی اپنی کسی تحریر میں یہ
بات نہیں ملتی کہ وہ نزول مسیح عليه السلام کے منکر تھے ، جو ایک "الهام
الرحمن" نامی تفسیر ان کی طرف منسوب کی جاتی ہے یہ ان تصنیف نہیں
بلکہ مولوی جار الله صاحب کے نوٹس ہیں
, مولانا محمد يوسف بنورى رحمة الله عليه نے اپنی اس کتاب میں بیان کردہ مضامین ایسے ہی حضرات کی رائے کو غلط ثابت کرنے کے لیے
لکھے تھے .
اسی طرح انصر رضا نے مولانا ظفر
احمد عثمانى رحمة الله عليه کے بیٹے قمر احمد عثمانى کی کتاب کا بھی ذکر کیا
ہے، تو عرض ہے کہ اس
کتاب میں بہت سی باتیں خلاف واقعہ لکھی ہیں ، جیسے مصنف کا یہ دعوى کہ حضرت عبدالله بن
عباس رضي الله عنهما بھی حضرت عيسى عليه السلام کی وفات
کے قائل تھے ، جبکہ کسی مستند روایت سے ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عبدالله بن عباس رضي الله عنهما نے یہ فرمایا ہو
کہ "حضرت عيسى عليه السلام کی موت ہوچکی ہے" (ماضی میں)، بلکہ اسکے برعكس تفاسیر میں حضرت عبدالله بن
عباس رضي الله عنهما سے صحیح سند کے ساتھ ایسی
روایات موجود ہیں جن میں حضرت عيسى عليه
السلام کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا صریح ذکر ہے .
الغرض! قمر احمد عثمانى جیسے لوگوں کی بات کی ہمارے نزدیک کوئی حيثيت نہیں، انہوں نے اپنے اس رسالے میں جس کا حوالہ انصر رضا نے
دیا وہی قادیانی دلائل دہرائے ہیں ، مثلاً جب حضرت عيسى عليه السلام کا بقول مسلمان
علماء نزول ہوگا تو اس وقت آیت "بل رفعه الله اليه" کا کیا بنے گا؟ (وہی
بنے گا جو الم ، غلبت الروم . في أدنى الراض وهم بعد غلبهم سيغلبون کا رومیوں کی فتح کے بعد آج تک قرآن میں موجود ہونے کا بنا ہے ، اگر قمر عثمانى جیسے لوگ سورة الروم كى ان آيات کو نکال سکتے ہیں تو قرآن سے نکال دیں کیونکہ ان آیات میں بیان کردہ خبر تو کئی صدیاں
پہلے پوری ہو چکی_ناقل)، نیز قمر عثمانی نے یہ غلط فہمی دینے کی کوشش کی ہے کہ
حضرت عيسى عليه السلام کا رفع ونزول کا قرآن واحادیث
متواترہ سے ثابت نہیں ، نیز وہ اجماع کو مستقل
حجت نہیں مانتے ، ہاں ان کے والد مولانا ظفر
احمد عثمانى رحمة الله عليه واقعی ایک بڑے
عالم تھے اور جیسا کہ مولانا محمد
يوسف بنورى رحمة الله عليه نے اپنی کتاب میں
ذکر کیا ہے وہ رفع ونزول عيسى عليه السلام کے ہی قائل تھے اور انہوں نے منكرين نزول عيسي عليه السلام کے رد میں لکھا
بھی تھا ، لیکن ان کے بیٹے قمر عثمانى نے اپنے والد سے بھی اختلاف کیا اور یار لوگ
صرف عوام الناس کے سامنے قمر عثمانى صاحب کو قابل قدر ہستی ثابت کرنے کے لیے ان کے نام کے ساتھ "ابن شيخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانى" بھی لکھتے ہیں لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ صرف کسی اہم اور بڑی ہستی کا بیٹا
ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ بیٹا بھی کوئی مقام رکھتا ہے ، قمر عثمانى صاحب جیسے لوگوں نے "تمنا عمادی" کی خود ساختہ
منطق کو ہی کاپی کیا ہے، میں نے اپنی کتاب "احاديث نزول عيسى ابن مريم عليهما
السلام اور منكرين حديث کے اعتراضات كا علمى وتحقيقى جائزه" میں تمنا عمادی ، قمر احمد
عثمانى اور ان کے ہمنواؤں کی تلبیسات پر سیر حاصل بحث کردی ہے .
مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم
اور نزول عيسى عليه السلام
انصر رضا نے مولانا احمد رضا خان
صاحب رحمه الله کے بارے میں بھی ان کے مرزا قادیانی کے خلاف دیے گئے ایک فتوے سے صرف ایک سطر پیش کرکے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مولانا بریلوی کے نزدیک بھی حضرت عيسى عليه السلام کا زندہ ہونے اور
قرب قیامت نازل ہونے پر اجماع نہیں ہے،
مولانا کے پاس ایک "استفتاء"
آیا تھا جس میں سوال کرنے والے (شاہ میر خان قادری رضوی) نے
ایک آیت کریمہ اور ایک حدیث شریف لکھی تھی اور لکھا تھا کہ ان سے حضرت عيسى عليه السلام کے آسمان پر زندہ
ہونے کی بظاہر نفی سمجھ آتی ہے (جیسا کہ مرزا قادیانی نے یہ دھوکہ دیا) ، مولانا
بریلوی نے اس سوال کے جواب میں جو فتویٰ تحریر فرمایا اس کا نام عربی میں "الجراز
الدياّنى على المرتد القادياني" اور ارود میں "قادیانی مرتد پر خدائی تلوار" رکھا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تقريباً 18 صفحات پر مشتمل مفصل فتوے
میں سے انصر رضا نے جو دو سطریں پیش کی ہیں ان الفاظ پر بات کرنے سے پہلے اسی فتوے
کے چند مندرجات پڑھ لیے جائیں تاکہ انصر رضا کے پیش کردہ الفاظ کا صحیح مفہوم سمجھ
آ جائے .
مولانا احمد رضا خان مرحوم اسی
فتوے میں حضرت عيسى عليه السلام کے متعلق لکھتے ہیں :
"فرض کردم کہ رب عزوجل نے اُن کو اُس وقات وفات هى دي، پھر اس سے ان
کا نزول کیونکر ممتنع ہوگیا؟ انبياء عليهم السلام کی موت محض ایک آن کو تصدیق وعدہ الہیہ کے لئے ہوتی ہے پھر وہ ویسے ہی حیات حقیقی دنیاوی وجسمانی زندہ
ہوتے ہیں جیسے اُس سے پہلے تھے، زندہ کا دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ رسول الله صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں : الانبياء أحياء في قبورهم يصلون , انبیاء زندہ ہیں اپنی قبروں میں ، نماز پڑھتے ہیں ....."
(الجزار الديّاني
على المرتد القادياني، مندرجه فتاوى رضويه
جلد 15 ، صفحه 613)
آگے ایک جگہ لکھتے ہیں :
"جب صادق و مصدوق صلى الله عليه وسلم نے اُن کے نزول کی خبر دی اور وہ
اپنی حقیقت پر ممکن و داخل زیر قدرت وجائز، تو انکار نہ کرے گا مگر گمراہ".
(حواله مذكوره ، صفحه 614)
اسی فتوے میں صاف یہ بھی لکھا ہے کہ :
"مسیح سے مثیل مسیح مراد
لینا تحریف نصوص ہے کہ عادت یہود ہے ...... ایسی تاویل گھڑنی نصوص شريعت سے استهزاء اور احكام وارشادات كو درهم برهم كرنا ہے".
(حواله مذكوره، صفحه 615)
اس کے بعد مولانا بریلوی نے تفصیل
کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ مرزا قادیانی کسی صورت بھی حضرت عيسى عليه السلام کا مثیل نہیں ہو سکتا جو طوالت کے خوف
سے ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے
اب غور کیجئے مولانا کے ان الفاظ
پر :
"اس وقت حيات ووفات حضرت
مسيح عليه الصلاة والسلام كا مسئله قديم سے مختلف چلا آتا
ہے مگر آخر زمانے میں ان کے تشریف لانے اور دجّال لعين کو قتل فرمانے میں کسی کو
کلام نہیں، یہ بلا شبہ اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے، تو وفات مسیح نے قادیانی کو
کیا فائدہ دیا اور مغل بچہ عيسى رسول
الله بے باپ سے پیدا ابن مریم کیونکر ہو سکا؟ قادیانی اُس اختلاف کو پیش کرتے ہیں ، کہیں
اس کا بھی ثبوت رکھتے ہیں کہ اس پنجابی کے ابتداع في الدين سے پہلے مسلمانوں کا یہ اعتقاد تھا کہ عیسی آپ تو نہ
اتریں گے کوئی ان کا مثیل پیدا ہوگا، اسے نزول عيسى فرمایا گیا اور اس کو ابن مریم کہا گیا؟ اور جب یہ عام مسلمانوں کے عقیدے کے
خلاف ہے تو آیہ ]يتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولّى ونصله جهنم مسلمانوں کی راہ سے جدا چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں
گے اور اسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بُرى جگہ پلٹنے کی[ ، کا حکم صاف ہے ".
(حواله مذكوره ، صفحه 614)
مولانا کے اس فتوے سے لئے گئے ان اقتباسات سے روز روشن کی طرح یہ ثابت ہوا کہ
ان کے نزدیک:
1)
حضرت عيسى عليه السلام کا قیامت سے پہلے
نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا یہ اہل سنت كا اجماعی عقیدہ ہے .
2)
یہ کہنا کہ نزول عيسى عليه السلام سے مراد کسی "مثیل مسیح" کا پیدا ہونا ہے یہ عام مسلمانوں کے عقیدے
کے خلاف بات ہے اور دوزخ میں داخل کرنے والی ہے ، نیز یہ بات تحریف نصوص کے زمرے
میں آتی ہے اور نصوص شرعيه کے ساتھ استهزاء اور احكام كو درهم برهم كرنا ہے.
3)
چونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت عيسى عليه السلام کے نزول کی خبر دی ہے لہذا اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو گمراہ ہو.
4)
اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ حضرت عيسى عليه
السلام پر کسی وقت وفات
آئی تھی تو بھی یہ اس بات کی دلیل نہیں بن
سکتی کہ وہ زندہ نہیں اور اب نازل نہیں ہو سکتے، کیونکہ انیباء پر وفات تو صرف ایک
آن (یا کچھ لمحوں) کے لیے آتی ہے پھر وہ ویسے ہی حیات حقیقی دنیاوی وجسمانی کے
ساتھ زندہ ہوتے ہیں جیسے اُس سے پہلے تھے، (لہذا وہ اب بھی زندہ ہیں ) اور زندہ کا
دوبارہ تشریف لانا کیا دشوار؟ .
قارئين محترم! مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم کی ان عبارات سے واضح ہے کہ وہ حضرت عيسى عليه السلام کے قرب قیامت
نازل ہونے اور دجّال کے ان کے ہاتھ سے قتل ہونے کو اہل سنت کا اجماعی عقیدہ سمجھتے
تھے، اور ان کے نزدیک جو نزول عيسى عليه السلام کا منکر ہو وہ
گمراہ ہے، نیز نزول عيسى ابن مريم عليهما السلام سے مراد کسی
"مثیل مسیح" کا پیدا ہونا مراد لینے والے بھی مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف
عقیدہ رکھتے ہیں اور قرآن کی رو سے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا رہے ہیں، اب آئیے وہ الفاظ دیکھتے ہیں جو
انصر رضا نے پیش کیے ہیں ، مولانا نے اپنا فتوى ان الفاظ سے شروع فرمایا ہے :
"قادیانی صدہا درجے سے
منکر ضروریات دین تھا اور اس کے پس ماندے حيات ووفات سيدنا عيسى رسول الله على نبينا الكريم وعليه صلوات الله
وتسليمات الله کی بحث چھیڑتے ہیں، جو ایک فرعى مسئله خود مسلمانوں میں ایک نوع کا
اختلافی مسئله ہے جس کا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں (فائدہ نمبر 4 میں آئے گا کہ نزول حضرت عيسى عليه
السلام اهل سنت كا اجماعى عقيده ہے)"(حواله
مذكوره، صفحات 612 – 613)
انصر رضا نے اس عبارت کے ان الفاظ سے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو سرخ رنگ سے واضح کیے گئے ہیں، اور
یہ تأثر دينا چاہا ہے کہ
مولانا احمد رضا خان یہ فرما رہے ہیں
کہ "اس بات میں مسلمانوں کا اختلاف ہے کہ اس وقت حضرت عيسى عليه السلام زندہ ہیں یا
نہیں؟" جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انصر رضا کا ان الفاظ سے یہ نتیجہ نکالنا سراسر
غلط ہے کیونکہ اسی جگہ اسی عبارت میں آگے بين القوسين مولانا نے یہیں لکھ دیا
کہ" نزول عيسى عليه
السلام اہل سنت کا اجماعی عقیدہ ہے "، اور پھر آگے فائدہ نمبر 4 میں اس کی وضاحت بھی فرما دی، نیز مولانا نے اسی فتوے میں اپنا عقیدہ یہ لکھا
ہے کہ انبیاء پر تو وفات صرف ایک آن يا چند لمحوں کے لیے
آتی ہے اس کے بعدوہ ویسے ہی حیات حقیقی دنیاوی وجسمانی کے ساتھ زندہ ہوجاتے
ہیں جیسے اُس سے پہلے تھے، اور يقيناً مولانا
کے نزدیک حضرت عيسى عليه
السلام بھی انبیاء کے زمرے میں داخل ہیں لہذا ان کے مطابق اگر بالفرض ان پر ایک لمحے کے
لیے وفات یا موت آئی بھی ہو تو اس کے بعد وہ زندہ ہو گئے اور اس وقت وہ زندہ ہی ہیں ، اگر انصر رضا کے
پیش کردہ الفاظ سے مراد یہ ہوتی کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس وقت بھی حضرت عيسى عليه السلام آسمانوں پر زندہ نہیں ہیں تو مولانا کے فتوے میں موجود ان کی دوسری عبارات درست نہیں
بیٹھیں گی .
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
مولانا ان الفاظ میں کہ "حيات ووفات سيدنا عيسى رسول الله على نبينا الكريم ایک فرعى مسئله خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئله ہے جس کا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں" کس اختلاف کا ذکر فرما رہے
ہیں؟ تو وہ اہل علم جنہوں نے قدیم
تفاسیر کا مطالعه ہے بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں حضرت عيسى عليه السلام كى "توفى" اور "رفع الى
السماء" کا ذکر ہے (آيت كريمه متوفيك ورافعك الي کی تفسیر میں) وہاں مختلف اقوال ملتے ہیں، ایک یہ کہ حضرت عيسى عليه السلام پر ایک لمحے کے بھی موت نہیں آئی اور آپ کو بیداری اور زندہ ہونے کی حالت میں جسم سمیت آسمان پر اٹھا لیا گیا (اس قول کو مفسرین نے سب سے راجح قول قرار دیا
ہے)، دوسرا قول بعض لوگوں سے یہ منقول ہے کہ آپ کو الله نے سلا دیا اور پھر نیند
کی حالت میں آپ کو آسمان پر اٹھا لیا (حضرت ربيع سے یہ قول مروی ہے)، تیسرا قول یہ ہے کہ الله تعالى نے حضرت عيسى عليه
السلام کو کچھ وقت کے لیے وفات دے کر جسم آسمان پر اٹھایا اور ایک
قول کے مطابق انہیں تین دن کے لیے وفات دی پھر
دوبارہ زندہ کرکے آسمان پر اٹھا
لیا (یہ قول وهب بن منبه سے منقول ہے) تفصیل کے لیے تفسير ابن ابي حاتم، تفسير طبري
اور تفسير ابن كثير وغيره دیکھی جا سکتی
ہیں (یاد رہے اس بات پر بہرحال تمام متقدمين کا اتفاق ہے اور كسي كا بھی اختلاف نہیں کہ حضرت عيسى
عليه السلام کو جسم سمیت آسمان پر اٹھایا گیا اور وہ اس وقت آسمانوں میں
زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت انہوں نے ہی نازل ہونا ہے) .
تو مولانا احمد رضا خان رحمه الله اس بات كى طرف
اشارہ فرما رہے ہیں کہ اس میں اختلاف ہے کہ آیا حضرت عيسى عليه السلام پر کچھ دیر کے
لیے موت آئی اور بعد میں دوبارہ زندہ کردیے گئے یا ان پر موت آئی ہی نہیں، اسی کے
بارے میں وہ فرما رہے ہیں کہ دونوں قسم کے اقوال اسلاف سے منقول ہیں لہذا ان میں
سے کسی بھی قول والے کو گمراہ نہیں کہا جاسکتا ، اصل بات یہ ہے کہ اس وقت وہ زندہ
ہیں اور انہوں نے نازل ہونا ہے اس پر کسی کا اختلاف نہیں اور یہ اہل سنت کا
اجماعی عقیدہ ہے .
نوٹ: یاد رہے کہ مرزا
قادیانی نے خود لکھا ہے کہ "جس نے بھی کسی اجماعی
عقیدے کا انکار کیا اس پر الله، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت".(مكتوب احمد، روحانى خزائن، جلد 11 صفحه 144)
(لہذا جب مولانا احمد رضا خان صاحب بھی لکھ رہے ہے
ہیں کہ حضرت مريم عليها السلام کے بیٹے حضرت عيسى عليه السلام کے نزول پر اہل سنت
کا اجماع ہے تو اس اجماع کا منکر بقول مرزا قادیانی ملعون ٹھہرا) .
---------
اصل کتابوں کے حوالہ جات کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں
عقیدہ
ختم نبوت، رفع ونزولِ
عيسي عليه السلام کے
بارے میں کسی بھی قسم کا سوال ہو یا فتنہ قادیانیت کے بارے میں کچھ پوچھنا ہو تو
مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ فرمائیں .
h.ubaid153@gmail.com
No comments:
Post a Comment